سماجی مساوات یعنی افراد معاشرہ میں بحیثیت انسانی مساوات
ہو، ہر ایک کو اس کے جائز حقوق حاصل ہوں ، کسی بھی معاشرہ میں سماجی مساوات
کا جائزہ لینے کے تین بنیادی پیمانے ہیں ۔ اگر کسی معاشرہ میں ان تینوں
امور کا وجود نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معاشرہ عدم سماجی مساو ات
کا شکار ہے۔
1۔ کیا وہاں کے معاشرہ میں تمام افراد بحیثیت انسان برا بر ہیں ؟ کیا کسی
کو کسی طبقے ، خاندان ، قوم یاعلاقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر کوئی فضیلت یا
برتری تو حاصل نہیں ؟۔۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا وجود دور
دور تک دیکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے معاشرہ میں بعض قومیں بعض قوموں سے برتر،
بعض نسلیں بعض نسلیں سے برتر،کوئی کمی ہے تو کوئی وڈیرا، سردار، سیٹھ،
رائے، ملک، مہر ہے تو کوئی چوہدری۔ قوموں میں مصلی ، موچی، اوڈ وغیرہ کو
انتہائی پست اقوام اور حقارت و تحقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اپنے آپ
کو اعلیٰ اقوام سمجھنے والی قومیں ان کے ساتھ مل بیٹھنا اور ان کے ساتھ مل
کر کھانے پینے تک کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔
2۔ کیاوہاں کے معاشرہ میں قانونی مساوات موجود ہے؟ کیا قانون کی نظرمیں سب
انسان برابر ہیں؟ کیا قانون کو سب پر بالادستی حاصل ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ بدقسمتی سے
ہمارا معاشرہ مساوات کے اس دوسرے پیمانے سے بھی کلی طور پر فارغ ہے۔ہمارے
معاشرے میں امیر کےلئے قانون اور ہے اور غریب کےلئے اور۔ امیر کےلئے قانون
نرم و نازک ہے تو غریب کے لئے سخت سے سخت تر۔ہمارے ملک میں قانو ن بعض
قوموں ،وڈیروں ، سرداروں کا دست نگر ہے اور قانون کے محافظ ، پولیس اہلکار
ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور غریب کےلئے موت کے فرشتے کی طرح سخت اور نہ
ٹالنے والے ہیں۔
3۔ کیا وہاں کے معاشر ہ میں معاشی اوراقتصادی مساوات موجود ہے؟ کیا معاشرہ
کے تمام افراد کو برابر روزگار کے مواقع و ذرائع میسر ہیں؟ کیا ہر ایک کی
بنیادی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں؟ کیا ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام
اورکام کا معقول معاوضہ مل رہا ہے؟
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں مساوات کے اس تیسرے پیمانے کا وجود تو درکنار
نام اور تصور تک نہیںپایا جاتا کہ معاشرہ کے تمام افراد کو معاشیات و
اقتصادیات کے یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ ہمارے ملک میں ذریعہ معاش کے
بڑے وسائل پر بڑی قوموں اور بڑے لوگوں کا حق اور قبضہ ہے اور چھوٹی و حقیر
