سمجھ نہیں آتا کہ وفاقی وزیر رحمان ملک صاحب
پاکستان کے وزیر داخلہ ہیں یا امریکہ اور بھارت کے؟ان کی باتوں کا جائزہ
لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ وہ مسلمانوں،پاکستانیوں سے زیادہ مسیحی اور
ہندوؤں کے زیادہ حامی اور مددگار ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد جب بھارت نے
یکطرفہ طور پر پاکستان کے خلاف واویلا مچانا شروع کیا تو اس وقت بجائے اس
کے کہ وفاقی وزیر صاحب کچھ سوچ سمجھ کر ،کچھ مشورہ کر کے کوئی بیان دیتے
انہوں نے فوری طور پر بھارت کے موقف کی حمایت کی۔ نہ صرف یہ کہ حمایت کی
بلکہ جب بھارت نے دہشت گردوں کی کشتی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تو ہمارے
وزیر صاحب نے کچھ دنوں بعد ایک اور کشتی برآمد کر کے دعویٰ کیا کہ ہم نے
بھی دہشت گردوں کی کشتی برآمد کی ہے۔ اسکا مطلب کہ یا تو بھارت جھوٹ بول
رہا ہے یا وفاقی وزیر صاحب کیوں کہ اگر بھارت کا دعویٰ درست مانا جاتا ہے
تو وفاقی وزیر صاحب کا دعویٰ جھوٹا ہوتا ہے اور یہ تو ہمارے ممبران
پارلیمنٹ کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان سے پوچھتے کہ اگر آپ نے کشتی برآمد کی
ہے تو بھارت نے کیسے دعویٰ کرلیا ؟ لیکن ایسی باتیں کوئی نہیں پوچھتا۔
اب انہوں نے ایک بار پھر انتہا پسند ہندوؤں اور عیسائیوں کی مدد کی ہے ۔ آپ
پوچھیں گے کہ وہ کیسے؟ اس کا جواب بہت واضح ہے کہ’’ ورلڈ کپ کے آغاز میں ہی
بھارت کے انتہا پسند ہندو لیڈر بال ٹھاکرے نے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستانی
ٹیم فائنل کھیلنے بھارت آئی تو اس بات کا فیصلہ شیو سینا کے سربراہ بال
ٹھاکرے کریں گے کہ پاکستانی ٹیم کو میچ کھیلنے دیا جائے یا نہیں‘‘۔ اس سے
قبل بھی انتہا پسند ہندو تنظیم شیو سینا اور راشٹریہ سیوک سنگھ پاکستان کے
دورہ بھارت پر اعتراضات کرچکی ہے اور 2005میں پاکستان کے دورہ بھارت میں
کئی ایسے گراؤنڈز جہاں پاک بھارت میچز ہونے تھے ان کی پچز اکھاڑ دی گئیں
تھیں۔ حوالہ کے ملاحظہ کریں یہ لنک
https://www.bbc.co.uk/urdu/sport/story/2005/03/printable/050302_cricket_ashaar_as.shtml
اس کے علاوہ اب تو تحقیقات سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ بھارتی گجرات کے
شہر سورت میں سابر متی ایکسپریس کو آگ لگا کر ہندو مسلم فسادت بھڑکانے میں
بھی انہی اتہا پسند ہندوؤں کا ہاتھ تھا اور گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر
مودی اس میں ملوث تھے ، سابر متی ایکسپریس کو آگ ہندوؤں نے ہی لگائی تھی
لیکن اس کا الزام مسلمانوں پر لگا کر بد ترین قتل عام کیا گیا۔ اس قتل عام
کے بعد کی ایک ڈاکیومنٹری فلم جاری کی گئی تھی جس کا لنک یہ ہے
https://www.hamariweb.com/myreport/report.aspx?id=162
اسی طرح بھارتی ریاست آسام کے شہر مالیگاؤں میں 19 ستمبر 2008کو تراویح کے
دوران ایک مسجد میں بم دھماکہ کیا گیا جس میں 6 افراد شہید اور متعدد زخمی
ہوئے تھے، مالیگاؤں کی جامع مسجد میں بم دھماکے میں بھی انتہا پسند ہندو
اور بھارتی فوج کے حاضر سروس اور ریٹائر ڈ افسران ملوث تھے۔ اس کیس کا
مرکزی ملزم انتہا پسند ہندو لیڈر دیانند پانڈے کو پولیس نے گرفتار کرلیا
تھا اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا واضح رہے کہ بھارت نے اس
دھماکے کا الزام پاکستانی تنظیم جیشِ محمد پر لگایا تھا، اور اہم بات یہ کہ
اس کیس کی دیانت دارانہ تفتیش کر کے حقائق منظر عام پر لانے والے بہادر
پولیس افسر ہیمنت کُرکُرے کو مبینہ ممبئی حملوں میں ہلاک کردیا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 18فروری 2007کو سمجھوتہ ایکسپریس میں
آتشزدگی کے اندوہناک سانحے میں بھی یہ انتہا پسند ہندو ملوث تھے، سانحہ
