پاکستان کی عمر اور میری عمر برابر ہی ہیں بس کچھ ہی آگے
پیچھے کا فرق ہے ۔ میری یاد داشت میں ایوب خان صاحب کا 1958ء کا مارشل لا ء
اچھی طرح ہے ۔ حکومت پر قبضہ کر کے جلد یا نوے دنوں میں انتخابات کا جھانسہ
دے قوم کو ماموں بنانے کا عمل کا آغاز بھی انہیں موصوف سے ہوا ۔ انہوں نے
بھی یہی کیا اپنے اقتدار کو طول دے کر کئی برس پر محیط کردیا وہ مجھے اور
میری عمر کے لوگوں کو اچھی طرح یاد ہوگا ۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات
پیدائشی کشیدہ ہیں ۔ پاکستان بن تو گیا لیکن ہندووَں کے دل میں ایسی نوکیلی
پھانس پیوست ہوئی کہ اس کی چبھن آج تک نہیں گئی ۔ تمام بھارتی حکمراں
پاکستان کے خلاف زہر اگل کر الیکشن جیتے رہے ۔ مودی تو دونوں مرتبہ تعصب کی
آگ مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف لگا کر اقتدار کی کرسی تک پہنچتا رہا ۔
اسء گجرات کا قصائی اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ اسنے گجرات میں مسلمانوں کو
خون بہاکر گجرات کو وزیر اعلیٰ بنا تھا ۔ قیام پاکستان کے وقت مکمل کشمیر
پاکستان کا حصہ طے پایا تھا، بعض دیگر علاقے بھی جیسے حیدر آباد دکن کی
ریاست کو بھی پاکستان میں شامل ہونا تھا، تقسیم کے آخری وقت میں نہرو،
گورنر جنرل لارڈ ماوَنٹ بیٹن اور شیخ عبداللہ کے گٹھ جوڑ اور سازش سے اسے
ادھورا چھوڑ دیا گیا ، گویا کشمیر پر سازش پہلے دن سے ہوگئی تھی ۔ یہ تفصیل
کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں ، آج عمران خان کی تقریر کا پوسٹ مارٹم
ہی کرنا ہے ۔
پہلی تقریر جو دٹھک کر کے دل کو لگی تھی وہ جنرل ایوب خان کی تھی یہ انہوں
نے 1965ء کی جنگ کے آغاز پر ریڈیو پر کی تھی ۔ اس وقت میں نویں جماعت کا
طالب علم تھا اور پی اے ایف ماری پور (بیس مسرور) کے کیمپ نمبر 2 کے سرکاری
اسکول میں تھا، ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب نے ریڈیو پر یہ تقریر نہ صرف خود سنی
بلکہ ہم طلبہ کو بھی سنائی ۔ تقریر 6ستمبر 1965 ء کو نشر ہوئی تھی ، ایوب
کی تقریر کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ ’’دشمن کو معلوم نہیں اس نے اس
نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ ۔ اسی جنگ میں پاکستان نے بھارت کو تگنی کا ناچ
نچا یا تھا ۔ پاکستان کی فضایہ ، بحریہ اور بری افواج نے بھارتی بھگوڑوں کے
چھکے چھڑا دئے تھے ۔ ہماری عمر کے لوگوں کے دلوں میں اس جنگ کی یادیں تازہ
ہیں ۔ حکمراں اگر اپنی قوم کے جذبہ کو نہ ابھاریں اس کا مورال بلند نہ کریں
تو عسکری قوتیں تنہا دشمن کو شکست نہیں دے سکتیں ۔ ایوب خان کے بعد 1971 ء
میں بھارت کو دو لخت کرنے کی سازش کی ، اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا،
بھٹو صاحب وزیر خارجہ سے ملک کے حکمراں بنے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
میں تقریر تاریخی تقریر کی ۔ انہوں جوش و جذبہ کا اظہار کرتے ہوئے دشمن سے
کہا کہ وہ ہزار سال بھی جنگ لڑیں گے، اور تقریر کے دوران جو کاغذات ان کے
