گزشتہ مہینہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے دنیا
بھر میں اہمیت کا حامل رہا۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے پانچ سو شہروں میں
"Climate Action Now" کے تحت ریلیاں نکالی گئیں اور گلوبل وارمنگ کو روکنے
سے متعلق اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔ اس مہم کو آگے بڑھانے میں 16سالہ
گریٹا تھربنرگ کی اقوام متحدہ کے کلائمیٹ سمٹ کے دوران کی گئی پرجوش تقریر
نے اہم کردار ادا کیا۔نو عمر ماحولیاتی رضاکار نے ماحولیاتی تباہی کے ذمہ
داروں کو مخاطب کرتے ہوئے "How dare you" کا نعرہ لگایا جو آج ماحولیاتی
سماجی کارکنوں کے لیے مشعل راہ بن چکا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے
خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے بھی سب سے پہلے ماحولیاتی تبدیلی پر
بات کی کیوں کہ وہ اس مسئلہ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔انہوں نے دنیا کو
بتایا کہ اگرچہ ماحولیاتی تبدیلی کے ذمہ داروں میں پاکستان کا زیادہ حصہ
نہیں ہے لیکن ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست
ہے۔انہوں نے دنیا کو بلین ٹری پراجیکٹ کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ان کی
حکومت اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہے اور آئندہ پانچ سال میں د س ارب
درخت لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔جہاں برازیلین صدر نے ایمزون کے جنگلات کی
حفاظت کا عندیہ دیا وہیں دیگر ممالک کے سربراہان نے بھی ماحولیاتی تبدیلی
سے نمٹنے کے لیے درخت لگانے کا عہد کیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے درخت
لگانا ہی کافی ہے یا محض شجرکاری پر زور دے کر ماحولیاتی مسائل کی دیگر
وجوہات سے توجہ ہٹائی جارہی ہے؟دو ماہ قبل سوئٹرز لینڈ کے سائنسدانوں نے
تحقیقاتی مقالہ لکھا جس کے مطابق اس وقت زمین پرکل 900ملین ہیکٹرز جگہ
موجود ہے جس پر درخت لگائے جاسکتے ہیں۔اس رقبہ کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ یہ تقریباً براعظم امریکہ کے کل رقبہ کے برابر ہے۔ سائنسدانوں
کے مطابق اگر اس تمام رقبہ پر جنگلات لگا دیے جائیں پھر بھی فضاء میں پہلے
سے موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کا محض دو تہائی حصہ جذب ہوپائے گا۔مزید یہ کہ
اس تمام رقبہ پر درخت نہیں لگائے جاسکتے کیوں کہ درختوں اور مقامی آب وہوا
کے مابین مطابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
2011ء میں جرمنی میں "بون چیلنج" کے تحت پچاس ملکوں نے اگلے بیس سال میں
350ملین ہیکٹرز پر درخت لگانے کا ہدف مقرر کیا۔اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیا
گیا لیکن جلد بازی میں بغیر منصوبہ بندی کے لگائے گئے درختوں نے بعد میں
مسائل پیدا کر دیے۔جاپان اور آئر لینڈ سمیت کئی ممالک میں اندھا دھند
شجرکاری نے مقامی آب و ہوا کو تباہ کرتے ہوئے بائیو ڈائیورسٹی کو بھی شدید
نقصان پہنچایا۔یہ نقصان زیر زمین پانی کے ذخائر کے خشک ہونے سے لے کر شہری
آبادی میں آگ لگنے جیسے حادثات تک جا پہنچا تو حکومتوں کو ہوش آیا کہ صرف
شجرکاری کرنے سے مقصد پورا نہیں ہوسکتا بلکہ موزوں درختوں کا انتخاب کرنا
بھی ضروری ہے۔حال ہی میں خیبر پختونخواہ میں بلین ٹری پراجیکٹ کے تحت
شجرکاری کی گئی لیکن وہاں بھی درختوں کے انتخاب میں غفلت برتی گئی جس کا
خمیازہ ہمیں آنے والے وقتوں میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ایک اور اہم نکتہ یہ ہے
کہ نئے درخت لگانے کافائدہ تبھی ہوسکتا ہے جب پہلے سے موجود جنگلات کی
حفاظت کی جائے۔رپورٹس کے مطابق ہر ایک منٹ میں دنیا میں فٹ بال گراؤنڈ کے
برابر درختوں کا صفایا ہوجاتا ہے۔یعنی ایک طرف ہم نئے درخت لگانے پراربوں