سمجھوتہ ایکسپریس میں 75 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 60کا تعلق پاکستان سے
تھا۔یہ واردات بھی انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)نے کی تھی
اور اس میں بھی بھارتی فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران ملوث ہیں۔ مکمل
تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں یہ لنک
https://www.islamtimes.org/vdciyqa5.t1az327sct.html
https://royalnews.tv/?p=5758
ان سارے حقائق کے بعد وزیر داخلہ اور مرکزی حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ
بھارتی حکومت سے شیو سینا کی دھمکی کے تناظر میں کھلاڑیوں کی بھرپور
سیکورٹی کا انتظام کرنے کا مطالبہ کرتی اور آئی سی سی اور بھارتی حکومت سے
اس بیان پر احتجاج کرتی لیکن اس کے بجائے وفاقی وزیر داخلہ صاحب نے پاکستان
کے سیمی فائنل میں پہنچتے ہی بیان داغ دیا کہ ورلڈ کپ کے دوران طالبان
بھارت میں دہشت گردی کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد اچانک خبر آتی ہے کہ’’ کراچی سے
سری لنکا جانے والے دہشت گردوں کو مالدیپ میں گرفتار کیا گیا ہے۔اور ورلڈ
کپ میں دہشت گردی کے منصوبے کو ناکام بنا دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی رحمان
ملک صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان دہشت گرد بھارت پہنچ گئے ہیں‘‘ حیرت
ہے کہ رحمان ملک صاحب کراچی میں 2008سے جاری ٹارگٹ کلنگ ختم نہیں کراسکے ،
اور نہ ہی اس میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جاسکا۔ ملک میں ہونے والی کئی
دہشت گردی کی وارداتوں کو طالبان اور دیگر تنظیموں سے جوڑا گیا لیکن
تحقیقات سے وہ غلط ثابت ہوئے ۔ محترم رحمان ملک صاحب اپنے ملک میں تو کوئی
دہشت گردی ختم نہیں کراسکے لیکن یہ ضرور کیا کہ بھارت کے انتہا پسند ہندؤں
اور بھارتی حکومت کو ایک آڑ ضرور فراہم کردی ۔ اب ورلڈ کپ میں خدانخواستہ
کوئی بھی دہشت گردی ہوتی ہے چاہے وہ کوئی بھی کرے لیکن اب اس کا الزام
پاکستان اور طالبان پر آئے گا اور اس کے ثبوت میں محترم رحمان ملک صاحب کے
بیانات پیش کئے جائیں گے۔ اس طرح انہو ں نے ہندوؤں کی سازش کو بے نقاب کرنے
کے بجائے پیشگی ہی سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کی حکمت عملی وضع کرلی اور
اپنی پاکستان اور اسلام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ لوگ اسی میں خوش ہیں کہ
بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
صاحب کو موہالی میں پاک بھارت سیمی فائنل میچ دیکھنے کی دعوت دی ہے اور وہ
دعوت فوری طور پر قبول کرلی گئی۔
اب اسی طرح رحمان ملک صاحب نے تازہ ترین احمقانہ بیان یہ دیا ہے کہ امریکہ
میں قرآن پاک نذر آتش کرنے وا لے ملعون عیسائی پادری ٹیری جونز کا تعلق
القاعدہ اور طالبان سے ہے اور وہ القاعدہ کا ایجنٹ ہے۔ گویا کہ اب یہ بات
طشت ازبام ہوگئی ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے ذمہ دارانہ کے دلوں میں ذرا
سا بھی خوفِ خدا نہیں رہ گیا ہے اور نہ ہی یہ لوگ ملک اور ملت سے مخلص ہیں۔
سمجھ نہیں آتا کہ ان کے اس بیان کو کیا سمجھا جائے؟ کل تک یہ باور کرایا
جارہا تھا کہ القاعدہ اور طالبان انتہا پسند مسلمانوں کی تنظیمیں اور غیر
مسلموں کے خلاف ہیں لیکن اب اچانک وفاقی وزیر داخلہ صاحب نے ملعون پادری کی
حرکت پر عالمی برادری سے عیسائی پادری کی انتہا پسندی کا نوٹس لینے اور
عیسائی انتہا پسندی کو سامنے لاتے ، انہوں نے ضمیر فروشی کی اعلیٰ مثال
قائم کرتے ہوئے اس واردات کو بھی مسلمانوں سے جوڑ دیا ہے۔ اب سوچیں کہ کیا
ہمارے یہ بے غیرت اور بے حمیت حکمران ہمارے لئے کچھ کرسکتے ہیں؟ |