ہاتھ میں تھے ، بعض نے اسے قرارداد کہا دو ٹکڑے کر کے اس ایوان سے واک
آوَٹ کیا ۔ اس وقت بھی قوم میں جذبہ جگانے اور اس کا مورال بلند کرنے کی
سخت ضرورت تھی ۔ بھٹو صاحب کی تقریر کو عوام الناس میں پذیرائی حاصل ہوئی ۔
پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں اتار چھڑاوَ آتے رہے لیکن شدی
کشیدگی والی کیفیت پیدانہیں ہوئی ۔ نواز شریف کے دور میں تو مودی اور نواز
شریف کے دوستانہ تعلقات قائم رہے ۔ ستمبر 2019ء نے ستم ڈھایا، بھارت نے
اپنے دستور کی شق 370 کو ختم کر کے کشمیر میں کشمیریوں پر شب خون مارا ۔
بھارتی دستور کا یہ آرٹیکل کشمیرکی بھارتی آئین میں جو ایک خصوصی حیثیت
تھی وہ ختم ہوگئی ۔ اس آرٹیکل کی تنسیخ سے کوئی بھی غیر کشمیری وہاں
جائیداخرید سکتا ہے، رہائش اختیار کرسکتا ہے، سرکاری محکموں میں ملازمت
حاصل کرسکتا ہے ۔ مودی کو بیٹھے بیٹھائے کشمیر میں آگ لگانے کی سوجی، اور
آگ لگ گئی، کشمیری بھپر گئے، پاکستان نے بھی دنیا میں اس کا واویلا شرورع
کیا، مودی نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا کر کشمیریوں پر ظلم و زیادتی کے
پہاڑ توڑنا شر وع کردئے، کشمیری لیڈروں کو گرفتار کر لیا، ہزاروں کشمیری
نوجوانوں کو گرفتار کر کے نا معلوم مقام پر قید کردیا ۔ پوری وادی میں
کرفیو فافذ کردیا گیا، پوری کشمیر وادی قید کانہ بنا ڈالی ۔ اس صورت حال کو
پچاس دن سے زیادہ ہوگئے ۔
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے،دو جسم ایک روح والی صورت حال ہے ۔ دیگر اقدامات
جو سفارتی سطح پر کیے جاسکتے تھے کیے گئے ۔ عمران خان نے اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی سے از خود خطاب کرنا طے کیا ۔ پاکستان کا یہ پرجوش لیڈر ، عمرہ
کی ادائیگی کے بعد سعودی عرب سے امریکہ کے لیے روانہ ہوا اور پھر وہ دن
آگیا جس کا پوری قوم کو انتظار تھا بلکہ پوری دنیا اس دن کی منتظر تھی ۔
دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے اس لیڈر کے خطاب میں کس قدر جوش تھا ، ولولہ
تھا، جذبہ تھا، دلائل تھے ۔ غصہ نا م کو نہ تھا، شائستگی کا دامن ہاتھ سے
نہ گیا ۔ عمران خان نے 27 ستمبر 2019ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے74
ویں اجلاس سے تاریخی خطاب کرکے اسلاموفوبیا، دہشت گردی ، امریکہ افغانستان
جنگ ، نائن الیون، کشمیر میں بھارت کا ظلم و بربریت کو بڑے مہذب طریقے سے،
شائستگی سے جرت کے ساتھ، بے خطر ہوکر اقوام عالم کے سامنے رکھا ۔ اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی حکمرانوں کی تقاریر کا تقابل کریں تو
عمران خان کی تقریر کئی اعتبار سر فہرست قرار پاتی ہے ۔ موضوعات کے اعتبار،
الفاظ اور جملوں کے انتخاب کے اعتبارسے، باڈی لینگویج کے اعتبار سے، دلائل
کے ساتھ اپنا موَقف سمجھانے کے اعتبار سے ، بہادری اور دلیرانا تقریر کو
مثبت اور مناسب کہا جائے گا ۔ اختلاف اپنی جگہ ، اختلاف کی گنجائش تو ہر
چیز میں ہوا کرتی ہے، کوئی بھی انسان مکمل نہیں ، بہتری کی گنجائش ہر چیز
