جانب منزل

حق و باطل ہر دور ہر زمانے میں ایک دوسرے سے برسر پیکار رہا۔۔ تاریخ کے اوراق میں مؤرخوں ان معرکوں کو سنہری الفاظ سے مزین کیا اب چاہے وہ معرکہ میدان بدر کا ہو یا کربلا کا۔۔لیکن کربلا کے میدان میں امام عالی مقام علیہ السلام اور تمام شہداء نے عقل انسانی کو حیرت کے سمندر میں ڈبو دیا اور بتا دیا کہ حق نہ کبھی سر نگو ہوا ہے اور نہ ہوگا۔۔
۶۰ ہجری ماہ رجب۔۔ وصال حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا وقت قریب آن پہنچا۔۔ وصیت کی گئی کہ بیعت کے معاملے میں اہل بیت سے نرمی سے کام لیا جائے۔۔۔ بعد وصال حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تخت حکومت پر یزید براجمان ہوا اور تمام مسلم ریاستوں کے عاملوں کو لوگوں سے بیعت لینے کا حکم جاری کیا۔۔ مدینے کا عامل ولید تھا حکم نامہ پاتے ہی اس نے حضرت امام حسین کو طلب کیا۔
امام حسین نے معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے چند اشخاص سے مشورہ کیا اور انکو اپنے کو ہمراہ لے کر ولید کی طرف تشریف لے گئے اور باہر ہی ٹھہرنے کا حکم دیا۔۔
بعد از سلام ولید نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر اور یزید کے حکم نامے کو اپکی طرف بڑھا دیا ۔۔جس میں صاف طور پر لکھا تھا کہ بیعت جس طور بھی ممکن ہو لی جائے۔۔ ولید نے فیصلہ پوچھا تو امام عالی مقام نے خلوت میں فیصلہ سنانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں یزید سے بیعت ہونے یا نا ہونے کا فیصلہ سب کے سامنے رکھوں گا۔۔ اور اٹھ کر واپس تشریف لے گئے۔۔ ولید مصلحت پسند انسان تھا اس لیے اس نے زبردستی نہ کی ۔۔
• امام عالی مقام علیہ السلام نے کیوں خلوت میں فیصلہ سنانے سے انکار کیا؟
اس لیے کیوں کہ حق علی الاعلان خود کو منواتا ہے۔باطل جتنا بھی زور آور ہوجائے جتنے بھی حیلے بہانے تراش کر پروان چڑھنا چاہے حق کے آگے شکست ہی کھاتا ہے۔۔۔
ولید سے ملاقات کے بعد آپ ساتھیوں کے ہمراہ جانب مکہ روانہ ہوئے ۔
• روانہ ہونے کی چند وجوہات تھیں کہ مدینہ کی صورت حال ناسازگار ہوگئی تھی اور برابر یہ اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ یزیدی مدینہ منورہ میں گھس آئے ہیں اور آپکی جان کے درپے ہیں۔ آپ کو یہ گوارا نہ تھا کہ مدینہ منورہ کا تقدس پامال ہو۔۔اور اس میں حکمت عملی یہ تھی کہ قاتلین اہلبیت کا نام صیغہء راز نہ رہے یہی وجہ ہے آپ نے مکہ میں قیام کے بعد کربلا کی جانب روانہ ہوئے تاکہ آپ اپنے قاتلوں کے چہروں کو بے نقاب کر سکیں۔۔
جب آپ مکہ میں پناہ گزیں تھے تو اہلیان کوفہ کی جانب سے آپ کو خطوط موصول ہونا شروع ہوگئے جس سے یہ بات واضح تھی کہ وہ یزید کی حکومت سے نالاں اور امداد ابن علی علیہ السلام کے طلب گار ہیں .. لیکن آپ علیہ السلام نے حکمت عملی کے پیش نظر خود جانے کے بجائے مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ تمام صورت حال کا جائزہ لے کر آگاہ کریں۔
مسلم بن عقیل کوفہ پہنچے اور لوگوں کی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت اور ان سے بیعت کرنے کی بےچینی کو دیکھتے ہوئے معلوم کر لیا کہ کوفہ والے یزید کی حکومت سے کسی طور راضی نہیں ہیں۔۔ مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ نے خط لکھ دیا بنام امام حسین علیہ السلام ۔۔
