سلام ٹیچر۔۔۔ٹیچرز ڈے

دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جہاں پر شرح خواندگی 100%ہیں جن میں فن لینڈر،گرین لینڈر،سٹی ناروے جیسے ممالک شامل ہیں اور ایسے ممالک میں استادکو باپ سے بڑھ کرافضل جان جاتا ہے۔ٹیچرزڈے پہلی بار1956میں فرانس میں ایک خصوصی کانفرنس ہورہی تھی تواقوام متحدہ کے نمائندے نے خصوصی RECOMENDATIIONمنظورکی اب یہ دن اکثرممالک میں منایاجاتاہے ایک مشہورمفکرHARD SWATنے اس دن کو ٹیچرز ڈے کے نام سے منسوب کیااس دن کے منانے کا مقصدیہ ہے معاشرے کی توجہ استادکی طرف مبذول کرائی جائے۔ کبھی ہمارے معاشرے میں بھی ایسا ہوتا تھا کہہ باپ آکے کہتے تھے استاد جی یہ میرا بیٹا ہے اسے آپ پڑھائیں اگرنہ پڑھے تو اس کی ہڈیاں میری ماس(چمڑا)آپکا پھر کیا تھا استاد بچے کو جتنی سزادیتا کبھی بھی گھرسے کوئی چل کرنہ آتا اورآج اگراستاد نے ایک تھپڑہی ماردے تو گھرسے بڑے پھربھی نہیں آتے مگرتھانے سے استاد کو بلاواآجاتا ہے جس کا فائدہ مخالفین سکول بھرپوراٹھا کے اس استاد کی بے حرمتی کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم بھی توکسی ادارے کے انچارج ہیں اوراستاد بھی ہیں اور ہمارے ساتھ بھی ایسا وقت آسکتا ہے۔میں کسی اور کی بات تو نہیں کرتا خود کی ہی بات کرلیتاہوں کہ آج میں نے زندگی میں کچھ کامیابیاں سمیٹی ہیں تو یہ استادوں کی بدولت ہیں کیونکہ میرے ابوکبھی بھی ہماری سفارش کیلئے سکول آئے ہی نہیں اور ہماری تربیت ایسی کی کہ ہم استادوں کے جوتے اٹھا کیان کے قدموں میں رکھتے تھے کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میں نے اپنے میٹرک کے استاد محترم سلیم چشتی کودیکھا جو شاید کافی دیرسے مجھے دیکھ رہے تھے میں اپنے آفس کادروازہ بندکرنے والا تھا کہ میری ان پرنگاہ پڑی تو آفس کا دروازہ چھوڑ کر ان کے گلے جا لگا اور اپنے آفس میں لے آیا اور دل کو کتنا سکون ملا یہ بتاہی نہیں سکتا اگرہرسٹوڈنٹ کے اندرایسی فیلنگز ہوں تو استادوں کی وقار بلند ہوگا۔اﷲ تعالیٰ نے انسان کو پیداکرکے اسے علم سے مالا مال فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ہم نے آدم علیہ سلام کو ہرچیز کے نام سکھائے(سورۃ بقرہ) اہل علم کے مقام ومرتبہ کو اﷲ پاک نے یوں ارشادفرمایا’’کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے برابرہوسکتے ہیں(سورۃ زمر)۔آقائے دوجہاں ﷺ نے ارشادفرمایا انسان کا سب سے بڑامحسن استادہوتا ہے کیونکہ استاد کا احسان ماں باپ سے بھی زیادہ ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی درخت کو لگانا توآسان ہے مگراس کی نگہداشت کرنا مشکل کیونکہ ماں باپ بچے کو پیداکرتے ہیں مگراستاد انہیں علم دے کرجانوراورانسان میں فرق کراتا ہے۔آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ’’بے شک میں معلم بنا کربھیجا گیا ہوں‘‘(صحیح بخاری)۔جب آپ ﷺ کو اﷲ پاک نے معلم بنا کربھیجا تو استاد کا رتبہ کتنا معتبرہوگا۔اگراستاد نہ ہوتے تویہ دنیا اندھیرنگری ہوتی یہ اساتذہ کا ہم پراحسان ہے کہ انہوں نے ہمیں جہالت کے اندھیرے سے نکال کر علم کے ذریعے معاشرے کے گُراورآداب سکھائے اورانسان جوکچھ حاصل کرتاہے سب اساتذہ کی بدولت ہیں شاعرنے کیاخوب کہاہے:
جو پایہ علم سے پایا بشرنے
فرشتوں نے بھی وہ پایہ نہ پایا