قومیں ان کی غلامی کر کے ہی اس وسائل سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ایسا مثالی معاشرہ جس میںمکمل سماجی مساوات موجود ہو ، آج دنیا میں کہیں
بھی نظر نہیں آتا خواہ وہ کوئی اسلامی ریاست ہو ، اہل مغرب ہو یا اہل مشرق۔
کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے ہاں مکمل سماجی مساوات موجود ہے۔
صرف مسلمانوں کا ابتدائی دور ایسے مثالی معاشرے کا نمونہ پیش کرتاہے، ہم
دیکھتے ہیں کہ وہاں انسانی مساوات، قانونی مساوات اور معاشی مساوات اپنے
بالکل صحیح مفہوم میںپوری طرح موجود تھی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور
میں پورے اسلامی معاشرہ میں کوئی زکوٰة کا مستحق نہیں ملتا تھا ،جبکہ زکوٰة
، عشر، صدقہ و خیرات دینے والوں کے انبار لگے تھے اور زکوٰة فنڈ کے تصرف کا
کوئی ذریعہ نہیں ملتا تھا۔جبکہ آج تو غریب تو کجا زمیندار گھرانے بھی زکوٰة
لیتے ہوئے نہیں شرماتے۔ انکم سپورٹ پروگراموں میں غریب سے زیادہ زمیندار
طبقہ لمبی لائنوں میں کھڑا ہے۔ اس وقت پورے اسلامی خطہ میں کوئی شخص بے
روزگار نہیں تھا، سب کو روزگار کے مواقع برابری کی بنیاد پر میسر تھے۔اس
وقت اسلامی ریاست زکوٰة و عشرکے فنڈ، صدقہ و خیرات کے انبار دنیا بھر کی
غریب ریاستوں کومعاشی خوشحالی کےلئے قرض دیتی تھی اور ساتھ یہ تحریر نامہ
بھی ہوتا تھا کہ ” اگر آسانی سے واپس کر سکو تو ٹھیک ورنہ واپسی کی فکر نہ
کرنا۔“
ذیل میںجو کسی معاشرہ کی سماجی مساوات کو جانچنے کے جو تین پیمانے ذکر کیے
گئے ان کو ابتدائی اسلامی دورمیں دیکھتے ہیں اور اس ابتدائی دور کی ان
نمایاں خصوصیات کا مختصر جائزہ لیاجاتا ہے تاکہ آج کے مسلمانوں کےلئے عبرت
کا ساماں ہو۔
1۔ انسانی مساوات:
انسانی مساوات یہ ہے کہ معاشرہ کے تمام افراد بحیثیت انسان برابر ہوں ۔ کسی
کوکسی پر کسی قسم کی کوئی برتری یا فضیلت حاصل نہ ہو،سب انسانوں کو ایک ہی
نظر سے دیکھا جاتا ہو خواہ امیر ہوں یا غریب ، شاہ ہوں یا گدا، بادشاہ ہوں
یا فقیر، عالم ہوں یا جاہل۔ الغرض کسی انسان کو بھی دوسرے پر کوئی برتری
حاصل نہ ہو۔ انسانی مساوات کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذِکَرٍ وَّ اُنْثٰی
وَجَعَلْنٰٰکُمْ شُعُوْبًا وَ قَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ
اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
o
”اے لوگو! بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں
مختلف شاخوں ( خاندانوں) اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم آپس میں ایک
دوسرے کی پہچان رکھو، اللہ کی نظر میں تم سے عزت والا وہ ہے جو متقی و
پرہیزگار ہے ۔بیشک اللہ تم سب کو جاننے والا خبردار ہے۔“
حضور نبی کریم ﷺ نے حجة الوداع کے موقع پر جو انسانیت کا عالمی منشور پیش
کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔” اے لوگو! میری بات سن لو !
