ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں؟؟

 تمام دوست اس تحریر کو ضرور پڑھیں۔ سوشل میڈیاپرپر دوستوں اور دشمنوں (صرف سیاسی طورپر) کے بہت سے الٹے سیدھے تاثرات پڑھنے کے بعد سوچا کہ ایک بار سب کو جواب دے کر نمٹا ہی دیا جائے۔ 1977 کی نظام مصطفٰی تحریک میں سیاسی نظریات مختلف ہونے کے بنا پر لوگ ایک دوسرے کے اتنے مخالف ہوئے تھے کہ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارہ نہ تھا۔ یار لوگ خنجر یا ہنٹر کمر پار باندھ کر پھرتے تھے کہ جہاں کوئی سیاسی مخالف نظر آئے تو اسکی درگت بنادی جائے۔کچھ لوگ اس دور کا بارہ بور ریوالور یا دو نالی بندوق سے بھی یہ شوق پورا کرتے تھے۔ اس دور میں ملک بھر میں سیاسی مخالفین کے مکانات، دکانوں اور دیگر پراپرٹی کو آگ لگائی گئی، لوٹ مار اورقتل و غارت ہوئی ۔۔۔۔۔اور بہت کچھ۔۔۔ تاریخ کا حصہ ہے ۔ 50 سال یا اس سے اوپر کے لوگ جن کی سیاست اور حالاتِ حاضر ہ پر نظر ہے اور وسیع مطالعہ رکھتے ہوں، وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس دور میں ملک بھر میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور ہمارے شہر میں بھی سیاسی مخالفین پر مذکو رہ تماے حملے کیے گئے جسکا نشانہ میری فیملی بھی بنی، ملک کے بیشتر حصے کرفیو کی زد میں رہے۔ اسکے بعد مارشل لا آیا، پھر افغانی، پھر ہیروئن، کلاشنکوف، پھر غیر جماعتی الیکشن،پھر جماعتی الیکشن، پھر الیکشن، پھر الیکشن، اور پھر الیکشن یا سلیکشن ْ؟؟؟؟ اور اس کے بعد سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے۔

اس تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کچھ عرصے سے ایسا لگ رہا ہے کہ شاید ہمار ے ملک کے سیاستدانوں نے عوام کو پھر 1977ا کی سی نہج پر پہنچا دیا ہے کہ ایک ہی گھر میں چار مختلف نظریات کے لوگ آپس میں دست و گریبان ہیں۔سگے بھائی، لنگوٹیے یار دوست ، رشتہ دار، ایک ہی گلی محلے کے رہنے والے، ہم پیالہ، ہم نوالہ، اکٹھے کھیلنے کودنے دوڑیں لگانے والے، ریسیں لگانے والے، اکٹھے کاروبار کرنے والے، اکٹھے کام کرنے والے سب ایک دوسرے کے دشمن سے بن چکے۔ ایک دوسرے سے ملنا ملانا بند ، عید بقرعید کی مبارک بادیں بند ،پارٹیاں شارٹیاں ختم، دعوتیں ماوتیں ندارد،شام کی میٹنگ یا گپ شپ ،فون پر گپیں وغیرہ سب ختم۔ پارٹیاں اور دعوتیں بھی صرف اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ ہو رہی ہیں۔ پی ٹی آئی والے صرف اپنے ہم خیالوں سے مل کر خوش، ن لیگ والے اپنوں سے مل کر ہیپی۔ فیس بک، ٹوٹر وغیروہ پر پر ایک دوسرے کے خلاف نازیبا الفا ظ اور القابات، ماں بہن کی گالیاں، ہاتھ گریبانوں تک گلے پھاڑنے کو تیار۔اچھے اچھے جانی ، جگری یاردوست ، پڑھے لکھے ویل کوالیفائیذ، اچھے عہدوں پر مامور، ایک د وسرے کے خون کے پیاسے ، ایک دوسرے سے ملنا، یا فون کرنا تک گوارا نہیں کرتے ۔منہہ پر تو نہیں کہتے، لیکن اگر بس چلے اور ایک قتل معاف ہو تو اپنے سیاسی مخالف کو پھڑکانے میں دیر نہ لگائیں!!

