اندھیر نگری میں ارتھ آور

افسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کتنی معصوم ہے ، چاروناچار عالمی برادری کا ساتھ دینے اور اظہار یکجہتی کرنے کیلئے دن مناتے ہیں اور دن بھی ایسے کہ جس پر خود ہی شرم آجائے۔پسینہ تو پہلے ہی رینگ رہا ہوتا ہے اور ناجانے جسم کے کہاں کہاں گدگدی ہونے لگتی ہے۔ یہاں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آنکھوں پہ پٹی باندھے پاکستانی قوم دن یا گھنٹے کسی کے نام کرتے ہوئے مناتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں آنکھوں پہ پٹی باندھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ سورج غروب ہونے کے بعد تو ہم اندھیر نگری کے اندھیرے میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ بچپن میں ایک کھیل کھیلتے تھے جس کا نام تھا آنکھ مچولی اور لازماً سب ہی کھیلتے ہیں اس میں ایک بچے کی آنکھوں پر کپڑا باندھ کر وہ باقی بچوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن دنیا نے جہاں ترقی کی ہے وہیں کھیلوں میں بھی ترقی ہوئی ہے ۔آج بچے آنکھ مچولی بغیر پٹی باندھے کھیلتے ہیں اور ایک بچہ ہی پکڑنے میں لگا رہتا ہے۔کیونکہ اندھیرے میں اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا اور اگر وقت سے پہلے اچانک بجلی آجائے تو باقی بچے یہی کہتے ہیں کہ اس نے دھو کہ سے پکڑا ہے اس نے Cheatingکی ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر کار یہ کھیل بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے جس کا سراسر الزام بچے واپڈا اور ملحقہ اداروں پر لگاتے ہیں اسی طرح اس کھیل کو دوبارہ بحال کرنے کیلئے بچوں کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ظاہری طور پر دنیا کے ساتھ مل کر ارتھ آور مناتے ہیں اس طرح بچے مذاق بھی نہیں اڑائیں گے اور بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے آنکھ مچولی کھیل لیں گے۔روزانہ 16سے 20گھنٹے ارتھ آور منانے والی قوم نے عالمی برادری سے اظہار یکجہتی کی غرض سے ایک ”نویلہ“ ارتھ آور منانے کا سوچا، گزشتہ سال کی طرح اِمسال بھی اس بات پر نہایت مسرور ہوئے کہ آج ہم خود اپنے گھر کے برقی قمقموں کی سوئچ آف کریں گے اور خوشی خوشی موم بتیاں جلا کر چراغاں کریں گے لیکن یہ خواب بھی واپڈا نے چھین لیا اور 8:00بجے پورے ملک کو اندھیرے میں غوطے درغوطے لگوا دئیے۔لیکن پھر بھی بچوں اور ان کے ماما پاپا نے سوچا کہ واپڈا کو ہمارا کتنا خیال ہے کہ ہمیں اٹھ کر سوئچ آف کرنے کی زحمت سے بھی بچا لیا اور پھر ایک SMSگردش کرنے لگا ”شکریہ واپڈا آپ نہ ہوتے تو آج ہمارے پھولوں سے نازک پیر دکھ جاتے ۔تھینکس واپڈا جی“