کیونکہ میں نہیں جانتا ، شاید اس سال کے بعد اس مقام پر میں تم سے کبھی نہ
مل سکوں۔تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح
تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی، اور اس شہر کی حرمت ہے۔سن لو ! جاہلیت
کی ہر چیز میرے پاوں تلے روند دی گئی، جاہلیت کے خون بھی ختم کردئے گئے ،
اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں ، وہ ربیعہ بن حارث
بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے …. یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ
ان ہی ایام میں قبیلہ ہذیل نے اسے قتل کردیا …. اور جاہلیت کا سود ختم
کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس
بن عبد المطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارے کا سارا سود ختم ہے۔ ہاں عورتوں کے
بارے میں اللہ سے ڈرو ، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے ،
اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ
تمہارے بستر پر کسی اور شخص کو آنے نہ دیں جو تمہیں گوارا نہیں ، اگر وہ
ایسا کریں تو تم انہیں مارسکتے ہو ، لیکن سخت مار نہ مارنا ، اور تم پر ان
کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاو۔اور میں تم میں ایسی چیز
چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز
گمراہ نہ ہوگے ، اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔ اے لوگو! سن لو، بیشک تمہارا رب
ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے تم سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہو
اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی سے بنے تھے تم میں اللہ کے نزدےک سب سے زیادہ
عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے کسی عربی کو
عجمی پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں نہ کوئی کسی عجمی کو عربی پر ہے ، نہ
کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل ہے مگر
سوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے۔“ ( مسلم شریف)
ایک اور حدےث مبارکہ ہے کہ۔” مساوات پیدا کرو اور امتیاز نہ آنے دو تا کہ
دلوں میں اختلاف پیدا نہ ہو۔“ (مشکوة شریف)
انسانی مساوات پر اس سے زیادہ واضح بیان انسانی تاریخ میں اور کہیں نہیں
ملتا۔ ہم نسل انسانی کی مساوات پر صرف آپ ﷺ کے ارشادات ہی نہیں پاتے بلکہ
آپﷺ کی عملی زندگی میں اس کی ہزاروں مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ فتح مکہ
کے موقع پر آپﷺ نے جو خطبہ دیا اس میں بھی آپ ﷺ نے یہ بات زور دے کر کہی کہ
اللہ تعالیٰ نے تمہارے زمانہ جاہلیت کے غرور وتکبر اورخاندانی افتخار کو
خاک میں ملا دیا ہے، تم میں سے کسی کو کسی پر کسی قسم کی کوئی برتری حاصل
نہیں، تم سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اورحضرت آدم علیہ السلام مٹی
سے بنے تھے۔ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ حبش سے بلال ، روم سے صہیب اور فارس
سے سلمان صحابہ کرام میں نمایاںمقام رکھتے تھے اورکسی شخص کو اس لیے افضل
نہیں سمجھا جاتا تھا کہ وہ فلاں قبیلے ، خاندان یا علاقے کا ہے۔
غزوہ بدر میں سواریاں کم تھیں۔ تین افراد کے حصے میں ایک سواری آئی لہٰذا
صحابی باری باری اترتے۔ آپ صلی اللہ علیہ سلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔
صحابہ کرام حاضر ہوتے اور خواہش ظاہر کرتے کہ ہم آپ کے بدلے پیدل چل لیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ”نہ تم مجھ سے زیادہ پیادہ پاہو، نہ میں
تم سے کم ثواب کا خواہاں ہوں۔
غزوہ بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی قیدی بن کر آئے۔
