اس کائنات کا خالق عظیم عادل ومنصف ہے ، وہ اپنے عدل
وانصاف سے دنیا والوں کی نگرانی کر رہا ہے بلکہ کائنات کی ساری مخلوقات کے
ساتھ انصاف کرتا ہے اور کسی پر بھی ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا مگر انسان ہے
کہ ایک دوسرے پر ظلم کرکے دنیا کا ماحول مکدد بنا دیا ہے ۔ آج کل کی صورت
حال ایسی ہے کہ شریف انسانوں ، نیک دل مسلمانوں اور عدل وانصاف کرنیوالے
آدمیوں کا یہاں جینا دشوار ہوگیا ہے ۔ نبی ﷺ نے مومن کا وصف بیان کرتے ہوئے
فرمایا ہے : المؤمنُ غرٌّ کریمٌ ، والفاجرٌ خِبٌّ لئیمٌ(صحیح أبی
داود:4790)
ترجمہ: مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر فسادی اور کمینہ ہوتا
ہے۔
آج اکثر مسلمان اس حدیث کے مخالف اور ظلم وعدوان کی راہ اختیار کرتے نظر
آتے ہیں ۔ اﷲ نے ظلم کو اپنے لئے اور اپنی مخلوق کے لئے حرام ٹھہرایا ہے۔
حدیث قدسی میں ذکر ہے : یا عِبَادِی إنِّی حَرَّمْتُ الظُّلْمَ علَی
نَفْسِی، وَجَعَلْتُہُ بیْنَکُمْ مُحَرَّمًا، فلا تَظَالَمُوا(صحیح
مسلم:2577)
ترجمہ: اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کیا اور تم پر بھی حرام
کیا، تو تم مت ظلم کرو آپس میں ایک دوسرے پر۔
اﷲ نے اپنے اوپر ظلم حرام کرلیا اور اپنی ذات سیبھی ظلم کی یکسر نفی کردی ،
فرمان باری تعالی ہے : إِنَّ اللَّہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ
(النساء :40)
ترجمہ: اﷲ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔
ظلم کہتے ہیں کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ رکھنا ۔اس کا مطلب
یہ ہوا کہ کسی کو اس کا حق نہ دینا ،ناحق طریقے سے کسی کا حق مارنا ،بغیر
قصور کے کسی پر زیادتی کرنا، معاملات میں ناحق طرفداری کرناوغیرہ ظلم
کہلائے گا۔ یہ ظلم اس قدر بھیانک جرم ہے کہ اسیقیامت کی تاریکی سے موسوم
کیا گیا ہے ۔ نبی ﷺکا فرمان ہے : اتَّقُوا الظُّلْمَ، فإنَّ الظُّلْمَ
ظُلُماتٌ یَومَ القِیامَۃِ(صحیح مسلم:2578)
ترجمہ: تم ظلم سے بچو کیونکہ یہ قیامت کی تاریکیوں سے ہے یعنی ظالم کو
قیامت کے دن بوجہ تاریکی اور اندھیرے کے راہ نہ ملے گی۔
میں اس مضمون میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج دنیا ظلموں سے بھر گئی ہے اور
ظلم کا انجام تباہی وہربادی ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ اﷲ کی طرف سے قسم قسم کے
عذاب میں مبتلا ہیں۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان تو اﷲ پر ایمان
لانے والے ہیں پھر وہ کیوں پریشان حال ہیں ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آج کے
اکثر مسلمان ظالم ہیں اور وہ اپنے کرتوت کی وجہ سے اﷲ کے عذاب میں مبتلا
ہیں ۔ جواب کچھ حیران کرنے والا ہے مگر حقیقت برمبنی ہے۔ اس جواب کو اچھے
سے سمجھنے کے لئے ظلم کی تعریف ذہن میں رکھتے ہوئے اس کی اقسام کو جاننا
ہوگا۔
قرآن نے ظلم کو مختلف طریقے سے بیان کیا ہے اور متعدد قسم کی نافرمانیوں کو
ظلم قرار دیا ہے، ان سب کا ذکر طویل ہوجائے گا ۔ اختصار کے ساتھ ہم تمام
