غلط فہمی

بیٹا حالانکہ سالوں بعد ولایت سے گھر آ رہا تھا مگر دین محمّد کو اس کی آمد کی ذرا بھی خوشی نہ تھی- اس نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ جب تک وہ یہاں رہے گا، وہ اپنے بھائیوں میں سے کسی کے پاس چلا جائے گا- وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایسے بیٹے سے بات کرے یا اس سے سامنا ہو-

اس صورت حال سے اس کی بیوی بہت پریشان تھی- اس کا بیٹا جاوید اتنے عرصے کے بعد پاکستان آرہا تھا، وہ اس کی شکل دیکھنے کو ترس گئی تھی- شوہر کی اس بات نے اسے ذہنی طور پر بہت پریشان کردیا تھا- وہ سوچ رہی تھی کہ بیٹا یقیناً باپ کے رویے سے دلبرداشتہ ہوجائے گا- یہ بھی ممکن ہے کہ وہ واپس چلا جائے اور پھر کبھی مڑ کر یہاں کا رخ نہ کرے-

دین محمّد ایک مذہبی آدمی تھا- چار پانچ سال پہلے جب جاوید نے روزگار کے لیے برطانیہ کا رخ کیا تھا تو وہ اس کے سخت خلاف تھا- اس کے کئی دوست وہاں عرصے سے مقیم تھے اور اسے وہاں بلانے میں ان کی کوششوں کا بہت عمل دخل تھا- ان کے گاؤں کے بیشتر نوجوان روزگار کی تلاش میں مختلف غیر ممالک چلے گئے تھے- ان کا گاؤں کافی خوش حال تھا کیوں کہ جو لوگ یہاں سے چلے گئے تھے وہ باہر سے اپنے گھر والوں کو ہر ماہ ایک معقول رقم بھیجا کرتے تھے- کہنے کو تو یہ گاؤں تھا مگر شہروں سے بڑھ کر تھا- یہاں ہر طرف جدید طرز کے مکانات نظر آتے تھے اور ہر گھر میں آسائش کی ہر چیز موجود تھی-

بیٹے سے بدکنے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے وہاں اپنے ساتھ کام کرنے والی کسی امریکن لڑکی سے شادی کرلی تھی اور اب اسے اپنے ماں باپ سے ملوانے کے لیے لا رہا تھا- دین محمّد کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ اس کی اچھی تربیت کے باوجود اس کا بیٹا بھٹک جائے گا اور ایسا غلط فیصلہ کر لے گا- امریکن میمیں جب اپنے سے کہیں زیادہ کم عمر پاکستانی نوجوانوں کو اپنی محبّت میں گرفتار کروا کر ان سے شادی کر لیتی تھیں، اور ان کی ویڈیو ٹی وی پر دکھائی جاتی تھیں تو دین محمّدکے جاننے والے اور دوست ایسی بیویوں کے متعلق طرح طرح کی باتیں کرتے تھے- اب اس کے بیٹے نے خود ایسا کام کر لیا تھا- وہ اپنی نوبیاہتا بیوی کے ساتھ گاؤں آتا تو لوگ اس کے متعلق بھی ایسی ہی باتیں کرتے-

بیٹے کی شادی کا سن کر ماں کو بھی تھوڑا سا افسوس ہوا تھا- کم سے کم وہ شادی کرتے وقت اس کو تو اطلاع دے دیتا،، ماں باپ کی رضامندی تو حاصل کرلیتا، مگر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا- مگر ماں پھر ماں ہوتی ہے- اس نے بیٹے کی اس حرکت کو جی کا جنجال نہیں بنایا- وہ چونکہ ایک ماں تھی اس لیے بیٹے کی خوشی میں خوش تھی- وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ اس کا شوہر بیٹے سے ملے بغیر گھر چھوڑ کر اپنے کسی بھائی کے پاس چلا جائے-