چونکہ وہ آپ سے قرابت داری رکھتے تھے اس لئے صحابہ نے اس خواہش کا اظہار
کیا کہ ان کے فدیے کی رقم معاف کردی جائے۔ لیکن آپ نے اس بات کو پسند نہ
فرمایا اور حکم دیا کہ ایک درہم بھی معاف نہیں کیا جا ئے گا۔
جبلہ غسانی شام کا ایک مشہور رئیس تھا ، مسلمان ہو گیا ۔ طواف کعبہ کے
دوران اس کی چادر کا ایک کونہ ایک آدمی کے پاﺅں کے نیچے آ گیا ۔ جبلہ غسانی
نے اس سبب اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر کا جواب دیا ۔
جبلہ غسانی بے تاب ہو گیا او ر اس نیت سے امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضرہوا کہ وہ اس کی امارت ( شان اورمرتبے) کی
وجہ سے اس کا ساتھ دیں گے مگر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس
کی شکایت سن کر فرمایا۔”تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پالی۔“جبلہ غسانی کو
سخت تکلیف ہوئی اور کہنے لگا۔” ہم اس مرتبے کے لوگ ہیں کہ اگر کوئی ہماری
گستاخی کرے تو وہ قتل کا مستحق ہوتا ہے۔“
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔”دور جاہلیت میں ایسا ہی تھا
لیکن دین اسلام نے پست و بالا سب کو برابر کر دیا ہے۔“ (الفاروق)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں حج کے موقع پر ایک
گورنر کی شکایت ہوئی کہ اس نے ایک شخص کو بلا وجہ ماراہے تو اس کے بعد
گورنر صاحب کو حکم دیاگیا کہ تم بھی اسی طرح مار کھانے کےلئے تیار
ہوجاﺅ۔“پھر مدعی کو رحم آیا اوراسے معاف کردیا تو سزا معاف ہوئی۔ (مساوات
ہے)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقت کے حاکم ہونے کے باوجود اپنی باری
پر رات کو پہرہ دیا کرتے تھے جبکہ ہمارے ہاں گاﺅں کا چوہدری، نمبر دار اس
سے بری ہے۔
امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر مقدمہ ہوا
تو آپ مدعی علیہ کی حیثیت سے قاضی کی عدالت میں حاضر ہوئے۔ (مساوات ہے)
فاتح مصر عمرو بن العاص کے بیٹے عبداللہ کو (جس نے کسی شخص کو بلاوجہ مارا
تھا) آپ نے اس کے باپ کے سامنے کوڑے لگوائے مگر کسی کو حوصلہ نہ پڑا کہ
کوئی سفارش کرسکے کہ گورنر کا بیٹا ہے۔ فاتح شام حضرت خالد بن ولید رضی
اللہ عنہ کو معزول کیا۔ فاتح ایران سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے جواب
طلبی کی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کے بعد آپ نے شام کے ایک سفر
میں ایک مجمع میں اپنی بریت بیان کی تو ایک شخص نے آپ کے سامنے یہ کہہ دیا۔
”اے عمر! خدا کی قسم تونے انصاف نہیں کیا‘ رسول اللہ ﷺ کے عامل کو معزول
کیا اور رسول اللہ ﷺکی تلوار کو نیام میں ڈال دیا‘ تونے قطع رحم کیا اور
اپنے برادر عم زاد پر حسد کھایا“ آپ نے جواب میں صرف اتنا کہا”تمہیں اپنے
بھائی کی حمایت میں غصہ آگیا“
الغرض اسلام کا ابتدائی دور ایسے عظیم انسانی مساوات کے جوہرات سے بھر ا
پڑا ہے۔اگر ہمیں دنیا میں عزت و وقار ، عظمت و سربلندی حاصل کرنی ہے تو
ہمیں بھی ایسے ہی جوہرات دکھانے ہوں گے اس کے بغیر عزت ووقار نہ ممکن ہے۔
2۔ قانونی مساوات:
اسلام قانون کی بالادستی اور قانون کے سامنے افراد معاشرہ کی برابری و
مساوات کا قائل ہے ۔ قانون میں جو رعائت یا سزا کسی ایک کےلئے مقرر ہے وہ
سب کےلئے یکساں ہے خواہ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہویا فقیر،گورنر ہو یا
کوئی وزیر، مسلمان یا غیر مسلم۔قانون کے کٹہرے میں سب برابر ہیں کسی کو
کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں۔
حضور اقدس ﷺ کے زمانہ میں قبیلہ مخزوم کی ایک قریشی عورت نے چوری کے الزام
میں پکڑی گئی ۔ اس کا قبیلہ چاہتا تھا کہ اسے قانون کے مطابق ( ہاتھ کاٹنے
