الله ہم سے سپردگی چاہتا ہے



انسان کے لئے مشکل اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنی اور الله کی چاہت کے درمیان کھڑا اپنی کامیابی کو غبار راہ میں لپٹا دیکھ کر منزل تک پہنچنے کی خواھش کرتا رہتا ہے، انسان خواب دیکھتا ہے ، سراب بناتا ہے غبار کو خوبصورت تتلی سمجھ کر اسکے پیچھے بھاگتا ہے جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، ،انہی سب سے دور جب وہ اپنی ایک ہی شے سپردگی کے بغیر الله سے مانگتا رہتا ہے تو نہ جانے کیوں وہ ایک ضد سی لگا کر بیٹھ جاتا ہے، انسان ٹوٹتا کب ہے جب الله کے فیصلے سے انحراف کرتا ہے ، جبکہ الله ہم سے ہمارا اپنا آپ چاہتا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ اپنی چاہت کو پس پشت ڈال کر خود کو اسکی سپرد کر دیا جائے ، اور انسان سے یہ کرنا مشکل ہوتا ہے ،جبکہ الله بڑے اطمینان اور آرام سے یہ بتا دیتا ہے کہ میں حاکم ہوں فیصلہ کرنے والا میں ہوں ، تم کون ہو...

انسان کے لئے مشکل اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنی اور الله کی چاہت کے درمیان کھڑا اپنی کامیابی کو غبار راہ میں لپٹا دیکھ کر منزل تک پہنچنے کی خواھش کرتا رہتا ہے، انسان خواب دیکھتا ہے ، سراب بناتا ہے غبار کو خوبصورت تتلی سمجھ کر اسکے پیچھے بھاگتا ہے جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، ،انہی سب سے دور جب وہ اپنی ایک ہی شے سپردگی کے بغیر الله سے مانگتا رہتا ہے تو نہ جانے کیوں وہ ایک ضد سی لگا کر بیٹھ جاتا ہے، انسان ٹوٹتا کب ہے جب الله کے فیصلے سے انحراف کرتا ہے ، جبکہ الله ہم سے ہمارا اپنا آپ چاہتا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ اپنی چاہت کو پس پشت ڈال کر خود کو اسکی سپرد کر دیا جائے ، اور انسان سے یہ کرنا مشکل ہوتا ہے ،جبکہ الله بڑے اطمینان اور آرام سے یہ بتا دیتا ہے کہ میں حاکم ہوں فیصلہ کرنے والا میں ہوں ، تم کون ہو...

ایسا صرف سپردگی نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ، انسان ایک راگ الاپتا ہے ، جبکہ ہر شے اسکے سامنے فنا ہو رہی ہے ، کالی دلدل میں رشتے ، انسان ، خواھشات ، انکی تکمیل آئے دن روز بہ روز سب بہتا جا رہا ہے ، انسان سوچنے ، سمجھنے مان لینے سے قاصر ہے ، آخر وہ ٹوٹتا کب ہے جب الله کے حکم سے منحرف ہوتا ہے ، الله جا بجا فرماتا ہے کہ "الله ظلم نہیں کرتا" " الله اپنے بندوں پر بے حد مہربان ہے' تو انسان کو کشمکش ، تنگی ، جبر ، اور بے چینی نے کیوں مضطرب رکھا ، کیونکہ وہ اپنی خواھش کے پیچھے چلا ، وہ آنے والے کل کا فیصلہ رب کا فیصلہ جان کر قبول نہیں کرتا، انسان اس کیفیت میں پہنچتا ہی نہیں کہ الله دے دے تو بھی ٹھیک نہ دے تو بھی ٹھیک ، کیوں ؟ کیونکہ اسکی خواھش اسے نفس پسندی اور خود پسندی کی جانب لے جاتی ہے ، اور جب ایسا نہیں ہوتا تو الزام الله کو دینے لگتا ہے کہ تکمیل نہ ہوئی. جبکہ الله بار بار فرماتا ہے " خواھش کے پیچھے نہ چلنا" " دنیا کی زندگی کچھ نہیں مگر ایک کھیل تماشہ" اور "شیطان کے راستے پر نہ چلنا". لیکن انسان چلتا ہے اسی راستے پر چل کر وہ اپنے پاؤں زخمی کرتا ہے ، آخر کار تھک کر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چلنے کے بھی قابل نہیں رہتا.

