اپنے بچے بچائیں

بچپن سے جوانی تک ہم ایک ساتھ پلے بڑھے ، ہم صرف اچھے دوست ہی نہیں بلکہ پڑوسی بھی تھے، ابتدائی اسکول اور پھر حفظ کے لئے بھی قاری طاہر صاحب ( اللہ انہیں جنت میں اعلی مقام دے)کے پاس اکٹھے ہی پڑھتے رہے ، وہ ایک بہترین اور دھیمے مزاج کا لڑکا تھا ۔ بچپن اور جوانی کی بہت ساری شاندار شرارتیں اور یادیں ہیں جو اس کے تذکرے پہ اب یاد آئے چلی جارہی ہیں ، پھر وہ بہتر روزگار کے لیے یونان چلا گیا کچھ عرصہ گھر والوں کو پیسے بھیجتا رہا پھر پتہ نہیں اچانک کہاں غائب ہوگیا ، کوئی نہیں جانتا اس کے ساتھ کیا ہوا یا وہ آج کس حالت میں ہے ۔

آج اس کے والدین سخت تکلیف میں ہیں بظاہر سب کچھ نارمل لگتا ہے لیکن اندر سے جو ٹوٹ پھوٹ ان کے اندر ہورہی ہے اس کا اندازہ ہر کوئی نہیں کرسکتا ، میرے دوست تنویر جیسی ایسی کئی مثالیں ہیں جو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں، اچھے بھلے کھاتے پیتے گھروں کے نوجوان بچے لالچ کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں آئے روز کسی مغربی بارڈر یا کھلے سمندر میں ہمارے نوجوانوں کی ادھڑی لاشیں ایک سہانے خواب کا ڈراونا انجام بن کر نظر آتی ہیں لیکن ہمارے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی ۔

انسانی اسمگلر پنجاب کے ہر دوسرے گاوں سے بچے ورغلاتے اور پھر انہیں موت کے سفر پہ روانہ کرتے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ والدین بھی بڑی خوشی سے اپنے لخت جگر کو اس انتہائی خطرناک سفر پہ جانے کی اجازت دے دیتےہیں ، خدارا اپنے بچوں پہ اور خود اپنے بڑھاپے پہ رحم کھائیں اور کسی بھی غیر قانونی طریقے سے اپنے بچوں کو یورپ مت بھجوائیں۔

کچھ سالوں سے پاکستان میں بچوں کے اغوا اور بعد ازاں قتل کی بہیمانہ وارداتیں بہت بڑھ گئی ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے ایسے غائب کردئیے جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ، چند سال پہلے تک بچے صرف اغواء برائے تاوان کے لئے اٹھائے جاتے تھےمگر آج کل معصوم پھولوں کے ساتھ اغوا کے بعد ایسے ایسے شرمناک اور افسوسناک واقعات سامنے آرہے ہیں کہ روح لرز اٹھتی ہے کہ یاخدا ایسے درندے بھی ہماری دھرتی پہ موجود ہیں جنہیں انسانیت چھوکر نہیں گزری ۔

والدین کو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہئے خصوصا" اسکول آتے اور جاتے ہوئے بچوں کی فول پروف حفاظت کا انتظام کریں اور اپنے اردگرد محلے میں مشکوک افراد کو اپنی کڑی نگاہوں میں رکھیں ،اساتذہ کو بھی چاہئے کہ وہ بچوں کو اجنبی اور مشکوک افراد سے دور رہنے کی ہدایات دیں ۔ بچوں پہ جنسی تشدد کے واقعات اس قدر بڑھ رہے ہیں کہ حکومت کے ساتھ اب عام آدمی کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ معصوم پھول اور کلیاں کچلنے اور مسلنے سے بچے رہیں ۔ بچوں کے ساتھ ذیادتی اور انہیں قتل کرنے والے افراد کو سرعام اسلامی طریقے سے رجم کرنا چاہئے تاکہ ان کا بدترین انجام کسی اور درندے کو اپنے بل میں بیٹھے رہنے پہ مجبور کرے ، بصورت دیگر ہم روز ایسے معصوم پھول جنسی درندوں کے ہاتھوں مسلے کچلے دیکھیں گے آنسو بہائیں گے اور پھر کسی اور نئے واقعے کے لئے خود کو ذہنی طور پہ تیار کرتے نظر آئیں گے ۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.