رات ہوئی تو اس نے دین محمّد سے کہا- "دینو- میری خواہش ہے کہ تو ضد چھوڑ دے- زمانہ بدل گیا ہے- دیکھ تو اپنا جاوید کتنے دنوں بعد گھر آ رہا ہے- ٹھیک ہے اس سے غلطی ہوگئی ہے، اسے ہمارے مشورے سے شادی کرنا چاہیے تھی- مگر کیا اس غلطی کی اسے اتنی بڑی سزا ملے گی- وہ بیوی کو ہم سے ملوانے کے لیے لا رہا ہے- تو گھر میں نہ ہوا تو وہ کیا سوچے گی- جاوید کے دل پر کیا گزرے گی- اور پھر وہ آ بھی کتنے دنوں کے لیے رہا ہے، ہفتہ دو ہفتے کے بعد واپس چلا جائے گا- اچھا ہوگا وہ ہنسی خوشی آئے اور ہنسی خوشی واپس چلا جائے-"

"تو ان گوریوں کو نہیں جانتی-" اس کی بات سن کر دین محمّد بھڑک اٹھا- "ان کا پیار محبّت دکھاوے اور اپنے مطلب کا ہوتا ہے- یہ زندگی بھر کے لیے کسی کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتیں- ان کی تربیت جس ماحول میں ہوتی ہے وہ سب کو پتہ ہے- میں جاوید کو ایسا نہیں سمجھتا تھا-"

"اسے آلینے تو دے- میں اس سے پوچھ لوں گی کہ اس نے ایسا کیوں کیا- لیکن میں تجھ سے بس یہ ہی کہتی ہوں کہ اس موقع پر کوئی بدمزگی نہ پیدا کر- وہ غیر تھوڑا ہی ہے، ہمارا ہی بیٹا ہے- اس کی غلطیاں ہم معاف نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟"

بیوی کی بات سن کر دین محمّد کے چہرے سے غصے کے تاثرات تو ختم نہیں ہوۓ تھے مگر وہ خاموش ہوگیا- اس کی بیوی سمجھ گئی کہ اب وہ نرم پڑ جائے گا-

پھر ہوا بھی ایسا ہی- جاوید کے آنے کا دن آ گیا تھا- دین محمّد گھر سے کہیں نہیں گیا-

دو تین گھنٹے بعد دور سے دھول اڑاتی ایک گاڑی نظر آئی- دین محمّد ایک کشمکش میں تھا- دل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ بیٹے کا استقبال کرے- مگر پھر دل کو شکست ہوگئی اور جذبات جیت گئے- اسے یاد آیا کہ بچپن میں جاوید ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، اس سے بہت محبّت کرتا تھا- جب وہ اسے باتوں باتوں میں زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتا تھا تو دوسرے بچوں کے برعکس وہ اس کی باتوں کو بہت غور سے سنتا تھا- دین محمّد نے اسے ہمیشہ یہ ہی سبق دیا تھا کہ دنیا کی ہر مخلوق، چاہیے وہ انسان ہوں، جانور ہوں، پرندے ہوں، سب کو الله نے بنایا ہے اس لیے ان سے پیار محبّت کا سلوک کرنا چاہیے- یہ اس کی ان اچھی باتوں کا ہی اثر تھا کہ جاوید کے دل میں دوسروں کے لیے احترام، ہمدردی اور محبّت کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا- وہ نہ تو دوسرے بچوں سے لڑتا جھگڑتا تھا اور نہ اس میں وہ بری عادتیں تھیں، جو عموماً اس عمر کے بچوں میں اکثر نظر آتی ہیں- وہ کبھی اپنی ماں کی نافرمانی نہیں کرتا تھا اور ماں کے ساتھ اس کا رویہ بھی بہت اچھا اور محبّت بھر ہوا کرتا تھا-