خط روانہ کرنا ہی تھا کہ حالات نے ایسی کروٹ لی کہ صورت حال یکسر بدل گئی بیعت کرنے والے اپنی اپنی بیعت کو بھلا بیٹھے کسی کو اقتدار کی لالچ نے بہکایا تو کسی کو اپنی جان سب سے عزیز لگنے لگی۔۔ یزید کا یہ پینترا جو اس نے ابن زیاد کی صورت میں کوفہ کی جانب پھینکا تھا کام کر گیا ابن زیاد کی سفاکیت کا اندازہ اس کی پہلی تقریر سے سب کو بخوبی ہوگیا تھا اور ابن زیاد نے یہ باور کروادیا کہ یا تو یزید کی حکومت قبول کر لو یا موت ۔۔
دوسری طرف اس نے مسلم بن عقیل علیہ السلام کو گرفتار کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا مسلم بن عقیل علیہ السلام کی تلاش جاری تھی کوفے کا چپہ چپہ ابن زیاد کے کارندوں کی نظر میں تھا۔۔مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ بھی تمام صورت حال سے باخبر تھے۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ جو پہلے مختار بن ابو عبید کے گھر میں مقیم تھے اب ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو گئے تھے۔۔ ابن زیاد کے کارندوں کو جب اس بات کی خبر ہوئی کہ مسلم بن عقیل ہانی بن عرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں پناہ گزیں ہیں آپ کو پکڑ کر ابن زیاد کے سامنے لے گئے۔۔ صورت حال معلوم کی گئی لیکن ہانی بن عروہ نے اہلبیت سے وفاداری کا وہ ثبوت دیا کہ زبان نہ کھولی اور شہید کر دیے گئے۔۔مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی گرفتار کر کے شہید کیا جاچکا تھا۔۔ کل تک کوفہ والے جو جان دینے کے لیے تیار تھے آج بے وفائی میں اپنی مثال آپ بنے نظر آرہے تھے۔۔۔ لیکن ان میں کچھ باوفا حضرات بھی تھے جنہوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام صورت حال کی اور مسلم بن عقیل کو شہید کرنے کی خبر دے دی۔۔ پھر بھی جانب کوفہ نکل پڑے جانب کوفہ روانہ ہونے سے پہلے بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو روکا گیا روکنے والوں میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اور عمر بن عبدالرحمن بھی شامل تھے۔۔
• سوال یہ ہے کہ جب حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام صورت حال کی خبر ہونے کے باوجود واپسی کا ارادہ کیوں نہ فرمایا؟
• نواسہء رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم باطل کی تلوار توڑنے اور دفاعِ دین کے خاطر نکلے۔۔ اور یہ بتانے کہ حق کے لیے سر کٹ سکتا ہے پر باطل آگے کبھی نہیں جھک سکتا ۔۔۔ یہ ید ابن علی علیہ السلام ہے کبھی فاسق کی بیعت نہیں کرسکتا۔
آپ علیہ السلام جانب منزل روانہ ہوئے ہی تھے کہ دور سے لشکر یزید حر بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ کی معیت میں آتا دکھائی دیا۔۔ حر بن یزید جو کہ ابھی یزیدی لشکر میں تھے اپنا مدعا کہہ سنایا اور بتایا کہ امام عالی مقام پر زمین تنگ کرنے اور آپکو گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس لے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔۔
