انسانیت کا احساس اور آٹے کی پھولدار بوری
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) کبھی کبھی تاریخ کے صفحات میں ایک سادہ سی بات، انسانیت کے اعلیٰ ترین جذبے کی علامت بن کر اُبھرتی ہے۔ سن 1939 کی بات ہے۔ امریکی ریاست کنساس۔ دنیا ایک عظیم جنگ کے دہانے پر کھڑی تھی، وقت کا پہیہ غربت اور تنگ دستی کی چکی میں لوگوں کو پیس رہا تھا۔ لیکن انہی حالات میں ایک ایسا واقعہ رُونما ہوا، جو آج بھی ہمیں انسان دوستی، ہمدردی اور سماجی شعور کا ایک لازوال سبق دیتا ہے۔ کنساس کے آٹا مل مالکان نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ غربت کی ماری ماؤں نے آٹے کی خالی بوریاں دھو کر، اُن سے اپنے بچوں کے کپڑے سیے تھے۔ وہ بوریاں جو عام طور پر ردی کی نذر ہو جایا کرتی تھیں، اُن میں سے کسی ماں نے قمیص بنا لی، کسی نے فراک سی لیا۔ ان کپڑوں پر آٹا کمپنیوں کے مونوگرام اور لیبل نمایاں تھے۔ ان ماؤں کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ بچوں کے لیے نیا کپڑا خرید سکیں، لیکن ان کے ہاتھ میں ایک ہنر تھا، اور دل میں ممتا کی محبت۔ یہ منظر دیکھ کر آٹا مل مالکان نے ایک حیرت انگیز قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنی بوریاں پھولدار، خوش رنگ اور دھلنے والے کپڑوں سے بنانا شروع کر دیں تاکہ جب آٹا استعمال ہو جائے، تو ماں آرام سے اس پر چھپی کمپنی کی چھاپ کو دھو سکے اور اُس سے اپنے بچوں کے لیے خوبصورت لباس تیار کر سکے۔ یہ فیصلہ کوئی بزنس سٹریٹجی نہیں تھا، یہ ایک دل کی پکار تھی۔ ایک سرمایہ دار کے دل میں جنم لینے والی وہ سوچ تھی جو محض منافع نہیں بلکہ معاشرے کی فلاح کا ذریعہ بنی۔ کیا یہ چھوٹی بات ہے؟ نہیں! یہ ایک پوری تہذیب کی خوبصورتی ہے۔ اس میں وہ احساس ہے جو آج کی مہنگائی، منافع خوری اور بے حسی میں کہیں کھو چکا ہے۔ سوچئے، آج اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں، تو کیا ہمیں ایسے مناظر نہیں ملتے؟ وہ عورت جو پرانے کپڑوں کو جوڑ کر بچوں کے لیے نیا لباس بناتی ہے؟ وہ باپ جو خراب پنکھے کو بار بار مرمت کراتا ہے تاکہ بجلی کا بل نہ بڑھے؟ وہ نوجوان جو استعمال شدہ کتابیں خرید کر اپنی تعلیم جاری رکھتا ہے؟ آٹے کی وہ پھولدار بوری ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان صرف مشین نہیں، جذبات کا مجموعہ بھی ہے۔ اگر ہم اپنے منافع میں سے ایک قطرہ بھی دوسروں کی آسانی کے لیے وقف کریں، تو ہم صرف کاروبار نہیں، انسانیت کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔ یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمدردی کا مطلب صدقہ یا خیرات دینا نہیں ہوتا، بلکہ وہ حساسیت ہے جو ہمیں دوسروں کی تکلیف کو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ وہ انسانی رشتہ ہے جو قوموں کو جوڑتا ہے، اور تہذیبوں کو زندہ رکھتا ہے۔ آج جب ہم ترقی کے جھولے میں جھول رہے ہیں، بڑے بڑے برانڈز، کارخانے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اربوں کے منافع کما رہی ہیں تو کیا وہ ایک پھولدار بوری جیسا قدم نہیں اُٹھا سکتیں؟ کیا ہم سب تھوڑا سا جھک کر اُن لوگوں کو نہیں دیکھ سکتے جو ہماری ہی دنیا میں جیتے ہیں لیکن وسائل سے محروم ہیں؟ محبت، احساس اور ہمدردی کی وہ بوری آج بھی ہمیں پکار رہی ہے کہ کب کوئی پھر ایسا کپڑا بنائے گا؟ جہاں لیبل نہیں، صرف محبت چمکتی ہو۔ |
|