انقلاب لیبیا کے بعد

 امام جلال الدین رومی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک بچے کا باپ فوت ہو گیا وہ اپنے باپ کی لاش پر بین کر رہا تھا کہ اے ابا آخر تجھے کہاں لے جا رہے ہیں تاکہ مٹی کے نیچے گاڑدیں ، تجھے تنگ و تکلیف دے گھر لے جا رہے ہیں جہاں نہ قالین نہ بوریا ، نہ چراغ نہ روشن دان ، نہ کھانا نہ اس کی خوشبو ، نہ اس کا دروازہ درست نہ چھت نہ بالا خانہ ، نہ اس میں مہمان کے لئے پانی نہ وہاں کوئی ہمسایہ وہ تنگ و تاریک گھر جس میں نہ چہرہ باقی رہتا ہے اور نہ رنگت ۔ وہ اس گھر کے اوصاف گن رہا تھا اور دونوں آنکھوں سے آنسو بہا رہا تھا کہ ایک غریب بچے نے اپنے باپ سے کہا ابا دیکھنا اسے کہاں لئے جا رہے ہیں کہیں ہمارے گھر تو نہیں لا رہے ۔ باپ نے کہا بیوقوف نہ بن اسے ہمارے گھر نہیں لا رہے ۔ غریب بچے نے جواب دیا ابا یہ جو اس نے گھر کی نشانیاں بتائی ہیں یہ تو ساری کی ساری ہمارے گھر کی ہیں۔۔۔

قارئین مصر کے بعد لیبیا ، کویت ، شام ، اردن اورعرب ممالک میں جن اسباب کی بناء پر عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ایک انقلاب پوری عرب دنیا کو ہلا چکا ہے وہ تمام وجوہات وطن عزیز پاکستان میں گزشتہ 63سالوں کے استحصال ، جمہوری حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ ، فوجی ڈکٹیٹرز کی حماقتوں ، امریکہ اور یورپ کی تجارتی طمع اور لالچ کی وجہ سے پیدا ہو چکی ہیں اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ 18کروڑ پاکستانی جبرو استبداد ، معاشی استحصال ، فکری ظلم و ستم کی وجہ سے اس جگہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے اور پھر بادشاہتوں کے ایوان لرزنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر تخت گرائے جاتے ہیں اور تاج اچھالے جاتے ہیں اور فیض کی آواز بلند ہوتی ہے ۔۔۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ِازل پہ لکھا ہے
ہم دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت اچھالے جائیں گے
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
اٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں تم بھی ہو

قارئین پیٹرول بم ، آٹا بم ، بجلی بم ، گیس بم سے لیکر مہنگائی کے تمام اوزار اس وقت غریبوں پر آزمائے جا رہے ہیں ، حکمران یورپ ، امریکہ اور دیگر ممالک کے سیاحتی دورے کر رہے ہیں ، جمہوریت کی بلی عوام کے حصہ کے دودھ پر پل رہی ہے ، نہ جینے کی کوئی ادا باقی رہ گئی ہے اور نہ مرنے کی تسکین آسانی سے میسر ہے۔

خود کش دھماکوں کی ایک فصل کے بعد دوسری فصل تیار ہو رہی ہے اور حکمران اور اپوزیشن یک زبان ہو کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے معروضی حالات لیبیا ، مصر اور عرب ممالک سے یکسر مختلف ہیں اور یہاں پر عرب دنیا جیسے انقلاب کی نہ تو کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی امکان ۔۔۔

حکمران یاد رکھیں کہ جب غریبوں کے مسائل کو وسائل بنا کر جینا شروع کیا جاتا ہے ، انصاف کسی معاشرے سے اٹھ جاتا ہے ، میرٹ کا قتل عام کیا جاتا ہے اور رشوت ظلم ، جبر اور دیگر تمام علتیں عام ہو جاتی ہیں تو پھر انقلاب یہ نہیں دیکھتا کہ اس خطہ یا علاقہ میں عربی بولی جاتی ہے یا کوئی اور زبان ۔۔۔

انقلاب کی کوئی زبان نہیں ہوتی بالکل اسی طرح جس طرح بھوک کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔۔۔