بہت سے یار دوست جو کہ پہلے گزشتہ حکمرانوں کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے لیے رطب اللسان تھے ، انہیں اپنا قریبی دوست، کلاس فیلوز،بھائی بند گردانتے اور انکے لیے ووٹ مانگنے میں پیش پیش ہوتے تھے، آج انہیں برا بھلا کہتے اور موجودہ حکومتی ایم این اے اور ایم پی اے کے لیے سوشل میڈیا ایڈوائزر بنے نظر آتے ہیں۔ انتہائی محترم اور عزیز ترین دوست ، رشتہ دار جن کے منہ سے کبھی غیر شائستہ الفاظ سننے کو بھی نہ ملے تھے ،اگر کوئی پوسٹ انکے سیاسی نظریے کے خلاف ہو تو وہ بھی ہیرا منڈی والی زبان پر اتر آ تے ہیں!!!۔سیاسی پارٹیاں پہلے بھی تھیں، سیاسی مخالفت پہلے بھی تھی، نوک جھوک پہلے بھی چلتی تھی،کچھ مار کٹائی بھی ہوتی تھی، لیکن آجکل یہی مخالفت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کی شکلیں تک دیکھنے کے روادار نہیں۔کیوں بھلا؟؟؟ تو جناب! اس میں زیادہ کر دار ہمارے انہی نام نہاد سیا ستدانوں کا ہے جو ایک دوسرے کے چور ڈاکو، سیکورٹی رسک، اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار، بلا،بلا،بلا،با۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب یو ٹرن، جھوٹا ، مکار اور سلیکٹڈ کے نعرے لگاتے ہیں۔ کل کوئی اور اسٹیبلشمنٹ کا منظور ِ نظر حکمران ہوگا اور یہ سب َ ان کے بارے میں پھر یہی لفاظی دہرا رہے ہونگے، اور ہم عوام آپس میں یونہی دست و گریبان ہونگے۔

سوشل میڈیا پر پاک فوج کے بارے میں بھی لوگ مختلف آرا کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ میری نظر میں پاک فوج سے نفرت کرنے والے واقعی کتے ہیں، کمینے ہیں، ذلیل ہیں، سب کچھ ہیں۔پاک فوج ہمارا فخر ہیں۔ انکے بغیر پاکستان کو تصور بھی بیکار ہے۔ انہی کی وجہ سے آج ہم چین کی نیند سوتے ہیں۔ لیکن آج پاک فوج کو کچھ کمینوں کی طرف سے چوڑیاں پیش کی جارہی ہیں۔ انہیں روک کر انکے خلاف چند سر پھرے نعرے بازیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ مٹھی بھر لوگ جلوس بھی نکالتے نظر آئے۔انہیں برا بھلا کہنے اور گالیاں د ینے اور کوسنے والوں کی بھی کمی نہیں۔۔۔۔۔۔، کس لیے پالا ہوا ہے․․ جیسے الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں، ۔ لیکن دوسری طرف ان پر پھول نچھاور کرنے والوں اور انکے ہاتھ چومنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ انہیں دعائیں دینے اور سر پھر ہاتھ پھیرنے والے بزرگوں کی بھی کمی نہیں، انکے ساتھ لڑنے والوں نوجوانوں کی بھی کمی نہیں، 1965والا جذبہ بھی ہوا نہیں ہوا۔ اگر چہ اس گندی سوچ کے پیچھے بھی انہی سیاستدانوں کا ہاتھ ہے، تا ہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔یہاں مجھے مفتی عدنان کاکا خیل صاحب کی ایک (self explanatory) وہ مشہور و معروف جرات مندانہ تقریر یاد آرہی ہے جو انہوں نے کراچی میں پرویز مشرف صاحب کے سامنے کی تھی ، یو ٹیوب سے یہ وڈیو دیکھ کر آپ اس موضوع کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔

ملکی سیاست پر مزید نظار ڈالیں تو پچھلے پچاس سالوں میں وہی چند خاندان، وہی چند پارٹیاں گھوم پھر کر عوام پر مسلط ہیں۔ حتٰی کہ اب تبدیلی کے بعد بھی کچھ یہی صورتحال نظر آتی ہے کہ اکثر ممبرانِ اسمبلی دوسری اور تیسری بار، ڈھیٹ اور بے شرم اور بے غیرت سے ہو کر ایک ہی وزارت پر لٹکے نظر آتے ہیں ، صرف پارٹی بدل گئی ہے۔ کل یہ کسی اور پارٹی کے ترجمان تھے آج موجودہ پارٹی کے ساتھ ہیں ۔اسی طرح ہر بار پارٹیاں بدل بدل کر یہ لوگ ہمارے اوپر مسلط رہتے ہیں تاکہ انکی دولت اور مفادات کی حفاظت رہے۔یہ لوگ لڑ بھڑ کر کچھ عرصے بعدپھر ایک ہوجاتے ہیں، اور ہم عوام کو لڑنے بھڑنے کے لیے بے وقوف بنا کر چھوڑ جاتے ہیں۔کبھی تسبیح ہاتھ میں پکڑے تصویریں چھپواتے ہیں، تو کبھی نماز پرھتے تصاویر جاری ہوتی ہیں تو کبھی جیل میں قرآن اور احادیث پڑھنے اور تفاسیر مکمل کرنے کی خبریں لگواکر عوام کو رام کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ کبھی عید کی نماز پڑھتے تو جناب کبھی اﷲ اور اسکے رسول کے نام نہاد چاہنے والے بن کر عوام کو ورغلاتے ہیں، (دن میں شاید یہ پانچ نمازیں بھی پورے نہ پڑھتے ہوں،اور نمازِ جنازہ بھی شاید نہ پڑھنی آتی ہو، لیکن اپنے آپ کو ختم نبوت کا بڑا داعی ضرور گردانیں گے)ْ۔ کبھی ایک دوسرے کے خلاف لانگ، شارٹ مارچ کی باتیں کرتے ہیں تو کبھی دھرنے دیتے ہیں۔بہرحال ا نکے ان لچھن پر نہ جانا کہ چالیس پچاس سال کی عمر کے بعد تو ویسے ہی انسان کو اﷲ بہت یاد آتا ہے اور وہ موت کے خوف سے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتا ہے۔ یہ سب دکھاوا ہوتا ہے اور یہ لوگ اپنی گذشتہ عیاشیوں کو بھول کر صرف عوام کو چ بنا رہے ہوتے ہیں۔ مشہور شاعر مومن کا ایک مشہور شعر ہے کہ: عمر تو گزری ہے عشق بتاں میں مومن ، آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے ۔ ہمارے موجودہ نوجوان سیاستدانوں کے لیے کینیڈا کے نوجوان وزیر اعظم جسٹن ٹروڈواور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم ۔۔جیسنڈا آرڈن کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، کہ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے سیاستدانوں کو اگر نیک بننے کا اتنا ہی شوق ہے تو وہ جوانی میں نیک کام کریں، تسبیحیں پڑھیں، تہجدیں پڑھیں تو جانیں کہ اﷲ کو جوانی کی عبادت زیادہ پسند ہے ۔ تو بھائی کبھی ٹھنڈے دل سے سوچا کہ ان مفاد پرست سیاستدانوں کے لیے آپ ایک دسرے کے اتنے دشمن کیوں ہوئے چلے جارہے ہیں؟؟۔ایک ہی گھر میں بھائی بھائی کا دشمن کیوں بنا ہواے ہے۔ یہ ن لیگ،یہ پی ٹی آئی،یہ پی پی پی،یہ جے یو آئی، انہوں نے تو پھر ایک دن ایک ہو جانا ہے۔لیکن آپ ہمیشہ کے لیے برے کیوں؟؟؟

صحافت کی بات کریں تو ان صحافی بھائیوں کی اپنی روزانہ ایک نئی زبان ہوتی ہے۔ صحافت میں ایک مشہور کالم نگار ایک دن کہتا ہے کہ میں ملک میں قتل و غارت دیکھ رہاہوں، الحمد ﷲ، کچھ نہ ہوا۔ ایک کالم نگار ایک دن لکھتا ہے کہ خان کو آنے دو، پھر لکھتا ہے کہ شیر کو آنے دو اسکا ووٹ بنک محفوظ ہے۔۔ پہلے یہ موجودہ پارٹی کے لیے لکھتے تھے، آج یہ گزشتہ پارٹی کے ساتھ ہیں۔ موجودہ حکومت کے Die hard سپورٹر کالم نگار، تجزیہ کار آج ان کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔یہ ایک دن ایک پارٹی کی حمایت میں کالم لکھتے ہیں تو دسرے دن دوسری پارٹی کی حمایت میں قلم گھس رہے ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر لگی وہ لسٹ تو شاید آپ لوگوں نے بھی دیکھی ہوگی کہ جس میں معزز صحافیوں کو ایک مشہور بزنس مین کی طرف سے دی گئی مراعات اور رقوم کی تفصیلات بڑے شد و مد کے ساتھ دکھائی گئی ہیں۔اسی طرح اگرکسی لیڈر نے کسی ٹی وی پروگرام کے لیے ٹائم نہ دیا تو اگلے روز پرو گرام میں اسکی ایسی تیسی۔ میڈیا کی طرف نظر ڈالیں تو ہر چینل کی اپنی سیاسی وابستگی کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ساتھ ہے اور اسی کی حمایت میں سر دھن رہے ہوتے ہیں۔

تو جناب آپ سب سے گذارش ہے کہ اپنے اندر صبر، برداشت اور حوصلہ پیدا کریں۔ اپنی سیاسی وابستگیوں کو اپنی دوستیوں اور رشتہ داریوں اور اخلاقی اقدار پر قربان نہ کیجئے کہ ہر بندہ ہی زہر لگنے لگے اور سب باہم دست و گریبان ہوں۔رشتے بننے میں ایک عرصہ درکار ہوتا ہے اور توڑنے میں صرف چند لمحے لگتے ہیں۔؟؟؟؟ا لسّلام علیکم۔

Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247425 views self motivated, self made persons.. View More