آج اسکول سے واپسی پر حمزہ کافی پرجوش تھا... جیسے ہی وہ
گھر کے اندر داخل ہوا.. اس نے پہلے سب کو سلام کیا... پھر بڑی پھرتی سے
اپنے کمرے میں گیا.. بستہ رکھا ، یونیفارم تبدیل کیا... منہ ہاتھ دھوئے...
نماز ادا کی... اور کچن میں امی کے پاس آگیا.. اور استفسار کرنے لگا..
"امی جی ! ابا جان کب تک آئینگے...؟؟"
امی اسکے چہرے پر بے چینی دیکھتے ہوئے پوچھنے لگیں..
"سب خیریت تو ہے بیٹا..؟؟""
حمزہ مسکرانے لگا... "جی امی الحمدللہ سب خیریت ہے.. بس آپ یہ بتائیں
اباجان کب تک گھر آئینگے؟ "
امی جان کو تسلی ہوئ.. اطمینان سے کہنے لگیں..
"بیٹا وہ تو اپنے وقت پر ہی آئینگے جس وقت روزانہ آتے ہیں اور ابھی انکے
آنے میں دو گھنٹے باقی ہیں... چلو جلدی سے کھانا کھالو. .. پھر آپکو سونا
بھی ہے.."
حمزہ کا چہرہ اتر گیا... کتنا زیادہ وقت ہے یہ بھی...
"جی امی دے دیجئے مگر آج میں آرام نہیں کرونگا.. مجھے ابا جان سے بات کرنی
ہے..."
امی جان ہنستے ہوئے.. "اچھا بھئ کھانا تو کھالو ، پھر جو دل چاہے کرتے رہنا
"...
پاس بیٹھی دادی جان جو کافی دیر سے حمزہ کی کیفیت دیکھ رہی تھیں... کہنے
لگیں. .
"ارے پتر "!تجھے ایسا کیا کام پڑ گیا اپنے ابا سے کہ آرام بھی نہیں کریگا..
اتنی بے صبری بھی اچھی بات نہیں.. تیرے ابا نے کدھر جانا ہے.. تو سونے کے
بعد بھی پوچھ سکتا ہے. "
حمزہ پریشان سا ہوگیا..
" دادی جان ایسی بات نہیں اباجان پھر مصروف ہوجائینگے اور میراکام بہت
ضروری ہے... ""
دادی جان اپنی تسبیح پڑہنے لگیں ساتھ عینک بھی ٹھیک کر رہی تھیں... "چل پتر
جیسے تیری مرضی، یہ آجکل کے بچے بس ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتے ہیں ہر
وقت... "
حمزہ کھانے سے فارغ ہوکے گھڑی دیکھنے لگا اللہ اللہ کرکے ٹائم گزر ہی
گیا... جیسے ہی دروازہ بجا وہ بڑی بیتبابی سے اسے کھولنے دوڑا....
دادی اسکی اس ِعجلت پر ہول کر رہ گئیں... "ارے آرام سے پتر.. اتنا بے صبرا
کیوں ہورہا ہے... جلدی کے کام شیطان کے ہوتے ہیں..".
حمزہ شرمندہ ہوگیا... اباجان شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے...
"بولو بیٹا کیا کام ہے؟؟؟"..
پہلے کھانا تو کھالے دادی فکرمندی سے بولیں...
"جی ابھی کھاتا ہوں اماں.!!"
اباجان ہاتھ منہ دھونے چلے گئے اسکے بعد کھانے سے فارغ ہوکے حمزہ کو آواز
دی... وہ فورا آگیا..
'جی کہو بیٹا ایسی کیا بات ہے جو آپ اسقدر بے چین ہیں.. "
حمزہ سب تفصیل بتانے لگا...
"کہ اسکول کی ٹیچر نے ہوم ورک دیا ہے کل تک سب اپنے کارٹون کردار کے بارے
میں لکھ کر لائیں اور جسکا سب سے اچھا ہوگا اسکو انعام دیا جائیگا...میں
چاہتا ہوں میں آپکا پسندیدہ کردار لکھوں"...
اباجان خوب مسکرانے لگے...انھیں حمزہ کی بات دلچسپ لگی مگر اس سے زیادہ
اسکی لگن وشوق دیکھکر وہ دل ہی دل میں خوش ہونے لگے اور اللہ کا شکر بھیجنے
لگے ..
"بس اتنی سی بات یہ تو جھٹ سے ہوجائیگا اور ان شاء اللہ مجھے یقین ہے آپ ہی
پہلا انعام جیتوگے.".