ڈالرز خرچ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف موجودہ جنگلات کو کاٹ کر حساب برابر
کر رہے ہیں۔اگر ہمیں شجرکاری مہم سے فائدہ اٹھانا ہے تو پہلے سے موجود
رختوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔
اس طویل بحث کا مقصد یہ ہے کہ گرین ہاؤس گیسز کی مقدار کو کم کرنے کے لیے
صرف درخت لگاناہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان گیسز کے اخراج کو کم سے کم
کرنا ہوگا۔ ان گیسز کے اخراج کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ اور دیگر مقاصد کے لیے
فوسل فیول کابے دریغ استعمال ہے۔ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کے لیے یورو ٹو ڈیزل
استعمال کیا جاتا ہے جو ماحول دشمن ہونے کے باعث دنیا بھر میں متروک ہوچکا
ہے۔ہمارا ہمسایہ ملک بھارت یوروفوراستعمال کر رہا ہے جبکہ دیگر ترقی یافتہ
ممالک یورو سکس تک پہنچ گئے ہیں۔تحقیق کے مطابق یورو ٹو میں سلفر کی مقدار
500ppm جبکہ یورو فائیو ڈیزل میں صرف 10ppm خارج ہوتی ہے۔یہی سلفر بعد میں
سلفر ڈائی آکسائڈ بناتاہے جو نہ صرف تیزابی بارش کا باعث ہے بلکہ درختوں کے
لیے بھی نقصان دہ ہے۔پاکستان اپنے ڈیزل کا نصف کویت پٹرولیم کمپنی سے درآمد
کرتا ہے جس نے 2020ء کے بعد یورو ٹو کی سپلائی سے انکار کرد یا ہے۔حکومت کو
چاہیے تھا کہ ہائی سپیڈ ڈیزل پر انڈسٹریز اور گاڑیوں کو اپ گریڈ کرنے کے
لیے بروقت اقدامات کیے جاتے لیکن تاحال اس ضمن میں کسی سنجیدگی کا مظاہرہ
نہیں کیا گیا۔افسوسناک بات یہ ہے کہ آئل ریفائنریز نے گزشتہ پندرہ سال میں
صارفین سے 290ارب روپے اضافی ٹیکس جمع کیا ہے جس کا مقصد یہ بتایا گیا تھا
کہ ریفائنریز کو ماحول دوست بنانے کے لیے اپ گریڈ کیا جائے گا۔ حکومت کی
ذمہ داری ہے کہ صارفین سے بٹورے گئے اربوں روپے کا حساب لیتے ہوئے
ریفائنریز کو ماحول دوست اقدامات پر پابند کیا جائے۔
ہمارے ہاں استعمال ہونے والی گاڑیاں ماحولیاتی تقاضوں پر پورا نہیں
اترتیں۔گاڑیوں کے پرانے انجن مکمل فیول جلانے کی اہلیت نہیں رکھتے جس کی
وجہ سے خطرناک گیسیں خارج ہوتی ہیں جو نہ صرف انسانی پھیپھڑوں کو تباہ کرتی
ہیں بلکہ انسان کو ذہنی طور پر بھی مفلوج کرنے کا باعث بنتی ہیں۔اس کا حل
یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ کی مدت مقرر کی جائے اور ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد
کیا جائے۔انفرادی طور پر ہمیں ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم سے کم کرنا
چاہیے۔حکومت کو بھی پبلک ٹرانسپورٹ پر سبسڈیز دیتے ہوئے ایک فیملی ایک گاڑی
کا قانون متعارف کرانا چاہیے۔دنیا بھر میں ری نیو ایبل انرجی کا استعمال
عام ہورہا ہے لیکن اس کے برعکس ہم ابھی تک تھرکول سے بجلی پیدا کرنے کی
منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔گرین الیکٹریسٹی یعنی پانی، ہوا اور سولر انرجی سے
سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ سولر پر
ٹیکسز کم کرتے ہوئے سولر انرجی کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرے۔ہمارے ہاں
کوڑا کرکٹ صاف کر کے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے جلا دیا جاتا ہے جو ماحول
میں زہریلی گیسوں کے اخراج کا باعث بنتا ہے۔اس کے سدباب کے لیے دنیا بھر
میں ری سائیکلنگ کا نظام عام ہورہا ہے۔اینٹوں کے بھٹے بھی مقامی آبادی فضاء
کو خراب کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔اس مقصد کے لیے بھٹوں کو ماڈرن
ٹیکنالوجی پر منتقل کرتے ہوئے ماحول دوست بنانا ہوگا۔چونکہ اس وقت ہمارا
ملک معاشی مسائل کا شکار ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر ممالک کو
اس بات کا احساس دلایا جائے کہ کیوٹو پروٹوکول اور پیرس اکارڈ کے تحت وہ
ماحول دوست اقدامات کے لیے غریب ممالک کی مدد کریں۔
٭٭٭٭٭٭ |