عالم دنیا میں اللہ عزوجل نے جسے اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا
وہ شرف انسان کو حاصل ہے اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات و احسن
تقویم سے مزین فرمایا۔تمام مخلوقات سے افضل بنانے کے بعد اللہ عزوجل نے
تخلیق انسان کی حقیققت اسطرح بیان فرماٸ :
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اسلیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں
(القرآن)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہاں
عبادت سے مراد اللہ تعالی کی معرفت و پہچان ہے(الاسرار المرفوعہ:ص ۔١٧٩)
انسان ایک ایسا وجود ہے جو ہر طرح کی کیفیات کے مجموعے کا مرکب ہےحالات کے
مختلف ہونے سے اسکی کییفیات بھی تغیر پذیر ہوتی ہیں کبھی وہ جلد بازی کا
مظاہرہ کرتا ہے تو کبھی جذباتیت و غصے کا عنصر اثر انداز ہوتا ہے کبھی
خواہشات کا غلبہ آتا ہے تو کبھی گناہ کی طرف ماٸل ہوتا ہے اور کبھی رب کے
خوف سے گناھ سے دوڑ بھاگتا ہے ہیہی تقاضإ فطرت و حقیقت انسان ہے کہ وہ
مستقل مزاجی سے کسی ایک کیفیت پر قاٸم نہیں رہ سکتا ۔
ان مختلف کیفیات کو اللہ عزوجل نے اسطرح بیان فرمایا :
”وہ بہت ظالم اور بہت نادان ہے۔“( سورہ احزاب آیت ۷۲)
”وہ خدا کے بارے میں بہت ناشکرا ہے۔“( سورہ حج آیت ۶۶)
”جب انسان اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکشی کرتا ہے۔“
( سورہ علق آیت ۶ ۷)
”انسان بڑا جلد باز ہے۔“( سورہ اسراء آیت ۱۱)
”جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو لیٹے بیٹھے اور کھڑے کھڑے
پکارنے لگتا ہے پھر جب اس کی وہ تکلیف اس سے دور کر دیتے ہیں تو پھر وہ
اپنی پہلی حالت میں آ جاتا ہے گویا جو تکلیف اس کو پہنچی تھی اس کو دور
کرنے کے لئے اس نے کبھی ہم کو پکارا ہی نہ تھا۔“( سورہ یونس آیت ۱۲)
”اور انسان بڑا تنگ دل ہے۔“( سورہ اسراء آیت ۱۰۰)
”انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔“(سورء کہف آیت ۵۴)
”وہ کم ہمت پیدا کیا گیا ہے۔“( سورہ معارج آیات ۱۹۔۲۱)
”جب اس کو برائی پہنچے تو وہ مضطرب ہو جاتا ہے اور جب اس کو بھلائی پہنچے
تو وہ بخل کرنے لگتا ہے۔“( سورہ معارج آیات ۱۹۔۲۱)
انسان کو اللہ عزوجل نے علم عقل آگہی جیسی نعمات سے زینت بخشیں ۔اسی بنا پر
اشرف المخلوقات کے لقب سے سرفراز کیا۔
فرق کرنے کا آلہ شعور و علم کو بنایا ۔
کیا برابر ہیں وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے (القرآن )
انسان کی حقیقت کا بنیادی عنصر ہے کہ وہ علم حاصل کرکے حق و باطل کی تفریق
کرے حق کو پہچانے عمدہ اخلاق سے مزین ہو علم حاصل کرکے حقوق اللہ حقوق
العباد کو جان کر ان پر عمل پیرا ہو ۔صداقت و شجاعت و سخاوت کا علمبردار
بنے ۔ نوع انسان کی فلاح و بہبود کے کام کرے ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں ۔
انسان کی حقیقت یہی ہے کہ وہ حق شناسی و خودی کو پہچانے ایسے افعال انجام
دے جو اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر ہوں لوگوں میں آسانیاں خیر بانٹے اسکی
ذات لوگوں کے لیے باعث نفع ہو اگر منفع نہ ہو تو باعث نقصان بھی نہ ہو
۔انسان کے مقصد حیات میں یہ نقطہ ذہن نشیں ہو کہ مجھے فلاح انسانیت کے لیے
اپنی ذات میں کوشش کرنی ہے نہ کہ دوسروں پر ناکامیوں محرومیوں کا بوجھ ڈال
کر حالات کی رو میں بہہنا ہے دوسروں پر انحصار کی بجاے اپنی ذات سے آغاز
کرنا ہے یہی انسان کی حقیقت اور فطرت انسانی کا تقاضا ہے ۔
بے شک اللہ کسی قوم کی حالت اسوقت تک تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ اپنی حالت
نہ بدلیں (القرآن : سورہ رعد )
انزل عبدالستار
|