امام عالی مقام نے بس اتنا کہہ کر کہ یہ ہر گز نہیں ہوسکتا اپنا قافلہ کوفہ کے رستے سے دوسری جانب موڑ لیا۔۔ امام کی آنکھیں اپنی منزل کو دیکھ رہی تھیں آپ ہر رستے کو بغور دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے جیسے آپ اس رستے کو پہچانتے ہوں اور جانتے ہوں کہ اس رستے پر ہی ان کی آخری منزل ہے وہ یقینا جانتے تھے جگر گوشہء رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو تھے کیسے نہ جانتے۔ پھر ایک مقام پر پہنچے اور پوچھا یہ کونسی جگہ ہے بتایا گیا کرب و بلا۔۔۔زیر لب دہرایا کربلا۔۔فضاء میں ایک گہری خاموشی تھی ہوائیں جیسے تھم کر آپ کی پیشانی کو آخری بار چوم رہی ہوں بادل تھے کہ رک کر صرف آپکو دیکھنے کربلا میں آئے ہوں۔
پھر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا۔۔۔دوسری جانب حر بن یزید اور انکے لشکر نے پڑھاؤ ڈال دیا۔۔۔
• روایت میں ہے کہ حر بن یزید کے لشکر کی تعداد صرف ۱۰۰۰ تھی تو کیا وجہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اس سے مقابلہ کر کے اس کو تہ و تیغ نہ کیا۔۔
• کیونکہ امام عالی مقام اپنے مسکن سے نکل کر اہلیان کوفہ کی مدد کو آئے تھے نہ کہ جنگ کے ارادے سے۔۔اور اس لیے کہ آپ کو اس لشکر میں ۴ ایسے افراد نظر آئے کہ جو تو بظاہر یزیدی لشکر میں تھے مگر تھے وہ حسینی لشکر سے۔۔ آپ کو معلوم تھا کہ یہ میرے غلام یزیدی لشکر چھوڑ کر میری طرف پلٹ آئیں گے۔۔
ابھی پڑاؤ ڈالے کچھ ہی دیر گزری تھی ابن سعد ۴۰۰۰ کے لشکر کے ساتھ کرب و بلا پہنچ گیا ۔۔ ابن سعد اہل بیت سے مقابلے کے لیے تیار نہ تھا لیکن اقتدار کی لالچ اور دولت کی ہوس نے اسے اندھا کر دیا تھا۔۔ لشکر یزید کا ہر فرد صم بکم عمی فھم لا یعقلون کی عملی تصویر بنا کھڑا تھا ۔۔ اقتدار و دولت کے یہ اندھے بہرے لوگ سب کچھ بھلا بیٹھے تھے کہ اہل بیت کی محبت ہی دین کی اصل اور ایمان کی روح ہے ۔۔ محاصرہ سخت سے سخت ہوتا گیا ۔۔ بیعت کرو یا جان سے جاؤ کی آوازیں گونجنے لگیں صرف یہ دو راستے ۔۔ ظلم کی آخری حد پار کی گئی پانی بند کر دیا گیا ۔۔ یہ کیسی جنگ تھی جو کبھی نہ دیکھی گئی جس میں ظالم ظلم کر کے خوف زدہ نظر آتا ۔۔ اور مظلوم بے خوف کھڑے بخوشی موت کو گلے لگانے کے لیے بے تاب۔۔بدر کی طرح خیمہ اہل بیت میں بارش ہوئی تھی ایسی بارش جس نے دلوں کو سیراب کیا تھا یہی وجہ تھی کہ ہزاروں کے سامنے یہ اہل بیت کے ۷۲ افراد چٹان ثابت ہوئے۔۔
کرب و بلا میں ضبط اپنی کمال عروج پر تھا ۔۔ کس کا ضبط؟ امام حسین علیہ السلام کا ضبط۔۔ کس کا ضبط ؟ خون علی علیہ السلام کا ضبط۔۔ کس کا ضبط ؟ زہرہ علیہا السلام کے لعل کا ضبط۔۔ آسمان و زمیں محو حیرت تھے کہ یہ ضبط کی کونسی منزل ہے نہ جانے اب کیا ہونے کو ہے۔۔
دس محرم الحرام کاسورج طلوع ہوا خیمے سے باہر نکل کر امام عالی مقام نے یزیدیوں پر ایک نظر ڈالی اور پھر یاد دلایا جو وہ اقتدار و طاقت کے نشے میں بھول بیٹھے تھے کہ وہ کس کے نواسے اور کس کے بیٹے ہیں۔۔ اور اس لیے بھی کہ انہیں یزیدی لشکر میں اپنے ۴ غلام نظر آ رہے تھے۔۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے بات ابھی مکمل کی ہی تھی کہ حضرت حر بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ کی قسمت کا ستارہ چمکا اور انہوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگا دی اور لشکر یزید سے نکل کر لشکر حسینی میں شامل ہوگئے اور ساتھ ساتھ آپکے بھائی ، غلام اور بیٹے بھی شامل ہوگئے۔۔ حضرت حر رضی اللہ تعالی عنہ نے وفاداری اور شجاعت کے وہ جوہر دکھائے کہ حق غلامی ادا کر کے جام شہادت نوش فرما لیا۔۔