میں ہواکرتی ہے ۔ عمران کی تقریر سے کشمیر کو عملی طور پر کیا فائدہ ہوتا
ہے یہ تو کچھ عرصہ بعد ہی ظاہر ہوسکے کا سر دست اس کی تقریر کی جس وسیع
پیمانے پر پذیرائی ہورہی ہے وہ قابل دید ہے ۔ مزاح گو شاعر ہیں خالد عزیز ،
کنیڈا میں رہتے ہیں انہوں نے عمران کی تقریر پر کچھ اس طرح قطعہ کہا
کپتان کی تقدیر نے حیران کردیا
دشمن کو سرِ عام پشیماں کردیا
موسم ہو کہ کشمیر یا اسلام و فوبیا
ان سب کو سمجھنا آسان کردیا
عمران خان کی تقریر نشر ہونے کے بعد ٹیوٹر پر اس کی تعریف و توسیف میں
ریکارڈ ٹیوٹ کئے گئے اس کے علاوہ تقریر کی پزیرانئی کا ایک پیمانہ یہ بھی
سامنے آیا جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان کی اس تقریر کو سوشل
میڈیا میں صرف یو ٹیوب پر سننے اور دیکھنے والوں کی تعداد کیا رہی ۔ میرے
چھوٹے بھائی پرویز صمدانی نے یہ اعداد و شمار فیس بک پر پوسٹ کیے ہیں ان سے
بھی اندازہ ہوسکے گا کہ عوام الناس نے عمران خان کے علاوہ دیگر ممالک کے
سربرہان کی تقریر کو سننے یا دیکھنے کی تعداد کیا رہی ۔ اعداد و شمار کچھ
اس طرح بیان کیے گئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے 74ویں اجلاس میں مختلف سربراہان
مملکت کی تقاریر کوسننے یا دیکھنے والے اقوام متحدہ کے چینل پر کیا تعداد
رہی ۔
۱ ۔ ڈولنڈ ٹرمپ کی تقریر 28ہزار مرتبہ اقوام متحدہ کے یو ٹیوب چینل پر سنی
گئی
۲ ۔ چائنا کے سفیر کی تقریر 49ہزار اقوام متحدہ کے یو ٹیوب چینل پر سنی گئی
۔
۳ ۔ مودی کی تقریر 49ہزار مرتبہ اقوام متحدہ کے یوٹیوبچینل پر سنی گئی ۔
۵ ۔ مہاتیر محمد کی تقریر90ہزار مرتبہ اقوام متحدہ کے یوٹیوب چینل پر سنی
گئی ۔
۶ ۔ ترکی کے صدر اردوگان کی تقریر 244ہزار مرتبہ اقوام متحدہ کے یو
ٹیوبچینل پر سنی گئی ۔
۷ ۔ جب کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تقریر 2لاکھ49ہزار مرتبہ
اقوام متحدہ کے یوٹیوب چینل پر دیکھی یا سنی گئی ۔
پاکستان کا کونسا چینل ہے جس نے عمران خان کی تقریر کو اپنے ٹاک شو کا
موضوع نہیں بنایا ۔ عمران کے مخالفین بھی اس کی تعاریف کرنے میں پیچھے نہیں
رہے ۔ معروف کالم نگار انصار عباسی نے ٹی چینل پر بر ملا تقریر کی تعریف کی
۔ عطا محمد تبسم صاحب نے تقریر کو پاکستان کے حق میں بہترین تقریر قرار دیا
۔ البتہ مولانا فضل الرحمٰن ، بلاول بھٹو زرداری، نون لیگ کے احسن اقبال،
نفیسہ شاہ اور چند دیگر نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا ۔ تنقید اچھی بات ہے
ہونی چاہیے لیکن تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح اچھی لگتی
ہے ۔
پاکستان کی 72سوسالہ تاریخ میں کبھی کوئی سربراہ مملکت اور مسلمان لیڈر
عالمی فورم پر نہیں کرسکا جو عمران خان نے خوبصورتی سے کہہ دیں ۔ لیکن اس
تقریر کا اثر بھارت میں کیا ہوا، بھارتی سرکاری حکام نے عمران خان کی تقریر
کو کس انداز سے لیا، بھارتی میڈیا اسے کس طرح پیش کررہا ہے ۔ بھارتی مشینری
کو جو کچھ کرنا چاہیے تھا وہ وہی کررہا ہے یعنی بھارت کے خلاف عمران نے زہر