قسم کے ظلموں کو تین اصناف میں بیان کرسکتے ہیں ۔
(۱)ظلم کی پہلی قسم اﷲ کے ساتھ شرک کرنا ہے ۔ اﷲ اس کائنات کا تن تنہا خالق
ومالک ہے ، وہ محض اپنی عبادت کے لئے انس وجن کو پیدا کیا ہے اس وجہ سے جو
رب کی بندگی چھوڑ کر غیراﷲ کی بندگی کرے یااس کی بندگی میں غیراﷲ کو شامل
کریوہ اﷲ کی نظر میں ظالم ہی نہیں بہت ہی بڑا ظالم ہیکیونکہ اﷲ کے ساتھ شرک
کرنا بھاری ظلم ہے ۔ اﷲ کا فرمان ہے :وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِہِ
وَہُوَ یَعِظُہُ یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللَّہِ إِنَّ الشِّرْکَ
لَظُلْمٌ عَظِیمٌ (لقمان:13)
ترجمہ: اور جبکہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے
بچو! اﷲ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔
ظلم کی اس قسم کو دنیا کے مسلمانوں میں تلاش کریں تو معلوم ہوگا کہ اکثر
مسلمان ظالم ہیں ۔ گاؤں گاؤں شہر شہر درگاہوں اور مزاروں پر غیراﷲ کے لئے
سجدے ہورہے ہیں ، اﷲ کو چھوڑکر غیراﷲ سے مدد طلب کی جارہی ہے اور جن کو خود
اﷲ نے پیدا کیا ہیان محتاج وکمزور بندوں کو مشکل کشا؍غوث؍داتااور غریب نواز
سمجھا جارہاہے۔ رب العالمین نے سچ فرمایا ہے کہ اﷲ پر ایمان لانے والے اکثر
مشرک ہیں ۔ فرمان الہی ہے :
وَمَا یُؤْمِنُ أَکْثَرُہُم بِاللَّہِ إِلَّا وَہُم مُّشْرِکُونَ
(یوسف:106)
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ باوجود اﷲ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ۔
قرآن کی یہ آیت صاف صاف بتلارہی ہے کہ کلمہ پڑھنے والے بھی شرک میں مبتلا
ہیں بلکہ ایسے لوگوں کی دنیا میں کثرت ہے ۔ جب اس درجے کے مسلمانوں کی
اکثریت ہوگی پھر کیسے نہ ابتلاء وآزمائش میں ہوں گے؟
(۲)ظلم کی دوسری قسم بھی حقوق اﷲ سے متعلق ہے اور یہاں پراس سے مراد اﷲ کی
وہ معصیت ہے جو شرک کے علاوہ ہو۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ ہمیں اﷲ نے
آنکھ سے جائز چیز دیکھنے کا حکم دیا، کان سے اچھی بات سننے کا حکم دیا مگر
ہم اﷲ کی نافرمانی کرتے ہوئے آنکھوں سے گندی تصویر دیکھتے ہیں اورکانوں سے
گانا سنتے ہیں تو یہ اپنی آنکھوں اور کانوں پر ظلم کرنا ہوا ، اسی کو اپنے
نفس پر ظلم کرنابھی کہا جاتا ہے یعنی جب بھی انسان اﷲ کی معصیت ونافرمانی
کا کوئی کام کرتا ہے تو وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرتا ہے۔ اس بات کو اﷲ تعالی
نے قرآن مقدس میں کئی جگہ بیان کیا ہے ،پہلے وہ آیت دیکھیں جس میں اﷲ بیان
کرتا ہے کہ انسان اپنے نفس پر خود ہی ظلم کرتا ہے، اﷲ فرماتا ہے : إِنَّ
اللَّہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَلَٰکِنَّ النَّاسَ أَنفُسَہُمْ
یَظْلِمُونَ(یونس:44)
ترجمہ: یہ یقینی بات ہے کہ اﷲ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود
ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں ۔
اور اب وہ آیت دیکھیں جس میں اﷲ بتلا رہا ہے کہ اﷲ کی نافرمانی اور اس کے
حدود سے تجاوز کرنا اپنے نفسوں پر ظلم کرنا ہے ۔ فرمان رب العالمین ہے :
وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ (الطلاق:44)
ترجمہ: جو شخص اﷲ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنی جانوں پر ظلم
کیا۔
ظلم کی اس قسم کو مسلمانوں میں تلاش کرتے ہیں تو گھر گھر اور اکثرمسلمانوں
میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
ان دونوں قسموں کے ظلم کا حکم یہ ہے کہ اﷲ تعالی توبہ کے ذریعہ شرک اور
اپنے حق میں ہونے والی تمام معصیت کو معاف فرمادیتا ہے لیکن شرک پر کسی کا
خاتمہ ہوجائے تو پھراﷲ کے دربارسے اس ظلم کی معافی نہیں ملتی ہے ، ہمیشہ
ہمیش کے لئے اس ظلم کے بدلے جہنم میں جانا پڑے گا تاہم شرک کے علاوہ گناہ
کو اﷲ چاہے تو معاف کرے اور چاہے تو سزا دے ۔ اﷲ فرماتا ہے :
إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ
ذَٰلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَقَدِ افْتَرَیٰ إِثْمًا
عَظِیمًا(النساء :48)
ترجمہ: یقینا اﷲ تعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے
سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اﷲ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا
گناہ اور بہتان باندھا۔
(۳)ظلم کی تیسری قسم حقوق العباد سے متعلق ہے یعنی ایک آدمی کسی دوسرے آدمی
پر کسی قسم کا ظلم کرے مثلا لوگوں کاناحق خون کرنا، باطل طریقے سے کسی کاحق
مارنا، کسی کاسامان چھین لینا یاچوری کرلینا، بلاوجہ کسی کوگالی دیدینا،
معصوم آدمی پر بہتان لگانا،لوگوں کا دل دکھانا، کسی کی غیبت اور چغلی کرنا،
کمزوروں کو پریشان کرنا، حق کے داعیوں کے لئے مشکلات پیدا کرنا اور مظلوم
کے خلاف ظالم کی مدد کرنا وغیرہ ۔
ظلم کی تینوں اقسام میں یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کو اﷲ معاف نہیں کرتا اور
نہ ہی نماز وروزہ اور حج وعمرہ جیسی نیکی سے تلافی ہوتی ہے۔ نبی ﷺکا فرمان
ہے :
مَن کَانَتْ لہ مَظْلَمَۃٌ لأخِیہِ مِن عِرْضِہِ أَوْ شیء ٍ،
فَلْیَتَحَلَّلْہُ منہ الیَومَ، قَبْلَ أَنْ لا یَکونَ دِینَارٌ وَلَا
دِرْہَمٌ، إنْ کانَ لہ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ منہ بقَدْرِ مَظْلَمَتِہِ،
وإنْ لَمْ تَکُنْ لہ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِن سَیِّئَاتِ صَاحِبِہِ فَحُمِلَ
علیہ(صحیح البخاری:2449)
ترجمہ: اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ (سے ظلم
کیا ہو) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرا لے جس دن نہ دینار ہوں
گے، نہ درہم بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں
وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے
(مظلوم) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی۔
اس معنی کی ایک مفصل روایت صحیح مسلم میں یوں وارد ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :
أَتَدْرُونَ ما المُفْلِسُ؟ قالوا: المُفْلِسُ فِینا مَن لا دِرْہَمَ لہ
ولا مَتاعَ، فقالَ: إنَّ المُفْلِسَ مِن أُمَّتی یَأْتی یَومَ القِیامَۃِ
