تحریر:ڈاکٹرمحمدعدنان،ماہرامراض جلد
موجودہ دور میں بھی ڈینگی ، کانگو وائرس ، پولیو ، ہیپا ٹائٹس ، کینسر ،
ایڈز ، برڈ فلو ، انتھراکس اورالرجی و دیگر موذی بیماریاں اپنا وجود رکھتی
ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی اور بیماریوں کی بدولت یہ بیماریاں قابل کنٹرول ہیں ،
ان سے ہلاکتیں تو ضرور ہوتی ہیں مگر ان کی شدت قدرے کم ہوتی ہے۔آگاہی مہم
اور جدید طریق علاج کی وجہ سے یہ بیماریاں سرتوضرور اٹھاتی ہیں مگر احتیاطی
تدابیر کے باعث وسیع تر ہلاکتوں کا باعث نہیں بنتیں۔موسم کی مناسبت کے باعث
گرما کے آغازسے قبل ہی حکومت پنجاب نے حفظ ماتقدم کے طور پرمختلف اضلاع میں
ڈینگی کے بارے میں الرٹ کردیا ہے۔یہ موسم مچھروں کی افزائش کے لئے بہترین
ہے ، بریڈنگ سیزن کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے ، ڈینگی کے بارے میں
معلومات حاضر خدمت ہیں۔ڈینگی موذی مرض ہے جس سے ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں
افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ 1770 کے عشرے کے دوران پہلی بار یہ مرض براعظم
افریقہ اور شمالی امریکہ میں پھیلا۔اس وقت اس بارے میں مکمل معلومات نہ
ہونے کی وجہ سے کئی مریض موت کے منہ میں چلے گئے بعد ازاں اس بارے میں
تحقیقات کا آغاز ہوا اور 1904 میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مرض مچھروں کی
وجہ سے پھیلتا ہے اور 1951 میں باقاعدہ طور پر اسے خطرے کی گھنٹی تصور کیا
جانے لگا اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مرض سے ہونیوالی ہلاکتیں بڑھتی
ہی چلی گئیں اور آجکل یہ مرض پاکستانی قوم پر حملہ آور ہے۔ڈینگی ایک مخصوص
مچھر (Aedes Aegypti) کے کاٹنے سے پھیلتا ہے جس کاوائرس مچھر کے جسم میں
پلتا ہے اور کاٹنے سے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔ یہ مرض ایک انسان سے
دوسرے میں براہ راست نہیں پھیلتا۔ ڈینگی پھیلانے والا مچھر عام طور پر
میدانی علاقوں میں پایا جاتا ہے جو صبح دھوپ نکلنے سے پہلے اور شام کے بعد
نکلتا ہے اور اسی دوران انسانوں کو کاٹتا ہے۔ اگلے 2 سے 20 دن تک اس کا
وائرس جسم میں افزائش پاتا ہے اسکے بعد مچھر کے انسانوں کو کاٹنے سے یہ
وائرس دوسروں میں ٹرانسفر ہو جاتا ہے۔ ڈینگی لاروا صاف پانی میں نمو پاتا
ہے اور زیادہ تر گھروں کے گملوں، پانی کی بالٹیوں ، روم کولرز، چھت پر جمع
اور گھاس میں کھڑے پانی میں پھلتا پھولتاہے۔ڈینگی کا خطرہ چھوٹے بچوں اور
نوجوانوں میں زیادہ ہوتا ہے جبکہ شوگر، دمہ یا دوسرے دائمی امراض میں مبتلا
افراد میں یہ مرض خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے جو ابتدائی بخار کی شکل میں
واضح ہونا شروع ہوتا ہے اسکی علامات میں بخار کے علاوہ جسم میں شدیددرد،
تھکان، آنکھوں و پٹھوں میں کھنچاؤ، جسم کی سرخی مائل رنگت ، کھانسی، الٹی
اور پاخانے کے ساتھ خون کا آنا شامل ہیں اگر مرض بڑھ جائے تو جسم کی نالیوں
