مسئلہ ختمِ نبوت، شہیدِ ناموسِ رسالت

 ختمِ نبوت کے معنی یہ ہیں کہ نبوت، رسالت و پیغمبری حضور نبیِ محترمؑ کی ذ ات پرحکمِ رب العالمین کے تحت ختم کردی گئی ہے۔محمدؑ نبوت کے خاتم (بالکسر) ہیں۔یعنی انبیا کے ختم کرنے والے ہیں۔آپؑ سلسلہ انبیا کے خا تم (بالفتح) یعنی مہرہیں۔ اب محمد ؑ کے بعد کوئی بھی اس سلسلے میں حکمِ رب العا لمین کے تحت د اخل نہ ہوگا اور کوئی بھی نبوت و رسالت کے عہدے پر فا ئض نہ کیا جائے گا۔۔ یہ بات بھی ہر ذی شعور جانتا ہے کہ مہر کسی بھی معاملے یا عبارت کے خاتمہ پرسب سے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ جس کے بعد مزید کسی بات کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔جیسا کہ نبیِ محترمؑ خطوط کے آخر میں اپنی انگوٹھی کی مہر ثبت فرما دیا کرتے تھے۔گویا اب مزید تحریر کی گنجائش باقی نہیں ہے۔لہٰذا خاتم النبین کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

مفتیِ اعظم پاکستان مولانا محمد شفیع نور اللہ مرقدہ نے 99، آیات قرآنی کی مختصر تشریع میں غلام احمد قادیانی کے دعوہ نبوت کے رد کے میں اور’’ختمِ نبوت ‘‘کے ضمن میں پیش کی ہیں۔ان کے علاوہ 56، مستند حد یثیں پیش کی ہیں۔ ان حوالوں کے علاوہ بے شمار مستند کتابیں اور تقریباََ 150، دیگر حد یثیں جو ختمِ نبوت پر د لیل پیش کرتی ہیں، پیش کر چکے ہیں۔ان کے علاوہ بھی مفتی صاحب نے 67، احاحدیث ایسی نقل کی ہیں جو اشارۃَ و کنایۃََختمِ نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ رب العزت نے نبوت کا خاتمہ فرما دیا ہے۔آپکا آخری نبی و رسول ہونا اسلام کے بد یہی مسائل میں سے ہے۔جس سے تمام خاص وعا م مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں میں بھی بہت سارے لوگ واقف ہیں۔لاکھوں علمائے کرام اس مسئلے کوقرآن و حدیث کی روشنی میں و تفسیرِ قرآنی میں بھی گذ شتہ 14 سوسالوں سے واضح کرتے چلے آرہے ہیں۔اس بحث میں نبوت کی کوئی اقسام بھی کبھی سامنے نہیں آئی،(جیسا کہ غلام احمد نے پیش کی ہیں)یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کسی نبی کا ظہور ہوگا۔ یا ان کی تشریعی وغیر تشریعی یا ضلی و برازی یا مجازی و غیر مجازی اقسام ہوں گی۔قرآنِ پاک واحا حد یث نبوی میں اس بات کا کہیں اشارا تک موجود نہیں ہے۔اسی طرح صحابہ کرام ؓ و تا بعین میں سے کسی نے بھی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبوت کے جاری رہنے کا ذ کر نہیں کیا ہے۔پوری امت اس عقیدے پر قائم چلی آرہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر طرح کی نبوت و رسالت کا خاتمہ کر د یا گیا ہے۔آپؑ کے بعد کوئی نبی یا رسول پید ا نہیں ہوگا۔ ا نگریز سازش کے تحت مسئلہِ ختمِ نبوت کو بھی تختہِ مشق بنا دیا گیا۔

رسولِ اکرمؑ اور خلفہِ راشد ین کے ادوار میں پانچ جھوٹے نبیوں نے سر اٹھایا تھا۔ جنکی سرکوبی خود حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے فرما دی تھی۔اس کے بعد سن 332 ہجری تک 12 جھوٹے نبیوں نے سر اٹھایا ،جن کا قلعہ قمع وقت کے خلفائ و حکمران کرتے رہے۔ان کے بعد با ب اللہ اور بہا اللہ نے جھوٹی نبوت کے دعوے کئے۔مگر یہ دونوں بھی نا کام ہو کراپنی موت آُپ مر گئے۔اُنیسویں صدی کے آخر میں نصرانیت کی شہ پر ایک اور نیا نبی غلام احمد قادیان میں جھوٹ کا سہارا لیکر پیدا ہوا۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ کہیں تو موصوف رسولِ اکرمؑ کے خاتم النبین ہونےاور وحی آنے کے خاتمے کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کےعلاوہ مطلقاَ کسی نبی یا رسول کے پیدا نہ ہونے کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔ بڑی عجیب بات یہ ہےکہ کہیں وہ اپنے آپ کو مجازی نبی ہونے کا بھی دعویٰ کرتے ہیں۔ مگر قرآن و حدیث کی کوئی د لیل بھی نہیں لاتے ہیں۔ لوگوں کو ورغلانے کے لئے تشریعی نبی و غیر تشریعی نبی کی بحث شروع کر کے اپنے آپ کو غیر تشریعی نبی بلا قرآن و حدیث کی کسی دلیل کے ظاہر کرتے ہیں اور وحیِ غیر تشریعی کا دعویٰ کر کے ا پنے آپ کو نیا اورصاحبِ شریعت نبی ہونے کے (کذ ب کے ذریعے) دعویدار ہیں۔جس کی وجہ سے ان کےمتبعین تین فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔نمبر1، ظہور دین اویسی کا فرقہ غلام احمد کو صاحبِ شریعت اور تشریعی رسول مانتا ہے۔ نمبر2، مرزا محمود کا قاد یا نی گروہ ان کو با اسطلاح خود غیر تشریعی نبی کہتا ہے۔نمبر3، میا ں محمد علی لاہوری کے گروپ کے لوگ موصوف کو نبی یا رسول نہیں بلکہ مسیحِ موعود و مہدیِ موعود مانتے ہیں۔

مرزا غلام احمد اس با ت کا انکشاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’میری عمر کا بیشتر حصہ سلطنت انگریز کی تائید و حمایت میں گذرا ہے۔میں نے’’ ممانعتِ جہاد‘‘ اورانگریز کی سلطنت وفاداری کے بارے میں اس قدر کتابیں، رسائل اور اشتہارات لکھے ہیں کہ اگر انہیں اکٹھا کردیں تو پچاس (50) الماریاں بھرجائیں‘‘(مرزا غلام احمد(قادیانی)’’تریاق القلوب)اسی طرح اپنی کتاب’’ کشف ا لغطا‘‘ میں موصوف لکھتے ہیں ’’جس طرح میرا باپ انگریز گورنمنٹ کا سچا خیرخواہ تھا۔۔۔اسی طرح انیس (19)برس میں بھی یہ ہی خد مات انجام دیتا رہا ہوں‘‘

جب مرزا غلام احمد نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت سامنے آئی تو موصف نے پینترا بد ل کر کہنا شروع کر دیا کہ میں کوئی تشریعی نبی نہیں ہوں۔ مسیح موعود ہوں جس کا وعدہ خود حضورِ پا ک نے بھی کیا تھا۔جب انہیں بتایا گیا کہ ’’عیسیٰ ؑ تو امام مہدی کے ساتھ وارد ہوں گے‘‘ تو دعویٰ کرنے لگے کہ میں عیسیٰ کے ساتھ مہدی بھی ہوں،غلام احمد ایک جانب عیسیٰ اور دوسری جانب اپنے آپکو مہدیکہتے ہیں ۔حالانکہ عیسیٰ ؑاور امام مہدی دو شخصیات ہیں۔مہدی اس وقت جہاد ِ حق میں مصروف ہونگے تو حضرت عیسیٰؑ بھی اس میں شامل ہوجائیں گے۔ جبکہ غلام احمد نےجہادِ حق کے خلاف لکھنے میں پچاس الماریاں بھر دی تھیں۔

برِ صغیر میں اپنے نبی کی حرمت پر ہر مسلمان کٹ مرنے کو تیار رہتا ہے۔ایک گستاخ ِ رسول راج پال نے میرے رسول ؑ کی توہیں ایک گستاخانہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ شائع کر کے کی تو پورا ہندوستان بیدار ہوگیا۔ جب اس ملعون کوا نگریز کی ہائی کورٹ نے معاف کر دیا تو پورے ہندوستان میں ایجی ٹیشن شروع ہوگئےتوانگریز حکومت نے دفعہ 144،نا فذ کر کےالٹامسلمان رہنمائوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ تو21 سالہ نوجون غازی علم دین اپنے جذبات پر قابوں نہ رکھ سکا اوراس نے اشتعال میں
آکر29،اپریل،1929،کو شاتم رسول راج پال پر حملہ کے اسے وا صلِ جہنم کر دیا۔ جس پر انگریز عدالت نے، بلکہ انگلینڈ کی پریوی کونسل تک نے قائد اعظم کے مسودے کو رد کر کے 31،اکتوبر1929،کو بروز جمعرات غازی علم دین کو ناموسِ رسالت پر پھانسی دے کر شہید کر دیا۔ شہید کا جنازہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ شاعر مشرق علامہ اقبا ل نے شہید کو قبر میں اتا تو مولانا ظفر علی خان نے بڑی حسرت سے کہا تھا کہ ’’کاش یہ مقام مجھے نصیب ہوا ہوتا‘‘
 

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 189240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.