الله غفور و رحیم ہے ، بات یہ ہے کہ وہ انسان کو پھنسانا نہیں چاہتا ، دلدل میں نہیں ڈالنا چاہتا ، وہ آپکو بچانا چاہتا ہے ، وہ فرماتا ہے " تم آگ کے گھڑے کے دہانے پر تھے اور اس نے تمہیں بچا لیا" اس دنیا میں رہ کر انسان کیا آگ کے گھڑے کو دیکھ سکتا ہے؟ کیا وہ مستقبل کی خبر رکھ سکتا ہے ؟ کیا آنے والے کل کے بارے میں کوئی رائے دے سکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ وہ تو اندازہ بھی نہیں کر سکتا ، اسکے اختیار میں نہیں ، تو الله کتنا رحیم و کریم ہے کہ وہ اسی مستقبل سے، اسکے اندیشے ، اسکی آگ سے انسان کو بچا لیتا ہے جس سے انسان بے خبر ہے ، بلکل ایسے جیسے انسان اس آگ کے دہانے سے بے خبر ہے جسے الله دیکھتا ہے ، انسان نہیں دیکھ سکتا ، روشنی ، تاریکی ، آگ ، پانی ، ٹھنڈک سب اسی کی تخلیق ہیں، اور اگر آگ انسان کو چھو جائے تو وہ جینے کے قابل نہیں رہتا، الله اسی آگ سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے لیکن کیسے وہ اسی تخلیق کو اپنے بندے کیلئے راحت کا سامان بناتا ہے ، کتنا بڑا راز ہے کہ ایک طرف ایک شے سے وہ بچاتا ہے اور دوسری جانب اسی کو راحت کا سامان بناتا ہے. اسی طرح وہ ایک شے سے آپکو بچاتا ہے اور اسکے بدلے میں کسی دوسری شے یا اسی شے کو کسی اور طریقے سے آپکے لئے راحت کا سامان بناتا ہے لیکن انسان اپنی کم عقل کے باعث اسے جان نہیں پاتا ، بس وقت آنے پر سمجھتا ہے.

الله پاک ہے ، اور بچانے ولا صرف وہی ہے ، وہ ہمیں آزمائش دیتا ہے تو اسی میں سے نکال بھی لیتا ہے کیونکہ دینے والا بھی وہی ہے جسکے کرم سے انسان جینے کے قابل ہوا ، الله اپنے بندوں پر رحم کی نگاہ کیے رکھتا ہے ، وہ کبھی اپنے بندے پر ظلم نہیں کرتا، وہ جو تمام علوم کا مالک ہے اسکے فیصلے غلط نہیں ہوتے ، نہ ہو سکتے ہیں ، کیونکہ انسان اپنے فیصلے اپنی منشا ، اپنے تجربے کی بنیاد پر کرتا ہے ، لیکن الله ان سب سے پاک عظیم ہے ، وہ خالق کل عالم ہے. وہ اپنے بندے پر مہربانی اور شفقت کی نگاہ کرتا ہے ، اسی کی رحمت کے حصار میں انسان کو پناہ ملتی ہے.

خواھش کا پورا ہونے سے شیطان خوش ہوتا ہے وہ ایسے کہ انسان کا نفس خوش اور مطمئن ہو جاتا ہے ، اور شیطان انسان کا نفس ہی تو ہے ، لیکن اس میں دل کا اطمینان شامل نہیں ہوتا کیونکہ الله کی مرضی شامل حال نہیں ہوتی ، اصل سکون سپردگی سے ملتا ہے ، اپنا آپ الله کے حوالے کرنے سے ملتا ہے ، وہ جو رحیم ، کریم ، غفور ، عظیم ، کبیر ، اور ودود ہے ، انسان پر رحم کرتا ہے "ودود" کی صفت پر غور کرو ، بے حد محبت کرنے والا....اس محبت والے سے انحراف نہ کرنا. کیونکہ جب تمام دنیاوی سہارے چھوٹ جائیں تب بھی وہ ساتھ نہیں چھوڑتا، اور وہ غبار راہ بڑی آسانی سے ہٹا کر دکھاتا ہے کہ " میں ہوں" نگاہ پاک ہو جاتی ہے جب انسان کا اصل اس حاصل تک پہنچ جائے جہاں الله ان سب راستوں سے آگے موجود ہے. اور ہر دن ایک گزرے ہوئے دن سے آگے ایک نئی راہ ہے ، ایک نیا راستہ ہے ، ایک نئی منزل ہے. جسکا ادراک انسان کو منزل پر پہنچ کر ہو گا. اور الله کی حکمت سے وہی واقف ہوتے ہیں جو عقل والے ہیں.
 

Quratulain Ashraf
About the Author: Quratulain Ashraf Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.