چند روز پہلے محترمہ آمنہ مفتی کا بی بی سی اردو کے لیے
لکھا گیا کالم پڑھا جسکا عنوان تھا " زیر بن، زبر نہ بن، متاں پیش پوی
"محترمہ یوں تو اچھی لکھاری ہیں مگر جس طرح ایک اچھے شاعر کو چھ فلموں کے
پینتالیس گانے لکھنے کو دے دیے جائیں تو وہ بھی اپنے میعار سے گر جاتا ہے
اسی طرح حسن ظن یہی ہے کہ مستقل کالمز لکھتے لکھتے پٹڑی سے اتر گئیں اور دو
ایسی فاش غلطیاں کیں جو ان جیسی اچھی سوچ سمجھ والی لکھاری کے قلم سے لکھے
جانے کی امید
نہ تھی
دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے یہ جملے طنزیہ لکھے ہوں کیونکہ آج
کل اپنی بات سیدھے قاری یا سامع تک پہنچانا بھی بعض اوقات جان تک لے سکتا
ہے ہماری تجزیہ کار بہن نے جان بچانے کو شاید یہ داؤ آزمایا ہو
خیر ہر دو صورتوں میں انکے دو جملوں پر تبصرہ کرنا ہر اس قاری کا حق ہے جو
باقاعدہ انکی تحریر پڑھتا ہو
محترمہ لکھتی ہیں "چند قنوطی حضرات کو بھٹو صاحب کی تقریر یاد آئی۔ خدا نہ
کرے اب کسی وزیر اعظم کا انجام بھٹو صاحب والا ہو " عرض ہے کہ آج بھی ہر
سیاستداں کی دلی تمنا ہے کہ اسکا نام پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار
علی بھٹو کی طرح جگمگاتا رہے یہ الگ بات ہے کہ کسی سیاستدان میں اتنا تپڑ
نہیں کہ موت کو سامنے دیکھ کر بھی اپنے اصولوں پر ڈٹا رہے یہ جانتے ہوۓ بھی
کہ زہر کا پیالہ پینے کے بعد موت ہی آخری آپشن ہے، وہ تاریخ میں امر ہونے
کو اپنا پہلا اور آخری نصبالعین قرار دے
سو آمنہ مفتی صاحبہ !! اس انجام کے لیے تو پاکستان کیا دنیا کے ہر ملک کا
سیاستدان ترستا ہے اور ہر سیاستدان ہی کیا ہر انسان چاہتا ہے کہ اسکا نام
تاریخ میں سقراط ، منصور حالاج اور سرمد کاشانی بن کر چمکے اور قیامت تک
امر ہوجاۓ
ہاں ذوالفقار علی بھٹو کے "انجام " کے بعد ہمارا قومی انجام جو ہوا ہے اسکے
بارے میں آپکا یہ جملہ بہت مناسب ہوتا کہ خدا نہ کرے اب کسی ملک کا انجام
پاکستان والا ہو
اسی بلاگ میں ایک اور بات آپ نے لکھی جس کو تین دفعہ پڑھ چکی مگر یقین نہیں
آتا کہ آپ نے لکھا ہے
کہ " یوں بھی خان صاحب سیاسی سمجھ بوجھ کی بنیاد جسے وہ خود بھی تسلیم کرتے
ہیں اور ان کے مخالف اسے یو ٹرن کہتے درحقیقت ایک لچکدار رویہ ہے۔ ہمیں ان
کی یہ خوبی بہت پسند ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں یوٹرن نہ لینے والا
" لچکدار رویہ نہ دکھانے والا) احمق ہے۔ ہمیں اس بات سے 100 فیصد اتفاق ہے۔
)
اللہ کی شان ہے جس ملک کا بانی اپنے غیر لچکدار اصول پسند رویے کی بنا پر
اپنے دوستوں میں ہردلعزیز تھا اور دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا اسی ملک
کی ایک نامور قلم کار یہ کہہ رہی ہیں کہ میں بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہوں
کہ یو ٹرن نہ لینے والا سیاستدان احمق ہوتا ہے
محترمہ حکمران کا بار بار غلطیاں کرنا پرلے درجے کی حماقت ہوتی ہے اسکو
لوگوں کے واویلے پر درست کرنا کوئی عقلمندی یا ا علی ظرفی نہیں
اچھے سیاستدان ہوں یا حکمران ہمیشہ فیصلہ سازی میں ملکی حالات اور مستقبل
پرفیصلے کے اثرات پر نظر رکھتے ہیں مشاورت کے بعد غور و خوص کر کے ہی آخری
فیصلہ کرتے ہیں یوں واٹس ایپ پر راہ چلتے فیصلے کرنے اور پھر انکو ڈھائی دن
بعد تبدیل کرنے والے نہ اچھے سیاستدان ہوتے ہیں نہ قابل قدر حکمران ایسوں
کو " لیڈر " کہنا اس لفظ کی توہین
ہے
عرض ہے کہ ایسی حکومت تعریف کے نہیں، کلم کاروں اور تجزیہ نگاروں کی تنقید
کے قا بل ہوتی ہے جس کے فیصلے صبح ہوں اور شام کو تبدیل ہوجائیں ایسی حکومت
کا حکمران دنیا کے سامنے " فی البدیہہ " تقریر کرے یا فر فر انگریزی بولے
اپنے گھر میں غلط فیصلوں اور یوٹرنوں کا انبار لگا کر ملک کی تقدیر اور
عوام کے نصیبوں سے کھلواڑ کرتا ہے
|