پوپ کہانی-6
بیرسٹر جلیس الحسن نے نگاہیں ہاتھ میں پکڑے کاغذ سے اٹھا کر کمرے میں موجود
افراد پر ڈالیں اور ایک گہرا سانس لیکر اپنا گلہ کھنکارنے کے بعد گویا ہوئے:۔
اب میں آپ سب کے سامنے اپنے مرحوم مؤکل حسیب بیگ کی وہ وصیت پڑھ کر سناؤں
گا جو انہوں نے اپنے مرنے سے تقریباً ایک برس قبل لکھوائی تھی:۔
میں حسیب بیگ ولد نصیب بیگ بقائمی ہوش و حواس یہ وصیت اپنے قانونی مشیر
بیرسٹر جلیس الحسن کو قلمبند کروا رہا ہوں۔
ایک برس قبل میرے معالجین نے متفقہ فیصلہ سنایا کے میرا مرض لاعلاج ہے اور
مجھے بمشکل دو اڑھائی سال کی مدت ِحیات ہی میسر ہے جس پر میں نے فوراً ہی
اپنا وصیت نامہ مرتب کروالیا تھا، لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران اپنے ماضی
پر بھرپور غور و خوص کے بعد میں نے وصیت نامہ کو دوبارہ مرتب کروانے کا
فیصلہ کیا۔
بظاہر میں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی جو کے اربوں روپوں میں ہے، جمع کرنے
کیلیئے کوئی ایسا کام نہیں کیا جسے قانون کے دائرے سے باہر قرار دیا جا سکے
لیکن سچ تو یہ ہے کہ میں نے یہ دولت اپنی بیشمار ملوں، درجنوں فیکڑیوں اور
سینکڑوں تجارتی و کاروباری دفاتر میں کام کرنے والے کئی ہزار کارکنوں کا
جائز حق مار مار کے جمع کی ہے۔
میرے اداروں میں تین چار اسامیوں کا کام محض ایک کارکن بھرتی کر کے لیا
جاتا ہے اور بمشکل ایک اسامی کے برابر اجرت ادا کی جاتی ہے، معیاری اوقات
ِکار سے زائد کام لیکر انہیں انکی قانوناً واجب الادا اوور ٹائم سے کہیں کم
ادائیگی کی جاتی ہے اور انہیں تماتر جائز مراعات سے یونین لیڈران و حکومتی
اہلکاران کے ساتھ ملی بھگت کر کے محروم رکھا جاتا ہے۔
کارکنان کے لواحقین کے علاج و معالجے اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کی جعلی
ادائیگیاں دکھا کر لاکھوں کا انکم ٹیکس بچا لیا جاتا ہے اور اس ضمن میں
حکومتی اداروں سے ملنے والی مراعات و امدادی رقوم بھی خردبرد کرلیں جاتیں
ہیں۔
سالہا سال اسی طریقہ کار کے تحت میں اپنی تجوریوں اور ملکی و غیرملکی بنک
کھاتوں میں دولت کے انبار جمع کرتا چلا گیا۔
اپنے کارکنان کا حق مار مار کے میں نے جو یہ دولت دن رات اکھٹا کی اس نے
میری اولادوں کو ناخلف، نافرمان، خودسر، باغی اور مجرمانہ ذہنیت کا حامل
بنا دیا ہے، انکی مکمل کفالت میری ہی دولت ہر ہوتی ہے جسکے باعث یہ سب مکمل
طور پر ہڈحرام، کاہل اور کام چور بن چکے ہیں اور دنیا کی وہ کونسی برائیاں
ہیں جو ان میں نہ ہو۔ آئے دن اپنی دولت کا دریا بہا کر انہیں قانون کے
شکنجے سے بری کروانا پڑتا ہے۔
میں نے اپنی اولادوں کو ڑندگی ہی میں اتنا کچھ دیدیا ہے کے وہ تمام ذندگی
کچھ کیئے بغیر بسر کرسکتے ہیں، لیکن اب بھی ان کی بھوکی نظریں میری دولت پر
گڑیں ہوئیں ہیں اور یہ سب شدید بیچنی کے ساتھ میرنے مرنے کے منتظر ہیں۔
لٰہذا ان تمام باتوں کے پیش ِنظر میں اپنے جملہ کاروباری، تجارتی و صنعتی
ادارجات، نقد دولت اور منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے اپنے تمام قانونی
ورثاء کو عاق کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے اپنے تمامتر کارکنان کی فلاح و
بہبود کے لیے وقف کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ |