دیگر شعبہ جات کی طرح میدان سیاست بھی کسی تعارف کا محتاج
نہیںہے۔یہ وہ شعبہ ہے جس میں عوام کی طاقت بھرپور اثرورسوخ رکھتی ہے۔ اس
لیے اس محاذ کے سپاہی اپنا ووٹ بنک بنانے کےلیےعوام رابطہ مہم شروع کرتے ،
جس میں جلسے ،ریلیاں اور پوسٹرز آویزاں کیے جاتےہیں۔اپنی پہچان کروانے
کےلیےہر دوکان اور گھر میں پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں۔مزید تسلی کےلیے لوگوں
کے کے سینوں پر سٹیکر اور بیج سجا دیے جاتےہیں۔گویاکہ ایک بڑی رقم ایوان تک
پہنچنے کےلیے صرف ہو جاتی ہےتاکہ کسی طرح کامیابی مقدر بن جائے۔ چونکہ اس
میدان کے اُمیدوار ہزاروں کی تعداد میں ہوتےہیںاس لیےہر کوئی اپنی اپنی ہمت
کے مطابق عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ مگرعوام آزاد ی رائے
فلسفہ کے تحت اپنےاپنے پسندیدہ اُمیدوارکی بھر پورحمایت کرتے ہیں اور جس کے
ایجنڈے سےاتفاق نہ ہواسے ووٹ نہ دے کرریجیکٹ کرتےہیں۔اس طرح مسترد امیدوار
کو ناکامی سے دوچار ہوناپڑتا ہے۔لیکن یہ ہارنے والے امیدواربھی کچھ نہ کچھ
عوامی حمایت حاصل میں کامیاب رہتے ہیںاگرچہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو۔ شاعر
کےالفاظ میں
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس کارواں میں امیر ،غریب ، چھوٹے اور بڑے سب شامل ہیں کیونکہ قوموں کا
مستقبل سیاستدانوں کے فیصلوں سے وابستہ ہوتا ہے ۔اس لیےزمانہ قدیم سے ہی
سیاست عموماًزیادہ زیربحث رہنے والا موضوع رہا ہےمگر اب اس بحث میں کچھ
تیزی سی آگئی ہے سبب کیاہے؟وہ دن گئے جب لوگ اکھٹے ہونے پر ہی سیاست پر
بات کرتے تھے۔اب فاصلے ختم ہوچکے ہر کوئی ہر وقت رابطے میں رہتاہے۔ موجودہ
دور گلوبل وولیج کے نام سے پہچانا جانے لگا ہے ۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد
ڈویلپرز کی بھرپور جدوجہد سے فیس بک ، ٹوئیٹر، واٹس ایپ،انسٹاگرام،ایمو اور
یوٹیوب جیسی دیگر رابطے کی ویب سائیٹس اور اپلیکشنز بن چکی ہیں ۔جو کہ
پیغام رسانی کا ایک بہترین ذریعہ ہیں۔جن کے استعمال نے ہر شعبے سے تعلق
رکھنے والوں کی زندگی کو سہل بنا دیا ہے۔جس سے روپے اور وقت دونوں کی بچت
ہوئی ہے۔اسی وجہ سے میدان سیاست کے شہسوار بھی ان کے استعمال سے کسی سے
پیچھے نہیں ہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کہاتھا
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مگر بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ میدان سیاست میں سوشل میڈیا کا استعما ل
اخلاقیات کےلیے ایک ناسور ثابت ہوتا جارہاہے۔سیاسی اُمیدواروں اور سیاسی
پارٹیوں کے نام سے ایسے پیج اورلنکس ملتے ہیں جن پرسیاسی مخالفین پر بھرپور
کیچڑ اُچھالا جاتا ہے۔ اُچھالے جانے والے کیچڑ میں شکلوں کا بگاڑنا، جھوٹ
کا بولنا، لعن طعن ،گالیاں دینا، اور اُلٹے اُلٹے ناموں سے پکارا جانا جیسے
ناپاک ذرّات ملتےہے۔حدیث میں آیاہے۔
حضرت ابن مسعودرضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ "مومن لعن طعن
کرنے والا بدخلق اور فحش گو نہیں ہوتا"۔امام ترمذی نےاسے حسن قراردیاہے(
بلوغ المرام:حدیث نمبر۱۲۹۹) ۔
میں خود بھی سوشل میڈیا کا استعما ل کرتا ہوں ۔فیس بُک کو چلایا تو ایک
صاحب نے ایسی پوسٹ شیئر کی ہوئی تھی جس میں جماعت اسلامی کے صدر سراج الحق
صاحب کو "سراجو" اور جمعیت علمائے سلام (ف) کے سربراہ فضل الرحمن صاحب کو
"فضلو " اور ڈیزل کے نا م سے پکاراگیاتھا۔ ماضی قریب میں وزیر ریلوےشیخ
رشید صاحب کو شیداٹلّی کے نام سے پکاراجاتا رہااور یہ نام آجکل سوشل میڈیا
پر بھی پوری دھوم دھام سے چلتا آرہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ہم خیالوں کو
"پٹواری" اور پاکستان تحریک انصاف سے محبت کرنے والوں کو ـ"یوتھے " جیسے
القاب دیےجاتےہیں۔قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میاں شہباز شریف صاحب کو
"شوباز شریف " کے نام سے نوازا گیاہے اور حال ہی میں ایک حکومتی نمائندےکے
گلے میں"ڈبو" کاہار پہنایا گیاہے۔ دیگر بد عنوانیوں جھوٹ ، لعن طعن ،
گالیوںاور شکلوں کا بگاڑنا وغیرہ کی بھی ایک لمبی چوڑی لسٹ ہے جن کو تحریر
کا حصہ بنا نا تو دور کی بات، زبان پر لانابھی زیب نہیں دیتا ہے۔ اسی
لیےصرف ان مثالوں پرہی اکتفا کرتاہوں ۔ظاہر ہے یہ سب کچھ سیاسی مخالفین کو
اذیت ،دکھ اور پریشان کرنے کےلیے کیا جاتاہےمگراپنی عزت تو ہرکسی کو محبوب
ہوتی ہے۔
حضرت ابوھیریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتےہیںکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
ــ"دو بُرابھلا کہنے والے جوکچھ کہتے ہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر
ہےتاوقتیکہ مظلوم زیادتی نہ کرے"[مسلم( بلوغ المرام :۱۲۹۶ حدیث)]۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے۔
حضرت ابوصرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایاــ"جوشخص کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے تواللہ اسے تکلیف پہنچائے
گااور جو کسی مسلمان کومشقت میں مبتلا کر دے تو اللہ اسے مشقت میں مبتلا
کرے گا"۔[(ابودائود ، ترمذی)اور اسے حسن قراردیا ہے( بلوغ
المرام:۱۲۹۷حدیث)]۔
ہاں ہاں نظریے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن نظریے کوآڑ بنا کر کسی کی شخصیت
پر حملہ آور ہونا کہاں کی دانائی ہے؟اس تحریر سے قبل میں"پٹواری اور
یوتھئیے تک کا سفر" کے نام سے بھی تحریر لکھ چکاہوں جسے پڑھ لینا مناسب
ہوگا ۔مگر اپنی اپنی سیاسی پارٹیوں یا آزاداُمیدواروںسےاتفاق کرنے والے ان
نازیبا پوسٹوں کوپورے جوش و خروش سے شیئر ، لائک اور محبت بھرے کمنٹ کرتے
نظر آتے ہیں۔بلکہ پھر اپنے کیے پر فخر بھی کیا جاتاہے۔شاعربشیر بدر نے اسی
لیے کہا تھا۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی نے اپنی کتا ب" اسلام کا نظام حیات " میں لکھا
کہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ اور علامہ شبلی نعمانی رحمتہ
اللہ علیہ سیرت النبیﷺجلد ششم کے صفحہ ۶ پر رقمطراز ہیں : ــ"اقوام کی ترقی
و تہذیب میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملت کی تعمیر کا اہم
جزواخلاق کی صحیح تربیت ہے"۔
اور اسی طرح ڈاکٹرلیاقت علی خان نیازی نے لکھا کہ محمد عربی ﷺ نے اخلاق پر
درس دیتے ہوئے فرما یا ہے" کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق بہتر ہے
(رواہ البخاری و مسلم) "۔
مگر سچی بات ہے یہاں تو معاملہ ہی بالکل اُلٹ ہو چکاہے۔آوے کا آوا ہی
بگڑا ہو اہے۔ ہر کوئی دوسرے سے بدلا لینے پر تُلاّ ہواہے۔شاعرخالد ملک ساحل
نے کہاتھا۔
ہم لوگ تو اخلاق بھی رکھ آئے ہیں ساحلؔ
ردی کے اسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے
بہر حال سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ کہ ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں تعلیم نا پید ہوگئی یا جہالت پروان چڑھ گئی ہے؟ ۔ریاست پاکستان میں
تعلیم و تربیت پر ہر سال ایک بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے۔دکھ سے کہتا ہوں کہ یہ
رقم ڈوبتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔مزید کہوں تو لگتا ہے کہ شعبہ اخلاقیات خطرے
میں پڑ گیاہے۔گیاہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کےلیےاخلاقیات کی دھجیاں
بکھیر دی گئی ہیں۔اگر کیچڑ اچھالنےوالے صاحبان کی تعلیم و تربیت پر نظر
ڈالی جائے تو پتا چلتاہے کہ نفرت انگیز ،اشتعال سے لبریزاور شر کے لباس میں
ملبوس پوسٹ کولائک ، محبت بھرے کمنٹ اور شیئر کرنے والےاعلٰی سے اعلٰی
تعلیم یافتہ جن میں ڈاکٹرز، پروفیسرز،نامور یونیورسٹیوں کے طالبعلم،مدرسوں
کے فاضل حفاظ کرام یا کسی اعلٰی عہدے پر فائزشخصیات ہیں۔بھلے مانس نہیں
جانتے کہ سوشل میڈیا پرلگائی جانے والی ان اخلاقیات سے گری پوسٹوں سےگناہ
کا ارتکاب تو ہو ہی رہاہے مگر اس سے عوام میں نفرت، بغض، عداوت، دشمنی جنم
لے رہی ہے جو کہ نحوست کا باعث ہے۔جبکہ اس امت محمدکو اتحاد کی ضرورت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا بیان کرتی ہیںکہ رسول اللہﷺ نے
فرمایانحوست ' بدخلقی (کی وجہ سے )ہے[( بلوغ المرام ،حدیث:۱۳۰۸)، ایک طرف
اعلٰی سے اعلٰی نصاب اور تعلیمی ادارے جبکہ دوسری طرف نئی نسل کو اخلاقیات
سے گر ا ہوا درس دیا جارہاہے۔کون ہے ذمہ دار؟کوئی قانون حرکت میں
نہیںآتاکہ اس ناسور کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے ۔اگر آج ذمہ داری کا
مظاہرہ نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ ایسے نتائج بھگتنےپڑیں جو شرمندگی کا
باعث ہوں۔ شاعر کے الفاظ میں
دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے
نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا
یہ بات ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام ریاست کےلیے ریڑہ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتےہیں۔جن کے جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ فراہم کرنا حکمران وقت
کی ذمہ داری میں شامل ہوتا ہےاوریہ فلسفہ روز اوّل سے تا حال ببانگ دہل اور
ڈنکے کی چوٹ کہا جاتاہے۔اگرریاست کے اہم عہدوں پر فائز لوگ اپنی ذمہ داریا
ں نبھانےسے ناکام رہتے ہیں تو عوام کا حق بنتا ہے کہ ان سےاخلاقیات کے
دائرے میں رہتے ہوئے اختلاف کریں۔اگر مسئلہ حل نہیں ہوتاتو اُن سے جان
چھڑائیں اور آئندہ کےلیے مستردکردیں۔مشہور شاعر رانا نے کہاتھا
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
مگر تما م تر ذمہ داریاں حکمرانوں پر تھونپ کرعوام کااپنے فرائض سے بری
الذمہ ہوجانا درست نہیں ہے۔
|