اگلا، غلط بیانی کی، وغیرہ وغیرہ ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران کی باتوں کو دنیا
کے ممالک نے کس انداز سے لیا ۔ کس کس سربراہ نے کشمیر پرعمران کے دلائل کو
توجہ سے سنا یا اس کی تائید کی ۔ بعض ممالک تو کھل کر سامنے آگئے جیسے
چین، ترکی، انڈونیشیا، ایران ، لیکن عرب ممالک کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے
اس موضوع پر ، اپنا طیارہ تو عمران کو امریکہ جانے کے لیے دے دیا لیکن اپنے
منہ سے دو لفظ کشمیر کے بارے میں کہتے ہوئے کس بات کا خوف کھائے رہا، بھارت
کے ساتھ تجارت اتنی اہم ہے، دنیا تو عربوں کو پیدائشی عرب پتی تصور کرتی
ہے، یا کوئی اور راز ہے نہیں معلوم ۔ عمران خان پاکستان سے عام فلاءٹ میں
جاسکتا تھا تو جدہ سے بھی عام فلاءٹ میں امریکہ جاسکتا تھا ۔ اس کی یا
پاکستان کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑنے لگا تھا ۔ اپنا طیارہ دینا پاکستان
اور عمران خان سے محبت نہیں ، حقیقی محبت یہ تھی کہ ائر پورٹ پر عمران کو
رخصت کرتے وقت کشمیر کی حمایت میں دوجملے ادا کردئے جاتے آخر وہ بھی تو
مسلمانوں کے لیڈر ہیں جنہوں نے عمران خان کی تقریر کے بعد اس کی دلیرانہ
خطاب پر، سچائی کے ساتھ عالم اسلام کا مقدمہ عالمی فورم پر پیش کرنے پر اس
کا ماتھا چوما ۔ رہی بات امریکہ کی تو موجودہ امریکی سربراہ نے از خود کہا
کہ سابقہ امریکی حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔ ڈونلڈ
ٹرم کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ نریندر مودی کو فون کر کے فوری طور پر کرفیو
اٹھانے کا کہے، ثالثی ثالثی کی رٹ لگائی ہوئی ہے ۔ عملی طور پر اگر ٹرمپ کو
کچھ کرنا ہوتا تو وہ کرچکا ہوتا ۔ وہ زبانی جمع خرچ کر رہا ہے ۔ اس نے
سابقہ امریکیوں کی طرح ہی کرنا ہے ۔ پاکستان کو یاد ہے کہ ساتواں امریکی
بحری بیڑا راستے ہی میں کہیں غرق ہوگیا تھا اور پاکستانی اس کا انتظار ہی
کرتے رہے تھے ۔ ٹرپپ ایک ایساہی امریکی بحری بیڑا ہے جو عمران سے دوستی اور
ثالثی کے باتیں کر کے وقت گزار رہا ہے ۔ وہ اپنے دوست مودی کو مجبور نہیں
کرسکتا کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی قراردوں کے
مطابق حل کرے ۔
اگر بات کریں غیر ملکی میڈ یا کی کہ اس نے عمران کی تقریر کو کس طرح لیا ۔
عمران خان کی تقریر پرنٹ میڈیا اور برقی میڈیا پر سرفہرست رہی ۔ یہ ویک
عمران کے بارے میں ٹوئیٹ کا ویک تھا، سوشل میڈیا پر عمران خان اور اس کی
تقریر و بیانات کی بھر مار تھی ۔ پرنٹ میڈیا کی صورت حال کچھ ایسی رہی کہ
بڑے بڑے اخبارات نے عمران خان کو اپنی سہہ سرخیوں میں جگہ دی ۔ نیویارک
ٹائمز ، برطانوی اخبار گارڈین،ٹائم میگزین نے سرورق پر عمران کی فوٹو
لگائی، جرمن ٹی وی ڈبلیو ، وائس آف امریکہ ، سی این این اور دیگر میڈیا
میں عمران خان کی تقریر کو سراہا اور مثبت قرار دیا ۔ پاکستان میں عمران
خان کے حامی تو اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاہی رہے ہیں بعض