امام حسین کے ضبط کا امتحان کمال پر تھا سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔۔ آپ نے اپنے ہاتھوں سے علی اکبر جیسے شہزادے کو اٹھایا، علی اصغر کے ننھے وجود کو اپنے ہاتھوں سے دفنایا ۔۔ (عون و محمد ) عزیزان زینب کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتا ہوا دیکھا۔۔ قاسم ابن حسن جان حسن کے اعضاء کو یکجا کیا۔۔ جان سے عزیز بھائی عباس کے بازوؤں کو سمیٹا ۔۔۔ ۷۲ افراد کی شہادت کے بعد۔۔ پھر بھی عزم و ارادہ میں وہی پختگی ۔۔۔ وہی حوصلہ تھا جو کمال عروج پر تھا ۔۔۔ یہ صرف خون علی کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔۔ زمیں پر لرزہ طاری ہے کہ وہ اپنے سینے پر اہل بیت کا خون گرتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔۔ ایک کے بعد ایک باب بند ہوتا چلا گیا کتاب تھی کہ سب کو سمیٹے جا رہی تھی۔۔
اب کتاب وفا کی تکمیل ہونے والی تھی کتاب وفا کا سب سے اہم باب میدان میں جانے کو تیار تھا۔
اب امام عالی مقام سب کو الوداع کہہ کر خیمے سے نکلے آخری حجت قائم کرتے ہوئے دوبارہ اپنا تعارف کروایا ۔۔۔اس لیے تاکہ بعد میں یزیدیوں کو حیلے بہانے تراشنے کا موقع نہ ملے۔۔ فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی تھی۔۔
امام عالی مقام تنہا لڑتے رہے دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ برابر مقابلہ کرتے رہے لیکن بالاخر زخموں سے چور ہوکر گھوڑے سے گر گئے۔۔۔ امام علیہ السلام نے گر کر سجدہ ادا فرمایا ۔یہ سجدہ وہ سجدہ تھا جس نے اسلام کو دوبارہ جلا بخشی ۔۔ شمر ذی الجوشن نے جب آپ علیہ السلام کو سجدہ میں دیکھا تو اسی حالت میں اس بد بخت نے آپکا سر تن سے جدا کر دیا۔۔
• یہ سجدہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ معبود بس ایک ہے باقی سب باطل۔۔ چاہے وہ ظاہری بت ہوں یا باطنی بت سب کی پوجا شرک ہے ۔۔ اقتدار کے بت نے یزید اور یزیدیوں کو اندھا کر دیا تھا ۔۔۔۔ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ شہید کر دیے گئے ۔۔ آسمان و زمیں پر گہری خاموشی طاری تھی ۔۔ وقت کی سانسیں رک گئی تھیں ۔۔ حق اپنے نئے انداز سے جیت گیاتھا امام حسین اپنے مقصد کو پا گئے سر دے دیا یزید کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دیا ۔۔حسین جیت گئے۔۔ یزید کو شکست فاش ہوئی وہ اپنے مقصد میں ناکام و نامراد ہوا ۔۔ کیونکہ جنگ جیتتا وہی ہے جو اپنے مقصد کو پا لے ۔۔حسین نے بتا دیا کہ باطل جتنا بھی زور آور ہوجائے حق کے سامنے کبھی سر نہیں اٹھا سکتا ۔۔عجیب جنگ تھی جس میں ظالموں کی تلواروں کو توڑا گیا امام عالی مقام علیہ السلام نے کسی کی گردن نہیں کاٹی بلکہ اپنے سوکھے گلے سے باطل کی تلوار کو توڑ کر رکھ دیا ۔۔ حق کی آواز کو بلند کر گئے میرے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ۔۔ کہ اب یہ آواز اذان حق کی صورت میں قیامت تک گونجتی رہے گی۔

 

Aalima Rabia Fatima
About the Author: Aalima Rabia Fatima Read More Articles by Aalima Rabia Fatima: 48 Articles with 86653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.