یہ کسان جس کا نام کریم بخش ہے جو کے میرے گاؤں سے چند
کلومیٹر کے فاصلے پے رہتا ہے، ویسے تو پورے پاکستان کی 70 فیصد دیہی آبادی
ہے اس دیہی آبادی میں 70 فیصد لوگوں کا روزگار کاشتکاری پر ہے، سندھ کے
بنسبت پنجاب کے کسان کو سہولیات ملتی ہیں، جس میں کھاد، بجلی، واٹر کورسز،
وقت پر پانی، اس سے بڑھ کر اس کے فصل کی قیمت فیکس من، اور رقم کی ادائگی،
اور ان کسانوں سے پنجاب گورنمنٹ جو کے اس کے ضروری ڈمانڈ کے حساب سے اناج
لیتی ہے، میرے امیر سندھ کے غریب کسان جو اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر کے
اپنے فصل کی دیکھ بال اپنے بچوں کی طرح کر کے فصل کو تیار کرتیں ہیں، ایک
کسان جس کو جسم پر کپڑے نہیں، ہاتہوں میں لگی مٹی ہاتھ میں چھڑی پکڑ کر رات
کو اپنی نیند حرام کرکے بغیر خوف حراس کے پانی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں،
پانی نہ ہونی کی وجہ سے سندھ کے ٹیل والے حصے بلکل خشک سالی کا شکار ہیں،
اور اس جدید ٹیکنولوجی کے دور میں بھی کسان کے لیے پیپلز پارٹی کی صوبائی
گورنمنٹ کسی بھی قسم کی کوئی سہولیت مہیا نہیں کر پائی، سندھ گورنمنٹ نے
دعوی تو بہت کیے پر ان پر کوئی عمل درامد نہیں کرا سکی، جس کسان کی بات
بھٹو شہید نے کی تھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کے اس وقت تک پیپلز پارٹی نے اس
بھٹو شہید کے خوابون کو پورا نہیں کیا، گورنمنٹ نے باڑدانے کی سہولت تو
فراہم کی ہے پر وہ بھی امیروں کے بھرنے میں لگے ہوئے ہیں، جس چاول یا گندم
کا باڑدانہ، گورنمنٹ کی طع شدہ رقم بھی ایک غریب کسان کو نہیں مل پاتی ہے،
جس کے پاس طاقت یا کسی منسٹر، ایم این اے، ایم پی اے یا کسی وڈیرے کے سورس
ہے تو اس کو باڑدانہ باآسانی مل جاتا ہے اور ان کو فیکس من قیمت پوری مل
جاتی ہے، پر ایک غریب کسان کو یہ چیزیں مہیا نہیں ہوتی، اگر ہم پچھلے سال
کی رقم کی بات کریں تو سندھ گورنمنٹ نے فی من کی قیمت 1200 بارہ سؤ رکھی
تھی پر افسوس کی بات یہ ہے کے کوئی بھی سرکاری یا نجی کارخانے کا مالک
خریدنے کو تیار نہیں ہوتا غریب کسان وہ فی من 800 سے لیکے 950 روپیہ پر
بیچنے پر مجبور تھے، اگر ہم کسان کی بچت کی بات کریں تو ایک ایکڑ 65 سے 75
من اناج دیتا ہے اس میں آدھا زمیندار کے پاس چلا جاتا اور آدھا کسان کے
پاس، اس تمام اخراجات کسان کی جیب سے جاتے ہیں، جس میں اخراجات کا اندازہ
لگایا جائے تو کچھ یوں ہے، تقریبا 15000 سے 20000 ہزار فی ایکڑ خرچہ آ جاتا
ہے جس میں تمام اخراجات کہاد، دوائی، مزدوری شامل ہیں، اور اخراجات نکال کر
اگر کسان کے لیے صرف 20 من بچ جاتیں ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں کسان کا
گزارہ بلکل مشکل ہے کئی کسان تو خودکشی کے دھانے پر آ پہنچے ہیں، سندھ
حکومت کے نئے آنے والے وزیر سے گذارش ہے چاول کے فصل کی فی من قیمت 1500
روپیہ رکھی جائے اور اس پر عمل بھی ہو، اور باڑدانے کا سسٹم جدید دور کے
حساب سے آن لائین رکھیں جس میں کسان کو آسانی ہو اور کرپشن بھی نا ہوں، اس
وقت سندھ میں چاول کے فصل کی حالات انتہائی خراب ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کے
حال ہی میں زیادہ پڑنے والی گرمی سے چاول خراب ہو چکا ہے جس چاول کے دانے
میں چاول ہونا تھا، اس کے بجاے جلا سڑا خالی پاپڑ ہے، جس کی وجہ سے تمام
کسانوں میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے، اور اس وقت تک گورنمنٹ کا کوئی بھی
صوبائی یا ضلعی نمائندہ نہیں پہنچا ہے، خدارا اس غریب کسان پر رحم
کھائیں۔۔۔ عبدالواسع چانڈیو
|