) کی سزا نہ ملے۔انہوںنے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ کی
خدمت میں سفارشی کے طور پر بھےجا کہ سزا میں کچھ نرمی برتی جائے۔ تو آپ ﷺ
کاچہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور فرمایا۔”پہلی قومیں اسی لیے تباہ و برباد
ہوئیں کہ جب غریب آدمی کوئی جرم کرتا تو اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی
اور جب کوئی امیر یا با اثر آدمی کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کی خاطر
قانون میں تاویلیں کرکے اسے بچا لیا جاتا۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا۔” اللہ کی قسم
! اگر میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چوری کرتیں تو میں اس کا بھی
ہاتھ کاٹ دیتا۔“ آپ ﷺ نے اس عورت کو قانون کے بالکل عین مطابق سزا دلوائی۔
آج ہمارے اس خزاں رسیدہ معاشرہ کا بھی یہی حال ہے کہ غریب کی خاطر قانون کو
اور بھی سخت کر دیا جاتا ہے مگر ایک امیر ، با اثر آدمی کےلئے قانون میں
نرمی ہی نرمی اختیار کی جاتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی نظر میں
سب انسان برابر ہیں، قانون الٰہی کو سب پر بالادستی حاصل ہے ۔حضور سید عالم
ﷺ نے اپنے آپ کو کبھی بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا۔ امیر المومنین حضرت
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور
نبی کریم ﷺ کو کئی بار قصاص کےلئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے دیکھا ہے۔غزوہ
بدر کا واقعہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سے ایک صحابی کو ہلکی سی چھڑی لگ گئی،
صحابی نے قصاص کا مطالبہ کر دیا تو آپﷺ نے اپنے آپ کو قصاص کےلئے پیش فرما
دیااور فرمایا ۔” جس طرح چھڑی تمہیں مجھ سے لگی اسی طرح مجھے مارکر اپنا
بدلہ لے لو ۔
جب آپ ﷺکا اس دنیا فانی سے رخصت کا وقت قریب آیا تو صحابہ کو پکار پکار کر
فرمایا۔ ”جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ لےنا ہو لے لے، میںحاضر ہوں ۔“یہی وجہ
تھی کہ جب سرور کائنات ﷺ نے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر نہ سمجھا تو
مسلمانوں کا ہر حاکم ، خلیفہ ، امیر اپنے آپ کوقانون کے سامنے اس طرح
جوابدہ سمجھتا تھا جیسے ایک عام شہری۔خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں
عدل وانصاف کی اعلیٰ روایات قائم کیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اور حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا عدل و مساوات تو قیامت تک کے تمام
انسانوں کےلئے ایک عظیم نمونہ بن گیا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے اپنے حقیقی بیٹے کو قانون کے مطابق سزا دے کر عدل ومساوات کا بول بالا
کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک میں کوئی بڑے سے بڑا انسان ،
گورنر اور بااثر آدمی بھی قانون کی زد سے نہیں بچ سکتا تھا۔
ایک دفعہ امیر المومنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور
حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان کچھ جھگڑا ہوا تو حضرت کعب رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر
کروا دیا۔ قاضی نے دونوں کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا، دونوں فریق
مدعی اورمدعی علیہ کی حیثیت سے عدالت میں حاضرہوئے تو قاضی نے خلیفہ وقت
ہونے کی حیثیت سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عزت وتکریم کی تو
آپ اس سے سخت ناراض ہو گئے اور فرمایا ۔”تم نے عدالتی قوانین کی خلاف ورزی
کی ہے کیونکہ عدالتی قوانین کی نظر میں دونوں فریق برابر ہیں لہٰذا کسی کے
ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہےے۔“یہ فرما کر آپ مدعی حضرت کعب رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا بیٹھے ۔ مقدمہ کی کاروائی شروع ہوئی تو پھر قاضی
نے امیر المومنین کی حمایت کرتے ہوئے مدعی سے کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں
یوں گستاخی نہ کرو،تو اس پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت غصہ آیا اور
فرمایا۔” تم نے میری حمایت کرکے دوسری بڑی غلطی کی لہٰذا اب تم اس منصب کے
قابل نہیں رہے ۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کوفوراً معطل کر دیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کے مسئلہ مساوات کو نہایت
شاندار طریقے سے نمایاں کیا۔ مصر کے گورنر عیاض بن غنم کی شکایت آئی کہ
انہوں نے خلیفہ وقت کے حکم کی نافرمانی کی ۔ اس کو عدالت میں بلایا گیاان
کے آنے سے پہلے موٹا جبہ اور چند بکریاں منگوالیں گئیں جونہی گورنر صاحب
آئے تو فرمایا۔”یہ جبہ پہنو ، ڈنڈا پکڑو اور یہ بکریاں چراﺅ ، تمہار ا باپ
غنم بھی یہی کام کرتا تھا ۔“ (مساوات ہے)
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کا پرنالہ مسجد نبوی ﷺ کے صحن میں
بہتا تھا ۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اتروا
کر دوسری طرف لگوا دیا۔حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات پسند نہ
آئی تو انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائرکروا
دیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انتہائی تحمل اور بردباری سے کسی لاﺅ لشکر کے
بغیر تن تنہا مدعی کے ہمرکاب قاضی کے گھر کے باہر گھنٹو ں انتظار کیا تا کہ
قاضی اپنے کام سے فارغ ہو تو پھر مقد مے کی کاروائی کا آغاز کیاجاسکے۔ جب
قاضی اپنے کام سے فارغ ہوئے تو مقدمے کی کاروائی شروع ہوئی۔ آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے اپنی صفائی بیان کرنا چاہی مگر قاضی نے آپ کو بولنے سے روک
دیا اور کہا کہ پہلا حق مدعی کا ہے ۔ مدعی نے بتایا کہ امیر المومنین نے اس
کے مکان کا مسجد نبویﷺکی جانب کا پرنالہ اتروا دیا ہے حالانکہ وہ پرنالہ
ایسا تھا جو میں نے حضور نبی کریمﷺ کے حکم اور اصرارکی تعمیل میں لگایا
تھا۔“
اس کے بعد قاضی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا بیان ریکارڈ
کروانے کی اجازت دی تو آپ نے فرمایا ۔”میں نے وہ پرنالہ اس لئے وہاں سے
ہٹایا کیونکہ اس کی چھنٹیں نمازیوں پر پڑتی تھیںتا ہم مجھے اس بات کا علم
نہیں تھا کہ وہ پرنالہ رسول اللہ ﷺ کے حکم سے لگایا گیا تھا۔اب اس کا مداوا
میں خود تجویز کرتا ہوں کہ مدعی میرے کندھوں پر سوار ہو کر وہ پرنالہ اسی
جگہ لگائے جہاں سے اتارا گیا تھا۔
پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کفر کے ایوانو ں میں تہلکہ مچا دینے والے
عظیم مسلم سپہ سالار حضرت سیدناعمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر
جھکائے کھڑے تھے جبکہ مدعی ان کے کندھوں پر سوار پرنالہ لگا رہاتھا۔ (جوزی)
ایک دفعہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار پڑ گئے ،
علاج میں شہد تجویز ہوا ۔بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن آپ بلا اجازت لے
نہیں سکتے تھے۔ آپ مسجد نبوی ﷺ میں گئے اور لوگوں سے کہا ؛” اگر اجازت ہو
تو میں بیت المال سے تھوڑاسا شہد لے لوں۔“ مساوات ہے کہ جو قانون بیت المال
سے کوئی چیز لینے کا عام لوگوں کے لئے ہے وہی حاکم وقت کےلئے ہے۔
امام المشارق والمغارب امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کی زرہ چوری ہو گئی جو ایک یہودی سے برآمد ہوئی۔ آپ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے یہودی سے فرمایا ۔” یہ زرہ میری ہے۔“یہودی نے کہا اگر آپ کی