بصَلاۃٍ، وصِیامٍ، وزَکاۃٍ، ویَأْتی قدْ شَتَمَ ہذا، وقَذَفَ ہذا، وأَکَلَ
مالَ ہذا، وسَفَکَ دَمَ ہذا، وضَرَبَ ہذا، فیُعْطَی ہذا مِن حَسَناتِہِ،
وہذا مِن حَسَناتِہِ، فإنْ فَنِیَتْ حَسَناتُہُ قَبْلَ أنْ یُقْضَی ما علیہ
أُخِذَ مِن خَطایاہُمْ فَطُرِحَتْ علیہ، ثُمَّ طُرِحَ فی النَّارِ.(صحیح
مسلم:2581)
ترجمہ:تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: مفلس ہم میں وہ ہے جس کے
پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مفلس میری امت
میں قیامت کے دن وہ ہو گا جو نماز لائے گا، روزہ اور زکوٰۃ لیکن اس نے دنیا
میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے پربدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا
مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا، پانچویں کو مارا ہو گا، پھر ان
لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیا ں مل جائیں گی اور
جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلیختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں
کی برائیاں اس پر ڈالی جائیں گی آخر وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
ظلم کی اس قسم کو مسلمان میں تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے گھر گھر ظالم
ہے ، ہرکوئی دوسرے کے لئے ظالم ہے اور افسوسناک صورت حال تو یہ ہے کہ
تقلیدی مسالک میں بٹے مسلمان ایک دوسرے پر ظلم کی انتہا کرچکے ہیں ۔اندھی
تقلید اور گروہی عصبیت میں اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ دین کے سچے داعیوں اور
معصوم علماء کو دہشت گرد قرار دے کر کافروں کے ہاتھوں میں تھما رہے ہیں
تاکہ اہل کفر انہیں قتل کردے یا جیل کی سلاخوں میں بند کرکیانہیں دعوت دین
سے روک دے ۔ العیاذ باﷲ
اے کاش! خود کو مسلمان کہنے والے اس حدیث کو عمل میں لائے ہوتے تو آج ہم
کافروں سے مغلوب نہ ہوتے اور یوں زمانے میں ذلیل وخوار نہ ہوتے ۔ سیدنا
ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہیکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تَحاسَدُوا، ولا تَناجَشُوا، ولا تَباغَضُوا، ولا تَدابَرُوا، ولا
یَبِعْ بَعْضُکُمْ علَی بَیْعِ بَعْضٍ، وکُونُوا عِبادَ اﷲِ إخْوانًا
المُسْلِمُ أخُو المُسْلِمِ، لا یَظْلِمُہُ ولا یَخْذُلُہُ، ولا یَحْقِرُہُ
التَّقْوَی ہاہُنا ویُشِیرُ إلی صَدْرِہِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ بحَسْبِ امْرِءٍ
مِنَ الشَّرِّ أنْ یَحْقِرَ أخاہُ المُسْلِمَ، کُلُّ المُسْلِمِ علَی
المُسْلِمِ حَرامٌ، دَمُہُ، ومالُہُ، وعِرْضُہُ.(صحیح مسلم:2564)
ترجمہ:مت حسد کرو، مت دھوکے بازی کرو، مت بغض رکھو، مت دشمنی کرو، کوئی تم
میں سے دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے اور ہو جاؤ اﷲ کے بندو بھائی بھائی۔
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے، نہ اس کو ذلیل کرے، نہ اس کو