دوستوں! اکثر حضرات لوڈ شیڈنگ کو اربابِ اختیار کی بے حسی کہتے ہیں اور ناجانے کیا کیا لعن طعن کرتے ہیں لیکن یہ اخلاقی لحاظ سے غلط ہے۔کیونکہ پاکستان کا سب سے معصوم اور”سوہنا تے من موہنا“ ادارہ واپڈا ہی ہے جس کے اپنے دفاتر بجلی نہ ہونے سے اندھیر نگری کا نقشہ پیش کر رہے ہوتے ہیں اسے ہمیں ”قربانی“کی ایک ”زندہ“مثال کہنا چاہئے اور بجلی کی عدم دستیابی کے باعث یہ حضرات اتنے غصے کی کیفیت میں ہوتے ہیں کہ انکوائری نمبرز کے ریسورز کریڈل سے اتار کر رکھ دیتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ ساتھ کسٹمرز کو تکلیف نہ اٹھانی پڑے ۔اگر اسی بات کو مزید بڑھائیں تو معلوم ہوگا کہ کسٹمر ز سینٹر جانے پر آپ کو ترس آئے گا کیونکہ وہاں کوئی اماں جی اپنے پلو سے خود کو ہوائیں دے رہی ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ”میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال“گنگنا رہی ہوتی ہیں۔کوئی چائنہ کے پنکھے سے ہوا دے رہا ہوتا ہے تو کوئی رات کیلئے ٹارچ میں سیل ڈال رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی افسر کے کمرے میں جائیں تو وہ فون پر جنریٹر اور UPSکی قیمت پوچھ رہا ہوتا ہے ۔قارئین !ایسے میں واپڈا اہلکاروں و افسران کو لعن طعن کرنا کچھ اخلاق کے منافی ہے بلکہ حضرت اخلاق صاحب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر آپ کو زندگی میں کسی کی بے عزتی کرنا مقصو د ہو تو اس طرح پسینے میں بھگو کر بے عزتی کریں کہ جو اخلاق کے منافی بھی نہ ہو۔

اکثر صاحبان کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام تو روزانہ گھنٹوں ارتھ آور مناتی ہے تو اس ایک گھنٹے کے ارتھ آور منانے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا! تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ روزانہ 16سے 18گھنٹے کی (لوڈشیڈنگ) ارتھ آورز سے بجلی کی بچت ہوتی ہے کیونکہ یہ بجلی پارلیمنٹ ہاؤس،ایوان صدر، اسمبلی ہالز اور دوسری پر تعیش سرکاری آماجگاہوں اور فیصلہ گاہوں میں صَرف ہونا ہوتی ہے۔جبکہ ایک گھنٹہ کا ارتھ آور سے عالمی برادری سے اظہار یکجہتی کرنا مقصود ہے ۔کہنے کو تو ہم اکیسوی صدی کی روشن خیال راہوں پر چل رہے ہیں اور واقعی ایسا ہے کہ چل تو رہے ہیں لیکن ہاتھ میں لالٹین ، ٹارچ یا موبائل لائٹ کے سہارے اور اب تو ان کا بھی اعتبار نہیں رہا‘ تیل کی قیمتیں اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ہمیں ان سے بھی”مکتی“دلانے والی ہے۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اس قوم کے بچے اندھیرے میں پیدا ہوتے اور اندھیرے میں پرورش پاتے ہیں ۔اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے پروان چڑھتے ہیں،منزل تک پہنچتے پہنچتے قبر کی اندھیرنگری میں ارتھ آور مناتے ہوئے سوجاتے ہیں۔

دوستوں! ترقی کرنے کے اور بھی کئی راستے ہیں جن کو اپنا کر ترقی کی راہ پر ایک قوم کو چلایا جاسکتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کسی دن کو یا گھنٹے کو کسی نام سے موسوم کر کے جو اطوار اپنائے جارہے ہیں اور روایات ڈالی جارہی ہیں یہ سراسر غلط اور بے ہودگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ڈر تو اس بات کا ہے کہ اس ملک میں اندھیرے کی سیاست نے جو شمع جلائی ہے وہ پورے ملک کو آگ کی لپیٹ میں لینے کی طرف رواں دواں ہے ۔ظاہری طور پر سب کچھ درست ہے ‘لیکن اندرونی طور پر کچھ ٹھیک نہیں لیکن یہاں غور و فکر کی ضرورت ہے۔اگر آج پاکستان کے ترقی پسند حلقے اور باشعور و باضمیر افراد مل جل کر عوام میں غور فکر کرنے کی راہیں متعین کریں تو یہ گتھی سلجھنے کی امید پیدا کی جاسکتی ہے۔
Rehman Mehmood Khan
About the Author: Rehman Mehmood Khan Read More Articles by Rehman Mehmood Khan: 38 Articles with 43856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.