انسانی زندگی میں نیت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اسلام میں
بارہا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہر عمل کی اصل روح نیت ہے۔ جیسا کہ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں کسی بھی عمل کی قبولیت کا
دارومدار اس کے پیچھے چھپی نیت پر ہے، نہ کہ صرف ظاہری عمل پر۔
ہم روزمرہ زندگی میں بے شمار کام انجام دیتے ہیں۔ کبھی کسی کی مدد کرتے ہیں،
کبھی صدقہ دیتے ہیں، یا کسی کو اچھی بات بتاتے ہیں۔ اگر یہ سب کام صرف اللہ
کی رضا کے لیے کیے جائیں تو وہ عبادت شمار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر
کوئی شخص کسی غریب کو کھانا کھلاتا ہے صرف اللہ کی رضا کے لیے، تو وہ عمل
عبادت بن جاتا ہے۔ لیکن اگر وہی کام لوگوں کو دکھانے یا تعریف حاصل کرنے کے
لیے کرے تو اس کا ثواب کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح، اگر کوئی طالب علم علم حاصل
کرتا ہے تاکہ وہ معاشرے کی خدمت کرے اور اللہ کو راضی کرے، تو اس کی تعلیم
بھی عبادت شمار ہوتی ہے۔ لیکن اگر مقصد صرف دنیاوی فائدہ ہو تو نیت میں فرق
آ جاتا ہے۔
نیت کی درستگی انسان کی شخصیت میں بھی نکھار لاتی ہے۔ جب انسان ہر کام
اخلاص کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے رویے میں عاجزی اور سچائی آ جاتی ہے۔ ایسا
شخص دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آتا ہے، کیونکہ اسے معلوم ہوتا
ہے کہ اصل کامیابی اللہ کی رضا میں ہے، نہ کہ دنیاوی شہرت یا تعریف میں۔
خالص نیت انسان کو ریاکاری، حسد اور تکبر جیسے منفی جذبات سے بھی محفوظ
رکھتی ہے۔
اسی طرح، نیت کی اصلاح سے معاشرے میں بھی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے۔ اگر ہر
فرد اپنی نیت کو اللہ کی رضا کے مطابق کر لے تو معاشرتی مسائل کم ہو سکتے
ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد خلوصِ دل سے کریں گے، جھوٹ اور فریب سے بچیں گے،
اور معاشرے میں امن و محبت کی فضا قائم ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی
نیتوں کو بار بار پرکھیں اور انہیں بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہر کام سے پہلے اپنی نیت کو درست کریں اور دل میں یہ
ارادہ رکھیں کہ ہمارا ہر عمل صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ہے۔ نیت دل کا
معاملہ ہے اور اس کا حال صرف اللہ جانتا ہے۔ جب نیت درست ہو تو عام روزمرہ
کے کام بھی عبادت بن جاتے ہیں، جیسے والدین کی خدمت، رزقِ حلال کمانا، یا
کسی کو خوش کرنا۔ اگر نیت اللہ کی رضا ہو تو یہ سب نیکی شمار ہوتے ہیں۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ اپنی نیت کو ہمیشہ خالص رکھیں اور وقتاً فوقتاً اس
کا جائزہ لیتے رہیں۔ دنیاوی فائدے یا لوگوں کی واہ واہ کے لیے کیے گئے
اعمال وقتی طور پر فائدہ دے سکتے ہیں، لیکن آخرت میں ان کی کوئی اہمیت
نہیں۔ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہر کام اللہ کے لیے کیا جائے، چاہے وہ
چھوٹا ہو یا بڑا۔
آخر میں، ہمیں چاہیے کہ ہر عمل سے پہلے اپنی نیت کو درست کریں، کیونکہ اللہ
دلوں کے حال سے خوب واقف ہے اور وہی نیت کے مطابق اجر دیتا ہے۔ خالص نیت کے
ساتھ کیے گئے کاموں سے نہ صرف ہماری دنیا سنورتی ہے بلکہ آخرت بھی کامیاب
ہو جاتی ہے۔
|