"جی تو میرا پسندیدہ کارٹون کردار ملعون مرزا قاریانی رہا...جسکی تمام
حرکات ہی کارٹون سے مشابہ تھیں ...بچپن میں آپکے داداجان مجھے اسی کے قصے
سناتے..اور پھر یہی کارٹون مجھے سب سے اچھا لگنے لگا."..
حمزہ سمجھنے کی سعی کرنے لگا..."مگر ان کا نام پہلے نہیں سنا کارٹون کی
دنیا میں..."
"جی بیٹا کیونکہ یہ حقیقی کردار ہے..اور آپکو جو میں روز ختم نبوت کے قصے
سناتا ہوں جس میں مرزا کا بھی ذکر کرتا ہوں...وہ دراصل یہی کارٹون کردار
ہے"
حمزہ کے بات اب سمجھ میں آنے لگی...".وہ کیسے اباجان؟"
اباجان پر لطف انداز کے ساتھ بتانے لگے...
'بھئ بات آسان سی ہے بیٹا...مرزا کاحلیہ کچھ ایسا ہوتا کہ سمجھ ہی نہ آتی
کہ اس نے پہن کیا رکھا ہے...دھوتی پہنتا وہ بھی ایسی کہ اکثر اس سے الجھتے
الجھتے گر پڑتا...پھر اسی میں وہ چابیوں کا گچھا بھی ٹانک دیتا اور اسطرح
چلتا کہ اسکی چال ڈگمگانے لگتی اور ایسے میں وہ بالکل کارٹون لگتا...چابیوں
کے وزن سے وہ کبھی جھک کے چلتا کبھی ٹانگ پکڑتے ہوئے حالا نکہ اسکا وزن
اتنا بھی نہیں تھا کہ چال ہی بدل جائے...پھر اسے واش روم سے بڑا عشق تھا
اکثر وقت وہ وہیں گزارتا. .اسکی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسے بار بار پیشاب آتے
..اور ذرا سی دیر باہر نکلتا پھر واش روم کی طرف بھاگ جاتا..اور اسطرح آتے
جاتے .. اسکا چہرہ ، حلیہ ، چال ڈھال سب کارٹون جیسا ہی ہوجاتا...پھر اسکی
شکل بھی ایسی ہی تھی...دانت نکالتا تو گمان ہوتا کوئ کارٹون جیسی چیز ہنس
رہی ہے بچے بڑے ہنستے اسے دیکھکر..."
حمزہ بہت مزے لیکر سن رہا تھا....ابا جان یہ تو سب سے اچھا کارٹون ہے ایسا
کردار تومیں نے آج تک اس کارٹون کی دنیا میں نہیں دیکھا...مجھے پورا یقین
ہے ان شاء اللہ میری ٹیچر کو بھی پسند آئیگا اور بہت خوش ہونگی...
اباجان خوش دکھائ دینے لگے .. بہت سی دعائیں دیں اور اسے سمجھاتے ہوئے باہر
چلے گئے...
حمزہ نے دل وجان سے محنت کی اور صبح خوشی خوشی اسکول روانہ ہوگیا...ان ٹیچر
کا پہلا ہی پیریڈ تھا...کلاس شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ٹیچر نے باری باری
سبکو اپنے پسندیدہ کردار کے بارے میں بتانے کو کہا... سب نے اچھا بتایا.
نقالی بھی کی.. جب حمزہ کی باری آئی اور اس سے پوچھا گیا تو وہ جوش ولولے
سے بھرپور آواز میں بولا 'ملعون مرزا قادیانی.'!!!..
ٹیچر کو حیرانگی کے ساتھ ساتھ تجسس..ہونے لگا کہ بھلا یہ کونسا نیا کارٹون
کردار ہے... جب حمزہ نے اتنی خوبصورتی سے نہ صرف بتایا بلکہ اسکی نقل بھی
اتار کے دکھائ تو... ٹیچر سمیت سب اسٹوڈنس کا ہنس ہنس کے برا حال تھا سب کو
اسکا کارٹون کردار بے حد پسند آیا.. ٹیچر نے جب انعام تقسیم کئے تو وہ اول
نمبر پر تھا... اسکی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہیں تھا اسنے اللہ تعالی کا شکر
ادا کیا.. اور گھر روانہ ہوگیا...
گھروالے اسکے چہرے کی چمک دمک سے ہی سب سمجھ گئے جب اس نے سب کو بتایا تو
سب بہت خوش ہوئے... دعائیں دیں. .دادی بھی حمزہ کی بلائیں لیتی اور خوب
پیار کرتیں رہیں .... اور اسی خوشی میں اباجان نے شام کو باہر جاکے آئس
کریم کھانے کا پروگرام بنایا...
~~~~ازقلم ##حیا_ مسکان~~~~
|