حقیر جانے، تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے۔اور اشارہ کیا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
نے اپنے سینے کی طرف تین بار (یعنی ظاہر میں عمدہ اعمال کر نے سے آدمی متقی
نہیں ہوتا جب تک سینہ اس کا صاف نہ ہو),کافی ہے آدمی کو یہ برائی کہ اپنے
مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، مسلمان کی سب چیزیں دوسرے مسلمان پر حرام ہیں
اس کا خون، مال، عزت اور آبرو۔
آج ایک مسلمان خود دوسرے مسلمان کے لئے مصیبت بنا ہوا ہے اورایک گروہ
دوسروں کے خون کا پیساہے،یہ سب کچھ دشمنان اسلام کو معلوم ہیں اوروہ خوب
خوب فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ کیا ہوگیا آج کے مسلمانوں کو کہ وہ اپنے بھائیوں
کی مدد کرنے کی بجائے ان کی پیٹھ میں چھورا گھونپ رہے ہیں اور اﷲ کیدشمنوں
کی مدد کررہے ہیں ۔ اﷲ نیہمیں اپنے بھائیوں کے جھگڑے ختم کرنیاور ان کی
اصلاح کرنے کا حکم دیا جبکہ ہم اس کے برخلاف آپس میں مسلمانوں کو لڑانیمیں
لگے ہیں اوراپنے بھائیوں کو مٹانے پر تلے ہیں۔کیاظالم مسلمان اس آیت کی
تلاوت نہیں کرتے۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ
وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (الحجرات:10)
ترجمہ: بے شک سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ
کرادیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
ظالم لوگ سمجھتے ہیں کہ اﷲ ان کے کرتوت سے غافل ہے ، ہرگز نہیں بلکہ وہ
ظالموں کے عملوں سے بخوبی واقف ہے، بس تھوڑی مہلت دیتا ہے اور جب تباہی کا
وقت آجاتا ہے تو پھر کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّہَ
غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا یُؤَخِّرُہُمْ لِیَوْمٍ
تَشْخَصُ فِیہِ الْأَبْصَارُ (ابراھیم:42)
ترجمہ: ظالموں کے اعمال سے اﷲ کو غافل نہ سمجھ وہ تو انہیں اس دن تک مہلت
دئے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی پھٹی رہ جائیں گی ۔
اور اﷲ کے نبی ﷺکا فرمان ہے : إنَّ اللَّہَ لَیُمْلِی لِلظّالِمِ حتَّی إذا
أخَذَہُ لَمْ یُفْلِتْہُ(صحیح البخاری:4686)
اﷲ تعالیٰ ظالم کو چند روز دنیا میں مہلت دیتا رہتا ہے لیکن جب پکڑتا ہے تو
پھر نہیں چھوڑتا۔
قرآن ظالموں کی بے شمار داستانیں ہم سے بیان کرتا ہے، بڑے بڑے ظالم دنیا سے
نیست ونابود کئے گئے، کہیں ان کا اتہ پتہ اور نام ونشان نہیں ملتا۔
نہ گورسکندر نہ ہے قبردارا مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
کیا نمرود اور کیا فرعون ؟اﷲ نے بستیوں کی بستی ہلاک کردیا ، اﷲ کا فرمان
ہے : وَکَمْ قَصَمْنَا مِن قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَأَنشَأْنَا
بَعْدَہَا قَوْمًا آخَرِینَ (الانبیاء :11)
ترجمہ:اور بہت سے بستیاں ہم نے تباہ کردیں جو ظالم تھیں اور ان کے بعد ہم
نے دوسری قوم کو پیدا کردیا۔
ظلم کی ہولناکی دیکھیں کہ مظلوم کی آہ وبکا اور اﷲ کے درمیان کوئی رکاوٹ
نہیں ہے اور پھر مظلوم فاسق وفاجر ہو حتی کہ کافر ہو تب بھی اس کی بددعا