یہ تمام باتیں ذہن میں آئیں تو دین محمّد تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا- اسے اس بات کا بہرحال افسوس تھا کہ اس نے ایک امریکن لڑکی سے شادی کیوں کی- عموماً ایسی شادی دونوں جانب سے اپنے فائدے کے لیے کی جاتی ہیں- وہ لڑکیاں پیسے والی ہوتی ہیں اور ان لڑکوں کو آسرا ہوتا ہے کہ انھیں غیر ممالک کی شہریت کے علاوہ مالی سپورٹ بھی مل جائے گی-

اسے بہرحال جاوید سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ بھی ایسے لوگوں کے رنگ میں رنگ جائے گا- مردوں کو تو اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے- سہارے نہیں ڈھونڈنے چاہییں-

جس گاڑی میں جاوید ائیرپورٹ سے یہاں آیا تھا، وہ ائیرپورٹ والوں کی ہی پرائیویٹ گاڑی تھی- پہلے جاوید اترا، اس کے بعد کالے گاؤن میں ملبوس اس کی بیوی اتری- اس کے منہ پر نقاب تھا، سر پر اسکارف اور آنکھوں پر کالے رنگ کا دھوپ کا چشمہ- اس نے ہاتھوں پر دستانے بھی پہن رکھے تھے- دین محمّد یہ رنگ ڈھنگ دیکھ کر پھر تاؤ کھانے لگا- "یہ بیوی کو اس روپ میں اس لیے لے کر آیا ہے کہ دیکھنے والے اسے اسلامی شعار کا پابند سمجھیں-" اس نے تلخی سے سوچا اور دوبارہ کمرے میں چلا آیا اور ایک کرسی میں بیٹھ کر کچھ سوچنے لگا-

زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اسے اپنی پشت پر کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی- اس کے ساتھ ہی ایک نسوانی آواز سنائی دی- "ابّا جھان- الّسلام و علیکم"- اس بے چاری نے نہ جانے کتنی پریکٹس کے بعد یہ الفاظ یاد کیے ہونگے-

دین محمّد نے نہ تو پیچھے مڑ کر دیکھا اور نہ ہی سلام کا جواب دیا، ویسے کا ویسے ہی بیٹھا رہا- جاوید کی ماں ان دونوں کے ساتھ آئی تھی- جاوید کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی شادی سے اس کا باپ خوش نہیں ہے اس لیے باپ کا سرد رویہ دیکھتے ہوۓ وہ بھی گرمجوشی دکھاتے ہوۓ جھجک رہا تھا- اس کی ماں نے اسے آگے کی طرف دھکیلا کہ باپ سے گلے مل لے- جاوید دین محمّد کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا- اس نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ پیدا کرلی تھی اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا رکھے تھے- جب باپ نہ تو اٹھا اور نہ ہی اس سے گلے ملا تو جاوید نے ہاتھ نیچے کرلیے اور بولا- "ابّا جان اپنی بہو سے تو مل لیں- اتنی دور سے صرف آپ دونوں سے ملنے آئی ہے-"

"میرا خیال ہے کہ تمہیں وہاں رکنے کی مزید اجازت نہیں مل رہی ہوگی جب ہی تم نے یہ شادی کی ہے- اپنے فائدے کے لیے کسی دوسرے کو استعمال کرنا بہت افسوس کی بات ہے- کیا ہماری تربیت سے تم نے یہ ہی سیکھا تھا؟" دین محمّد نے خفگی سے مگر دھیمے لہجے میں کہا-

"ابّا جی- میں معافی چاہتا ہوں- آپ کا خیال بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے- میں وہاں پوری طرح سیٹل ہوں- میں ایک سرکاری محکمے میں کام کرتا ہوں- میرا اپنا فلیٹ ہے، بینک میں بہت سارے پیسے بھی ہیں- مجھے الله کے سہارے کے سوا کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں-" جاوید نے کہا-