پاکستان اس وقت امریکہ کی ایک کالونی بن چکا ہے برٹش ایمپائرسے آزادی کے بعد امریکن ویمپائر کروڑوں پاکستانیوں کا خون چوس رہا ہے اور ” سب سے پہلے پاکستان “ کے بعد ” جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے “ عوام کو بری طرح عاجز کر چکے ہیں حکمران ہوش کے ناخن لیں اور فرینڈلی اپوزیشن اخلاقی جرات کا سخت مظاہرہ کرے ۔

سابق ڈائریکٹر سی آئی اے جارج ٹینیٹ نے اپنی کتاب At The Center Of The Stormمیں لکھا ہے کہ سی آئی اے نے تین براعظموں میں القاعدہ کے مختلف لوگوں کا پیچھا کیا اور اسی سلسلہ میں سعودی عرب کا اعتماد بھی حاصل کیا سعودیوں کو یہ اضطراب تھا کہ ہم انہیں اطلاعات نہیں دیتے لیکن جب مئی 2003میں سعودی عرب بھی حملوں کی زد میں آیا تو سعودی ایکشن بھی ہماری مطلوبہ رفتار کے مطابق ہو گیا مئی 2003کے حملے میں 10امریکیوں اور 7سعودیوں سمیت 35افراد ہلاک جبکہ 200سے زائد زخمی ہوئے تھی یہ حملہ القاعدہ نے ریاض میں مغربی رہائشی علاقے میں کیا تھا ۔۔۔

قارئین یوں لگتا ہے کہ پاکستان کا تعاون اور اس کی مطلوبہ رفتار بھی جب امریکہ کی خواہش سے کچھ کم ہو جاتی ہے تو کسی نہ کسی علاقے میں ” القاعدہ “ یا کوئی اور ” بے قاعدہ “ قوت کوئی نہ کوئی حملہ کر دیتی ہے ، جی ایچ کیو پر اٹیک ہو جاتا ہے ، ایف آئی اے کی بلڈنگ اڑا دی جاتی ہے ، یا کسی سولین علاقے میں یا کسی مسجد یا امام بارگاہ میں بم دھماکہ ہو جاتا ہے اور ان حادثوں کے بعد پاکستانی تعاون کی رفتار امریکہ اور سی آئی اے کی توقعات کے مطابق بڑھ جاتی ہے ۔۔۔

یہ بات سوچنے والی ہے اور تحقیقی طلب ہے کہ ریمنڈ ڈیوس اور اس جیسے ہزاروں امریکن جا سوس سفارتی استثنیٰ کی چھتری تلے کیا پاکستان میں بسنت منانے کے لئے آئے ہوئے ہیں یا معصوم پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لئے ۔۔۔؟

یہ تمام حالات اس وقت پاکستان میں جمہور کی آواز بلند کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور اس بات کا قومی امکان ہے کہ عرب ممالک میں اٹھنے والا انقلاب بہت جلد پاکستان کے دروازے پر دستک دے گا اور یاد رکھئے کہ انقلاب کبھی ٹائی پہن کر نہیں آتا اور انقلابوں کے نتیجے خون کی سرخی سے لکھے جاتے ہیں۔

قارئین پاکستان سے امریکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ” ڈو مور“ کا مطالبہ حسب ذیل لطیفے کی طرح کر رہا ہے ۔

ایک نیلام گھر میں دوسری بہت سی چیزوں کے علاوہ پنجرے میں بند ایک طوطا بھی نیلامی کے لئے پیش کیا گیا ایک شخص کو وہ طوطا بڑا پسند آیا اور اس نے اس کی بولی 100روپے سے شروع کی لیکن بولی بڑھنے لگی اور کرتے کرتے 10ہزار روپے پر جا کر رکی سودا طے ہو جانے پر اس آدمی نے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھا اور پنجرا اٹھاتے ہوئے کہا یہ طوطا مجھے بہت مہنگا پڑا ہے اور اب یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ بولتا بھی ہے کہ نہیں ۔
نیلام گھر کے مالک نے جواب دیا ۔
” جناب فکر نہ کریں آپ کے مقابلے میں بولی یہ طوطا ہی دے رہا تھا ۔ “
قارئین ڈو مور کا مطالبہ طوطے کی بولی والی مثال ہی لگتی ہے ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336947 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More