ظالم کے خلاف اﷲ قبول کرلیتا ہے ۔ اس سے متعلق تین قسم کی احادیث وارد ہیں
۔ نبی ﷺکا فرمان ہے :
اتَّقِ دَعْوَۃَ المَظْلُومِ، فإنَّہَا لیسَ بیْنَہَا وبیْنَ اللَّہِ
حِجَابٌ. ( صحیح البخاری:2448)
ترجمہ:مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اﷲ کے درمیان پردہ نہیں
ہوتا۔
نبی ﷺکا فرمان ہے:
دعوۃُ المظلومِ مُستجابۃٌ ، وإن کان فاجرًا ففُجورُہ علی نفسِہ(صحیح
الترغیب:2229)
ترجمہ: مظلوم کی دعا قبول کرلی جاتی ہے ، اگر وہ فاجر ہوگا تو اس کی برائی
اسی کے نفس پر ہوگی۔
نبی ﷺ فرمان ہے :
اتَّقوا دعوۃَ المظلومِ ، و إن کان کافرًا ، فإنہ لیس دونہا حجابٌ(صحیح
الجامع:119)
ترجمہ: مظلوم کی بددعا سے بچو اگرچہ کافر ہو کیونکہ اس کے لئے کوئی رکاوٹ
نہیں ہوتی۔
ظلم کا سب سے بھیانک انجام یہ ہے کہ ظالموں کو آخرت میں سزا ملنی ہی ملنی
ہے ، دنیا میں بھی یقینی طور پر اورہرحال میں اﷲ کے عذاب میں گرفتار ہوتا
ہے ، اﷲ کا فرمان ہے :
ما من ذنبٌ أجدرُ أن یُعجِّلَ اﷲُ لصاحبِہ العقوبۃَ فی الدنیا مع ما
یدَّخِرُ لہ فی الآخرۃِ من البغیِ وقطیعۃِ الرحمِ(صحیح ابن ماجہ:3413)
ترجمہ: ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا مرتکب زیادہ
لائق ہے کہ اس کو اﷲ کی جانب سے دنیا میں بھی جلد سزا دی جائے اور آخرت کے
لئے بھی اسے باقی رکھا جائے ۔
آخر میں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ بلاشبہ ہم سب اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے
ہیں ، اس گناہ کو اﷲ معاف کرسکتا ہے مگر جو گناہ موجب جہنم ہے اس سے تو
ہرحال میں بچنا ہوگا۔ آئیے اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم نے کس کس کے حق میں
ظلم کیا ہے، اولاد، رشتے دار، پڑوسی، علماء ، ان سب سے اپنیجرم کی تلافی
کروالیں اور آئندہ مسلمانوں کے حق میں ظلم کرنے سے بچیں حتی کہ کسی کافر یا
کسی جانور پر بھی ظلم نہ کریں اورمیری بات کا یقین کریں کہ اگر مسلم اپنی
زندگی سے ظلم ختم کرلیں اور آپس میں ایمان والے بھائی بن جائیں تو دشمن پر
پھر سے غالب آجائیں گے ۔ اﷲ کا فرمان ہے :
وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم
مُّؤْمِنِینَ (آل عمران:139)
ترجمہ:اور تم سستی نہ کرو اور نہ غمگین ہو ، تم ہی غالب رہوگے اگر تم ایمان
والا رہو۔
اور ایک آخری بات آپ سب سے ادبا و احتراما عرض کرنا ہے کہ مظلوم مسلمان جو
جیلوں اور کافروں کے نشانے پر ہیں ان کی مدد کریں خواہ وہ کسی طبقہ اور
مسلک سے ہوں اور مسلمانوں میں جو ظالم ہیں ان کو ظلم سے روکیں ، نبی ﷺکا
فرمان ہے:
انْصُرْ أَخَاکَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، قالوا: یا رَسُولَ اللَّہِ، ہذا
نَنْصُرُہُ مَظْلُومًا، فَکیفَ نَنْصُرُہُ ظَالِمًا؟ قالَ: تَأْخُذُ فَوْقَ
یَدَیْہِ.(صحیح البخاری:2444)
ترجمہ: اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا،
یا رسول اﷲ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح
کریں؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس
کی مدد ہے)۔
|