ناقدین نے بھی عمران خان کی تقریر کی تعریف کی ۔ البتہ پاکستان کی مخالف
بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان یا اسپوک پرسنز نے تنقید کا نشانہ بنایا ۔
لیکن تنقید میں جان دکھائی نہیں دی، دلائل کے ساتھ بات نہیں کی گئی، کوئی
ٹھوس بات سامنے نہیں آئی، صرف یہ کہہ دینا کہ عمران نے کشمیر کا مقدمہ
صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا، تقریر میں جان نہیں تھی ، ایک لیڈر نے یہ
تنقید کی کہ عمران خان کو صرف کشمیر پر بات کرنی چاہیے ، کسی نے کہاکہ
عمران نے بہت لمبی تقریرکی وغیرہ وغیرہ ۔ مخالفین کی تنقید کا معیار یہ ہے
۔عمران خان کی چارنکاتی تقریر میں موسمیاتی تبدیلی، منی لانڈرنگ،
اسلاموفوبیا اور مقبوضہ کشمیرشامل تھا ۔ منی لانڈرنگ میں عمران خان نے امیر
ممالک کو ذمہ دار ٹہرایا کہ وہ غریب ممالک کے غیر قانونی سرمائے کو اپنے
ملک میں لے جانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہو،
تمہارے قانون انہیں واپس سرمایہ اپنے ملک میں لے جانے میں حائل ہیں ۔
اسلاموفوبیا پر عالمی فورم پر کسی لیڈر نے پہلی مرتبہ بات کی ، ورنہ اس
موضوع پر بات کرتے ہوئے لیڈران کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں ۔ بعض دلیر تو
ٹیلی فون پر ہی لمبے ہوچکے ہیں ۔ عمران نے کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب
نہیں ہوتا، دہشت گردی کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں پر بہتان لگا دیا جائے ۔
عمران خان نے عالمی برادری کو صورت حال کی سنگینی سے خبردار کرتے ہوئے کہا
کہ کشمیر یوں کے ردع عمل کا الزام پاکستان پر لگایا جائے گا، اس کے نتیجے
میں جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک اسی طرح ایک دوسرے کے مقابل آئیں جیسے اسی
سال فروری میں ہوچکا ہے، پھر ساگر دونوں ملکوں کے درمیان روایتی جنگ شروع
ہوئی تو سوچئے کہ ایک ملک جو اپنے ہمسائے سے ساتھ گنا چھوٹا ہو تو اس کے
پاس کیا موقع ہے ، یا تو آپ ہتھیار ڈال دیں یا آخری سانس تک اپنی آزادی
کے لیے لڑتے رہیں اور جب جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک آخر تک لڑتا ہے تو اس
کے تبہ کن نتاءج پوری دنیا تک پھیل سکتے ہیں ۔ ، عمران خان نے کہا کہ یہ
دھکمی نہیں ، یہ خوف اور پریشانی ہے کہ ہم کہا رہے ہیں ، یہی بتانے میں
یہاں آیا ہوں ، کیونکہ صرف آپ ہیں جو کشمیر کے عوام کو ان کا حق دلاسکتے
ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کا نقشہ عمدگی سے کھینچ کر رکھ دیا
۔ مودی کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے کھول کے رکھ دیا ۔ آر ایس ایس کیا ہے وہ
دنیا کو بتا یا ۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو 55 دن سے قید میں رکھنا کہا کا انصاف
ہے ۔ عمران نے دنیا کو یہ بھی بتایا کہ اس وقت دو جوہری قوتین آمنے سامنے
ہیں ، اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ ان دو ممالک کے درمیان نہیں رہے گی بلکہ دنیا
