تعلیم ہر فرد کا حق ہے۔آپ چھوٹی عمر سے بڑھاپے تک تعلیم
حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہے۔ یہ ایک جنون ہے کہ آپ
اپنے چشمے کو خالص علم سے بھریں لیکن فی الحال ،لوگ صرف ڈگری حاصل کرنے کے
لئے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیم کو اپنے طرز زندگی
پر لاگو نہیں کرتے ہیں۔
چونکہ دنیا میں زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی کا راج ہے، بدقسمتی سے ،
میرے ملک کے لوگوں نے آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہی ٧٢ سال پہلے کا
نصاب پڑھا ہے جو کے کسی بھی لحاظ سے آج کی نئی نسل کیلیے فائدمند ثابت نہیں
ہو سکتا. اگر ہمیں اپنے گھوڑے کو دوڑ میں دوڑانا ہے تو پہلے ہمیں گھوڑے کی
تربیت کرنی ہوگی اور پھر ہم گھوڑے کو دوڑ میں ڈالیں گے ،لیکن اب ہم کسی ریس
کی تربیت کے بغیر ہی گھوڑا میدان میں اتار دیتے ہیں ، اسی وجہ سے ہم بحیثیت
قوم اپنے دوڑ کے راستے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
سالانہ ، ہمارے ہاں ہزاروں افراد کو کسی نہ کسی فیلڈ میں ڈگریاں تو مل رہی
ہیں مگر ہنر کہاں سے آےگا وہ ہنر جو دوسرے ترقی یافتہ ممالک اپنی آج کی نسل
کو فراہم کر رہے ہیں ؟ کیوں کہ ہمارے پاس ایسے فاضل ماہر نہیں ہیں جو ہمارے
طلباء کو پڑھاتے ہیں اور انکو ایسی تعلیم دے سکیں.
ہمیں ٹیکنالوجی کی کمی کی وجہ سے تیسری دنیا کا ملک کہا جاتا ہے۔ لوگ مریخ
اور دوسرے سیاروں کی تلاش کرنے جارہے ہیں اور ہم یہاں ان کے طنز کرنے میں
مصروف ہیں جب وہ اپنے مشن میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ میرا سوال ہے کیوں؟ ہم
بحیثیت قوم دوسروں کا مذاق اڑانے میں لطف اندوز ہوتے ہیں؟ کم از کم وہ کچھ
کرنے کی کوشش توکرتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ ہم بحیثیت
قوم کیا بن چکے ہیں؟ ہم نے کبھی بھی ایک ترقی یافتہ ملک کے ساتھ مقابلہ
کرنے کے بارے میں سوچا ہے؟ اس کا جواب "نہیں" ہے کیوں کہ ہم طنز کے غار میں
گرفتار ہوگئے ہیں جہاں ہمیں دوسروں پر طنز کرنے میں راحت محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں، ایک طالب علم میموری کی صلاحیت کو بڑھانے یا صرف
امتحان پاس کرنے اور اچھے گریڈ حاصل کرنے تک سوچتا ہے. یہاں تک کہ ایک اچھے
طالب علم کو صرف ہمارے ملک میں ہنر کی بجائے اچھےگریڈز کی وجہ سے پیش کیا
جاتا ہے۔ ہمارے نظام تعلیم میں عملی کام کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہمیں
ورکشاپس میں شرکت کے لئے اور هنرسیکھنے کے کورس کرنے کے لئے اضافی قیمت ادا
کرنا پڑتی ہے۔
اس طرح کے تعلیمی نظام کا کوئی فائدہ نہیں جہاں صرف صفحے بهر کر بوسیدہ
ڈگری تو حاصل ہو جاتی مگر عملی زندگی میں اسکو کس طرح استمال میں لانا ہے
اسکی کوئی خبر نہیں . دنیا کا اگر مقابلہ کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کے
بحثیت قوم خود کو بدلہ جائے اور دوسروں کی ناکامیوں پر تنقید کی بجاے خود
کو اس مقابلے کی دوڑ میں آگے نکلنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیں . اصل کامیابی
اسی میں ہے کہ ہم صرف ڈگری لینے کی بجاے اس بات پر توجہ مربوز کریں کہ اس
ڈگری سے عملی زندگی میں کیسے خود کو اور دوسروں کو مستفید کیا جا سکتا ہے .
|