تحریر : فائزہ فرید
2020ء امریکا میں صدارتی انتخابات کا سال ہے، پھر سے صدر بننے کے لیے ٹرمپ
کی کوششیں تیز ہوچکی ہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا بھی اسی
سلسلے کی ایک کڑی سمجھا جا رہا تھا۔ ٹرمپ کی کوشش یہی تھی کہ جلد از جلد
امریکی فوجیوں کا انخلا شروع کیا جائے کیونکہ امریکی عوام اب ٹریلئنز ڈالر
خرچ کرنے اور سینکڑوں فوجی جوانوں کی ہلاکت کے بعد اس جنگ کو خیر آباد کہنا
چاہتے ہیں۔ پچھلی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے امریکی عوام کو یہ لارا بھی
لگایا تھا۔ دوسرے الفاظ میں پوری دنیا کا ماما بننے کے چکر میں امریکی عوام
کافی کچھ گنوا کر اب اس فرض سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں مگر طالبان امریکا
کی شرائط پہ راضی نہیں اور امریکا کو طالبان کی شرائط پہ راضی ہونے نہیں
دیا جا رہا۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ بھی
انکا ذاتی فیصلہ تھا اور اب مذاکرات کو ختم کرنا بھی انھی کا فیصلہ ہے اور
ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ٹرمپ کو اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچانے والے پینٹاگون
اور دوسرے اہم اداروں میں بیٹھے یہودی تھنک ٹینک کی بھی تو یہی منشا ہے۔
ایک بات روز روشن کی طرح اب ہم پر عیاں ہونی چاہیے کہ 2020 اسرائیل اور
یہودیوں کے طرف سے نیو ورلڈ آرڈر کا سال ڈکلیئر کیا گیا ہے اور اس نیو ورلڈ
آرڈر کے لاگو ہونے سے پہلے اسرائیل افغانستان سے امریکا کو نکلنے کی اجازت
کبھی نہیں دے گا۔اسی طرح امریکی قومی سلامتی کے تمام ادارے جو بلاواسطہ یا
بالواسطہ یہودیوں(اسرائیل) کے زیر کنٹرول ہیں وہ بھی ٹرمپ کو ایسا کچھ کرنے
کے لیے مدد فراہم نہیں کریں گے۔ اس وقت اسرائیل کا سارا زور خلیجی ممالک کو
اپنے مطیع کرنے کا ہے اور ان کو دجال کا راستہ صاف کرنے کے لیے ہر صورت
گریٹر اسرائیل کا منصوبہ مکمل کرنا ہے۔
ایسے میں اپاہج خلیجی ممالک کی مدد کو اگر کوئی پہنچ سکتا ہے تو وہ وہی
مشرقی اسلامی ملک ہے جو کہ پہلی اور واحد اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے۔ کیا پھر
کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ امریکا ہزیمت اٹھا کر واپس چلا جائے گا اور
افغانستان پر گڈ طالبان کی حکومت ہو جائے گی تو ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔
امریکا افغانستان اس وقت تک نہیں چھوڑے گا جب تک اسرائیل کو پاکستان کی طرف
سے رتی برابر بھی خطرہ ہے۔ اس وقت مجھے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل
کی بات یاد آ رہی ہے کہ یہ دہشتگردی کے خلاف جنگ تو صرف اور صرف ڈرامہ ہے۔
اصل مقصد تو پاکستان کی تباہی ہے بلکہ جنرل صاحب کے الفاظ کچھ اس طرح ہوتے
تھے۔’ ’امریکا کا بہانہ طالبان، ٹھکانہ افغانستان اور نشانہ پاکستان ہے‘‘۔
جو آج اس دنیا کے طول و ارض میں ہو رہا ہے اس میں کہیں نا کہیں یہودیوں اور
اسرائیل کا ہاتھ ضرور ہے۔
یہود اس وقت قیامت کی چاپ سن رہے ہیں۔ وہ دن میں 3 بار اپنے دجال مسیح کو
پکارتے (شمعونے عسریکرتے) ہیں اور اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں بہت
جلد وہ جبل الزیتون پہ موجود سنہری عمارت کو توڑ کر ہیکل سلیمانی کی تلاش
کا کام وسیع کرنے والے ہیں ایسے میں انھیں اپنے راستے میں آنے والی ہر
مزاحمت کو کچلنا ہے۔ اس کے لیے چاہے انھیں کوئی تیسری عالمی جنگ ہی کیوں نا
کرانا پڑے۔ایک اہم اطلاع کے مطابق 10 اگست 2019ء کو ہیکل سلیمانی کی تلاش
کے حوالے سے ایک اہم نشانی ظہور پذیر ہوئی ہے۔
یہود کے عقیدے کے مطابق قیامت اس وقت واقع ہونے والی ہو گی جب بیت المقدس
میں دیوار گریہ کے پاس لومڑوں کا حملہ ہو گا۔ اس علاقے میں پہلے کبھی لومڑ
نہیں دیکھے گئے مگر 2019ء کے اگست کی 10 تاریخ کو یہودیوں کے اہم دن کے
موقع پر وہاں لومڑ دیکھیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں اب یہودیوں کی تیاریاں
زیادہ تیز ہو گئی ہیں ایسے میں امریکی صدر یہ اعلان کرتا ہے کہ ’’طالبان کے
ساتھ مذاکرات میرے خیال میں بالکل ختم ہو چکے ہیں‘‘۔ ساری دنیا کے ایوانوں
میں اس اعلان کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنا قیام
معاہدے کے خلاف بڑھا رہا ہے۔پاکستان کی افواج اور حکومت کو کشمیر میں بد
ترین مظالم میں الجھا دیا گیا۔
ہماری اکانومی جیسا کہ میں پہلے لکھ چکی ہوں اب صرف ستر ڈھانپنے جتنی ہی
باقی ہے۔ امریکا، چین سمیت ہر ملک کے ہم مقروض ہیں اسی لیے شاید چاہ کر بھی
کسی ملک کی مدد نہ کرسکیں گے۔ دنیا کے طول و ارض میں مسلمانوں کا خون بہایا
جا رہا ہے۔ افغان طالبان کو خفیہ ملاقاتوں کی دعوت دے کر پھر مذاکرات کے
ختم ہونے کا اعلان کیا جارہا ہے۔ عالمی برداری کشمیر میں جاری ہندوستانی
مظالم کے خلاف گونگے کا سا احتجاج کر رہی ہے مگر39 روز سے کرفیو جاری ہے۔
ایسے میں بین الاقوامی تنظیمیں آپکو مزید ایک ڈالر بھی قرض دینے پہ راضی
نہیں اور حال یہ ہے کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے
ہیں۔ یہ تمام حالات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس لیے سوچیے گا ضرور۔
|