سے خون رسنا شروع ہو جاتا ہے اور خون میں پلیٹلیٹس کم ہونے سے خون بہنے کی
رفتار اور تیز ہو جاتی ہے شدت اور بڑھ جائے تو Dengue Hemorrhegic fever یا
Dengue Shock Syndrome کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں پھیپھڑوں میں پانی
کے باعث سانس لینے میں دشواری‘ مسلسل کھانسی، جسم پر خارش، دماغی جھلیوں کا
متاثر ہونا بھی شامل ہے جبکہ اس میں مبتلا مریض کا بچنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ڈینگی کی مکمل تشخیص کیلئے مریض کے خون کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہے۔
ڈینگی کے علاج کیلئے کوئی مخصوص دوا دستیاب نہیں ہے‘ بخار اور درد کیلئے
صرف پیراسٹامول لے سکتے ہیں جبکہ بروفن اور ڈسپرین گروپ کی دوائیاں نہیں
لینی چاہیے کیونکہ ڈینگی میں ان اد ویات سے خون بہنے کا خطرہ ہوتا ہے ڈینگی
کے مریض کے بارے میں ماہرین طب نے ہدایات دی ہیں کہ اس مرض کا باعث بننے
والے مچھر کو بھگانے کیلئے لوشن استعمال کیا جائے، پانی اور نمکول ڈاکٹر کی
ہدایات کے مطابق استعمال کریں، مریض پرپانی کی پٹیاں رکھی جائیں، گھروں کے
دروازوں، کھڑکیوں اور روشن دانوں کو جالی سے ڈھانپا جائے، گھروں کی چھتوں
پر سونے والے افراد مچھر دانی کا استعمال ضرور کریں، صاف پانی ذخیرہ
کرنیوالے برتنوں، ٹینکیوں اور ڈرموں کو ڈھانپ کر رکھا جائے، گھروں میں کاٹھ
کباڑ اور پرانے ٹائروں کو ہٹا دیا جائے، گملوں ، کیاریوں میں اضافی پانی کے
نکاس کا فوری بندوبست کیا جائے۔پنجاب حکومت انسداد ڈینگی کیلئے مسلسل کئی
سالوں سے جنگی بنیادوں پر کام کر رہی ہے جس کے مثبت نتائج آج سب سے سامنے
ہیں۔اس سے بچاؤ کیلئے ہر وہ اقدام اٹھائے جا رہے ہیں جوان کے بس میں ہے
جبکہ ان ڈور سرویلنس پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔محکمہ صحت کے ساتھ
ساتھ دیگر ادارے جن میں ماحولیات، سوشل ویلفیئر ، انفارمیشن ، تعلیم و دیگر
ادارے بھی انسداد ڈینگی کے حوالہ سے بھرپورموثر اور فعال کردار ادا کر رہے
ہیں۔ڈینگی موذی مرض ضرور ہے مگر اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہماری
اجتماعی کاوشوں کی بدولت اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ محکمہ صحت کیطرف سے جن
مقامات کو چیک کیا جا رہا ہے ان جگہوں کی سرویلنس محکمہ زراعت کے اینٹا
مالوجسٹ سے تھرڈ پارٹی کے طور پر کرائی جا رہی ہے۔ ضلع جھنگ میں
انسدادڈینگی کے حوالہ سے باقاعدگی سے سرویلنس کا عمل جاری ہے جبکہ ڈپٹی
کمشنر محمد طاہر وٹو کی ہدایت پر تمام ہسپتالوں میں شہریوں کی سکریننگ کی
جا رہی ہے۔اب تک جھنگ کو ڈینگی فری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ تمام اداروں
کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس حوالہ سے شہریوں میں بھی بھرپور آگاہی
کیلئے سیمینار اور واکس کا انعقاد وقتا فوقتا کیا جا رہا ہے۔اب معاشرے کے
تمام افراد ڈینگی کے خلاف صف آرا ہوں اور اجتماعی کاوشوں میں اپنا حصہ
ملائیں۔
٭٭٭٭٭
|