کو اپنی لپیٹ میں لے گی، یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے ۔ اس لیے دنیا کو اس
پر سوچنا ہوگا ۔ عمران نے کہا اگر 80 لاکھ کشمیریوں کی جگہ آٹھ 8 یہودی
قید میں ہوتے تو کیا مغرب خاموش رہ سکتا تھا ۔ اس وقت بھی مغرب کو سوچنا
ہوگا کہ بھارت یہ ظلم کیو ں کر رہا ہے ۔ عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل
اسمبلی سے کہا کہ اپنی گیارہ قراردادوں کے مطابق کشمیر کے مسئلہ کو فوری حل
کرائے ۔ عمران خان نے اس حقیقت کی نشان دہی بھی کی کہ اہل مغرب نہیں جانتے
کہ ہر مسلمان محمد عربی ﷺ سے کیسی واسبتگی رکھتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ
اپنے نبی ﷺ کی تضحیک گوارو نہیں کرسکتا جبکہ مغرب کے لوگ اسے عدم برداشت
سمجھتے ہیں حالنکہ مدینے کی اسلامی ریاست دنیا کی پہلی مملکت تھی جس نے ہر
مذہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق دئے ۔ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کے
بے بنیاد رجحان پر انہوں نے تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام
صرف ایک ہے جو خاتم الا بنیا ﷺ لے کر آئے ۔ انہوں نے خود کش حملوں کے بارے
میں بھی حقیقت آشکار کی ۔ انہوں نے مغرب کو یاد دلا کہ خود کش حملے نائن
الیون سے برسوں پہلے جنگ عظیم میں جاپانی فوجی اور پھر سری لنکا میں تامل
ٹائیگر کیا کرتے تھے ۔ لیکن کسی نے ان کاروائیوں کو ان کے مذہب سے نہیں
جوڑا، جب کہ نائن الیون کے بعد مغرب نے ان حملوں کو اسلام سے نتھی کردیا ۔
آخر میں غالب کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں
دیکھا تقدیر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
تقریر سے ایسا لگا کہ یہ باتیں عمران کے دل میں عرصہ دراز سے مچل رہی تھیں
،معروف تجزیہ نگا و کالم نگار رحامد میرکا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو کچھ
تقریر میں کہا وہ یہ باتیں عرصہ دراز سے کہہ رہا تھا، اس کی کتاب میں بھی
ان باتوں کو ذکر موجود ہے ۔ یہ ہی تو اصل عمران خان تھا ایسا لگتا ہے کہ
جدوجہد کرنے والے عمران خان کی روح دوبارہ سے عمران خان میں واپس آگئی ہے
۔ عمران اسی روح کے ساتھ22سال جدوجہد کرتا رہا ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی درست
کہا حامد میر نے کہ ایک تو لوگوں کو پہلے ہی عمران خان سے بہت توقعات تھیں
اس تقریر نے ان میں اضافہ کردیا ہے ۔ واقعی یہ سچ ہے کہ عمران پاکستان کا
ایک ہر دلعزیز ، بہادر، نڈر، محنتی، اسلام کا سچا عاشق، اللہ اور رسول ﷺ پر
مکمل ایمان رکھنے والا، پاکستان کا سچا مجاہد، سچا محب وطن ثابت ہوا ہے ۔
اللہ اسے سلامت رکھے اور پاکستان کے لیے اسی جوش و جذبے سے کام کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ۔ اس کے لیے اندرونی مشکلات معیشت ، گورنس ، پارٹی میں نا
اہلوں کی بھر مار اپنی جگہ مسائل اور مشکلات ضرور ہیں ۔ امید ہے وہ ان پر
بھی قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گا ۔ (30ستمبر2019ء)
|