"تو پھر کیا ضرورت تھی اس گوری سے شادی کی- کیا یہاں لڑکیاں نہیں تھیں؟" دین محمّد نے تلخی سے کہا-
اتنی دیر میں جاوید کی نوبیاہتا بیوی ان کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی- اس کے چہرے پر نقاب نہیں تھا- اسے دیکھ کر دین محمّد کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں- وہ بیس بائیس سال کی ایک نوجوان لڑکی تھی- اس کا سیاہ پختہ رنگ بتا رہا تھا کہ اس کا تعلق نیگرو نسل سے ہے- وہ مارے حیرت کے کھڑا ہوگیا اور سوالیہ نظروں سے جاوید کو دیکھنے لگا-

"آج سے دو ماہ پہلے میں اسے جانتا بھی نہیں تھا حالانکہ یہ میرے آفس میں ہی کام کرتی تھی- اس کا رحجان اسلام کی طرف ہوگیا تھا- اسلام کی دوسری باتوں کی طرح اسے یہ بات بھی بہت اچھی لگتی تھی کہ اس دین میں ذات پات، رنگ نسل اور اسی قسم کی چیزوں کو قطعی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی- یہ امریکا میں ہی پیدا ہوئی تھی مگر اس کے باوجود اسے اپنے رنگ اور نسل کی وجہ سے نفرت اور حقارت کا سامنا کرنا پڑتا تھا- اپنی ملازمت کے سلسلے میں یہ برطانیہ چلی آئی، بہرحال یہ ایک الگ کہانی ہے- یہاں آکر اس نے اسلام قبول کر لیا- یہ مسلمان ہوئی تو اس کے ماں باپ ، بھائی بہن اور دوسرے رشتے داروں نے اسے چھوڑ دیا- آفس میں بھی ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے برتاؤ میں بہت فرق آچکا تھا اور پہلے جیسی بات نہیں رہی تھی- ایک نو مسلم کو اس صورت حال سے واسطہ تو پڑتا ہے مگر یہ بات اس کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتی ہے- الله نے اسے توفیق دی تھی تو اس کے دل میں اسلام کی محبّت اجاگر ہوگئی تھی- میں اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش تھا اور میرے دل میں اس کی عزت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی- میں نے آپ کی تربیت فراموش نہیں کی تھی- اس کی شکل و صورت رنگ روپ کیسا بھی ہو مگر یہ ایک خوبصورت دل کی مالک ہے- اس نے بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے اسلام قبول کیا- یہ جن تکلیف دہ حالات سے گزر رہی تھی مجھے ان پر افسوس ہوتا تھا- ہمارے علاقے کی مسلم کمیونٹی اس کے اسلام قبول کرنے سے بہت خوش تھی- میں نے بھی عملی طور پر اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے شادی کرلی- اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ میں نے اچھا کیا یا برا؟"

دین محمّد انتہائی حیرت سے جاوید کی باتیں سن رہا تھا- وہ خاموش ہوا تو اس نے کہا- "کوئی بدبخت ہی ہوگا جو تمہاری اس بات کو برا سمجھے- میں بہت خوش ہوں کہ تم نے ایک نو مسلم کا ظاہر نہیں باطن دیکھ کر اس کو اپنی شریک حیات بنا لیا اور ایسے وقت میں جب اس کے اپنے رشتے داروں اور دوسرے ملنے جلنے والوں نے اس سے منہ موڑ لیا تھا تم نے حقیقی معنوں میں اس کا ہاتھ تھاما- الله تمہیں اس کا اجر دے- مجھے فخر ہے کہ تم نے ہماری تربیت کا مان رکھا- مجھے افسوس ہے کہ اس سلسلے میں مجھے غلط فہمی ہوگئی تھی-" یہ کہتے کہتے دین محمّد نے اپنی بہو کے سر پر محبّت سے ہاتھ رکھا اور پھر جاوید کو گلے سے لگا لیا-

(ختم شد)

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 132644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.