ہے تو دعویٰ کیجئے اور گواہ پیش کیجئے ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
قاضی حضرت شر یح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عدالت میں مقدمہ دائرکر دیااور
دونوں مدعی اور مدعی علیہ کی حیثیت سے قاضی کی عدالت میں حاضرہوئے ، قاضی
نے بغیر کسی رعائت کے دونوںکے بیان سنے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے گواہ
طلب کیے،آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے
غلام قنبر کو گواہی کےلئے پیش کیا ، تو قاضی نے کہا ۔” بیٹے کی باپ کےلئے
اور غلام کی آقا کےلئے گواہی قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔“اور یوںقاضی نے اپنے
اجتہاد پر عمل کرتے ہوئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا دعویٰ خارج کر دیا ۔
کمرہ عدالت سے باہر نکلنے پر یہودی نے حاکم وقت امیر المومنین حضرت سید نا
علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے کو بغور دیکھا تواسے کوئی رنج
وملال نظر نہ آیا ۔ یہودی نے سوچا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
خلیفہ وقت اور سچا ہونے کے باوجود اپنادعویٰ خارج ہونے پر کسی برہمی کا
اظہار نہیں کیا ، آخر کس چیز نے انہیں اس بات سے روکا۔اس سوال کا جواب
یہودی کے دل میں یہی آیا کہ اسلام ہی وہ سچا دین ہے جس نے انہیں اس درجہ تک
پہنچایا ہے۔ چنانچہ یہودی فوراً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں میں گر
گیا اور عرض کی ”حضور! میں نے آپ کی زرہ لی اور آپ نے میرا دل لے لیا۔“یوں
وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔ آج کوئی ایسا حکمران ہے جو اسلام کے ابتدائی دور
کی یادیں تازہ کرے۔
3۔ معاشی مساوات :
اسلام معاشی مساوات کا علمبردار ہے ۔ معاشی مساوات سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ
کے تمام افراد کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں ، ہر ایک کو یکساں معاش کے وسائل
اور روزی کمانے کے مواقع میسر ہوں، کوئی شخص روزمرہ زندگی کی بنیادی
ضرورتوں سے محروم نہ ہو ، اور ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام اور کام
کا معقول معاوضہ مل رہا ہو۔
اس سلسلہ میں اسلام کی تعلیمات بڑی واضح ہیں ، اسلام نے اپنے معاشی نظام کو
اعتقادات ، عبادات ، معاملات اور اخلاقیات سے جدا کر کے پیش نہیں کیا بلکہ
ہر اس عمل کو جس میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بنی نوع انسان کی بہتری ہو
، عبادات قرار دیا ۔ اسلام کی نظر میں جائز ذرائع سے روزی کمانا اور اس کے
ذریعے اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا ایک بہت بڑ ی نیکی ہے۔ اسلام جہاں
جائز کام اور محنت کے ذریعے روزی کمانا ضروری قرار دیتا ہے وہاں کسی بے
روزگار اور معذور کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا حکومت اور معاشرہ کی ذمہ
داری قرار دیتا ہے ۔ اسلام اگرچہ انفرادی ملکیت کا قائل ہے مگر ایسی دولت
جو ناجائز ذرائع سے حاصل ہو ، کو حرام قرار دیتا ہے اسی طرح اگرجائز ذرائع
سے کمائی ہوئی دولت ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے تو اس پر زکوة ، صدقات ،
عطیات وغیرہ فرض کر دیتا ہے ، ان کے علاوہ بھی حکومت کو یہ حق دیتا ہے کہ
وہ بوقت ضرورت مزید ٹیکس وغیرہ لگا کر معاشرہ کے تمام افراد کی بنیادی
ضرورتیں پوری کرے ۔
اسلام کا معاشی نظام درج ذیل حقائق پر مبنی ہے۔
1۔ کائنات کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے ، ہر شئے کا حقیقی حاکم
اورمالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ، کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی امانت
ہے اوراللہ تعالیٰ کے احکامات وہدایات کے مطابق ہی اس کے تصرف کا حق ہے۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی ہر چیز کو انسان کی خاطر مسخر کر رکھا
ہے تا کہ وہ ان کو جائز استعمال میں لا کر اپنی روزی حاصل کرے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے رزق کی تنگی اورفراخی مصلحت کے تحت اپنے ہاتھ میں رکھی
ہے تاکہ وہ انسان کی آزمائش کرے کہ وہ اس کا شکر بجا لاتا ہے یا نہیں ، اس
کے احکامات وہدایات پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔
4۔ جنہیں رزق میںفراخی عطا کی گئی ان کا فرض کیا کہ وہ مفلس و نادار افراد
کی مدد کریں اورانہیں زندگی کی دوڑ میںبرابر کا شریک رکھیں۔جو خود کھائیں
انہیں بھی کھلائیں، جو خود پہنے انہیں بھی پہنائیں۔
5۔ اسلام جائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت پر حق ملکیت تسلیم کرتا ہے لیکن
اگر وہ ایک حد سے تجاوز کر جائے تو اس پر زکوة ، عشر وغیرہ عائد کرتا ہے اس
کے علاوہ صدقات ، خیرات، عطیات وغیرہ دینے کی بھی حمایت کرتا ہے۔
6۔ ضرورت پیش آنے پر حکومت کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ وہ مالدار لوگوںسے
مزید ٹیکس وغیرہ وصول کرکے تمام افراد معاشرہ کی بنیادی ضرورتیں پوری کرے
اور انہیں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرے۔
7۔ وہ اشیاءجن سے مفاد عامہ وابستہ ہے کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں بلکہ
حکومت کی ملکیت میں ہیں اورحکومت کو اللہ تعالیٰ کے احکامات و ہدایات کے
عین مطابق ، بنی نوع انسان کی بہتری کےلئے تصرف کا حق حاصل ہے ۔ اسلام
سمندر ، دریا، پہاڑ، جنگلات ، معدنیات، قدرتی وسائل پر براہ راست حکومت کی
ملکیت تسلیم کرتا ہے کہ حکومت انہیں استعمال میں لا کر ان کے فوائد تمام
لوگوں کو یکساں پہنچائے۔
8۔ ہر شخص کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنا اور ہر ایک کو اس کی صلاحیت کے
مطابق کام ، ذریعہ معاش مہیا کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اگر کوئی شخص ضروریات
زندگی سے محروم ہو کر وقت گزار رہا ہے تو اس کے بارے میں اہل محلہ اور
حکومت کے ارکان خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔جبکہ ہمارے حکمران اور معاشرہ کے
لوگ اس سے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔
10۔ اسلام دولت جمع کرنے کے مقابلہ میں اچھے کاموں میں خرچ کرنے کو پسند
کرتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کی جگہ دولت کی تقسیم پر زو ر دیتا ہے۔انفاق فی
سبےل اللہ اسلام کامستقل باب ہے ، مال پر زکوة و عشر کی ادائےگی فرض عین ہے
اور اس کے علاوہ ضرورت سے زیادہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دینے کا
واضح حکم موجود ہے اور ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَیَسْلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ ط (البقرۃ 219;58;2)
”اور لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ( اللہ کی راہ میں ) کیا خرچ کریں ؟تم
فرماﺅ۔ ”جو کچھ ضرورت سے زیادہ ہو “
اگر لوگ اللہ رب العزت کے اس فرمان پر پوری طرح عمل کریں تو دنیا میں کوئی
شخص روزمرہ زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم نہ رہے ۔ الغرض اسلام کا
معاشی نظام ایسے بنیادی فطری اصولوں پر قائم ہے جن کی موجود گی میں کوئی
شخص بھی معاشی نا انصافی ( بد حالی) کا شکار نہیں ہو سکتا۔ یوں اسلام ہر
قسم کے سماجی عدل و انصاف ، برابری و مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔
|