استاد اگرحقیقی معنوں میں استادہوتوشاگردوں کی زندگیاں بدل دینے کے ساتھ قوم کی تقدیرمیں بھی صالح انقلاب لا سکتے ہیں لہٰذاایسی عظیم شخصیت عظیم سلوک کی مستحق ہونی چاہیے طلبا کوچاہیے نہ تواستادکے سامنے ہنسیں اورنہ اونچی آوازمیں بولیں استادکی بات پوری توجہ اور غور سے سنیں اسی حوالے سے ایک حدیث یاد آتی ہے کہ صحابہ کرامؓ جب بھی آپ ﷺ کے سامنے بیٹھتے تو ایسے بیٹھتے جیسے سرپرندے بیٹھے ہوں۔اسلئے شاعرنے کیا خوب کہا ہے:
یہ فیضان نظرتھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کوآداب فرزندی

کچھ بچوں کو لگتاہے کہ استادان کیساتھ زیادتی کرتا ہے یا بلاوجہ غصہ کرتارہتا ہے بجائے اس کے کہ استادکی عزت پامال کرنے کے استادکواپنے بہترین رویے اور اخلاق سے ان کے رویے میں تبدیلی لے آئیں جس سے نہ تواستادکی دل آزاری ہوگی نہ انکے دل سے آپ کیلئے آہ نکلے گی بلکہ آپ اچھے استادکوبھی نہیں کھوئیں گے استاد چاہے عمرمیں بڑے ہوں یاچھوٹے بڑے ادب کے مستحق ہوتے ہیں استاد کیساتھ ساتھ ان کے دوست احباب بھی واجب الاحترام ہیں میں نے ایک بزرگ حضرت مولانا قاضی زاہدالحسینی کے متعلق میں نے پڑھا ہے کہ ان کے اساتذہ لاہوری ومدنی تشریف لاتے آپ کی حالت دیدنی ہوتی تھی آپ ان کے قدموں میں بچھے بچھے جاتے اور اپنے مدرسے کا معائنہ کراکے ان کواپنے کمرے میں لے جاتے اور اپنی جگہ پر انہیں بٹھاتے اور انکے سامنے دوزانوں کے بل بیٹھے رہتے اور زاروقطاروتے رہتے(چراغ محمد:سوانح حضرت حسین احمدمدنی رحمتہ اﷲ علیہ) کیونکہ جوپل ان عظیم ہستیوں کے ساتھ گزرے وہ دوبارہ آہی نہیں سکتے ۔ہمیں توچاہیے کہ استادکی خدمت میں ہروقت تیاررہنا چاہیے اگرکوئی استادکے خلاف کوئی بات کرے تو اس کی بھرپورمخالفت کیساتھ استادکادفاع کرنا چاہیے بجائے تماش بین بننے کے۔اگراستادکوئی کام کہے تولارے لپے کے بجائے یاکسی اورکوکرنے کے بجائے سعادت سمجھ کرخودکرنا چاہیے ۔اگرخدانخواستہ استادکے ساتھ بے ادبی سرزدہوجائے توفوراً عاجزی وانکساری کے ساتھ جھک کے معافی مانگیں اوردیرکرنا کدورت کا سبب ہے استاد کی ناراضگی علم کے نوراوربرکت کوزائل کردیتی ہے تواستادکوہرگزناراض نہ کریں اپنی دعائیوں اورنیک خواہشات میں استادوں کویادرکھنا چاہیے کیونکہ ہماراجو مقام ومرتبہ ہے انہیں کی کاوشوں کے مرہون منت ہے امام ابویوسف رحمۃ علیہ کے بارے میں ہے کہ وہ فرماتے تھے میں جب بھی فرض سنت ونفل اداکرتا توپنے اساتذہ کیلئے دعاضرورکرتااﷲ کرے ہمارے اساتذہ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم ودائم رہے۔آخرمیں اپنے قارائین سے اتنا کہوں گاکہ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے معلم بنا کربھیجا گیا ہے توخدارااسی نسبت سے اساتذہ کا احترام کریں اور انکومعاشرے میں سب سے افضل بنانے میں اپنا کرداراداکریں۔ ہم اس بات کوسوچناہوگا کہ ہرسال یہ دن منایاجاتا ہے کیاہمیں اسے منانے کے مقاصدحاصل ہورہے ہیں ؟
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 196647 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.