پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس: ہنسو گے تو ساتھ ہنسے گی دنیا

 ڈاکٹرغلام شبیررانا

پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس(1898-1958) پشاور میں پیدا ہوئے اور نیو یارک میں آسودۂ خاک ہیں۔وہ ممتاز براڈ کاسٹر، ماہر تعلیم ،نقاد،محقق اورسفارت کار تھے ۔ وہ گورنمنٹ کالج ،لاہور میں (1922-1925,1927-1939) انگریزی کے پروفیسر رہے ۔آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ انھیں چار سال (1951-1954) اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا ۔جس زمانے میں(1947-1950) پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس گورنمنٹ کالج لاہورکے پرنسپل تھے اسی زمانے میں فیض احمد فیض اور ن۔م۔ راشد گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے ترجمہ نگاری میں بھی اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔انھوں نے آسکر وائلڈ (Oscar Wilde,)، آر ایل سٹیون سن ، ( Robert Louis Stevenson) ولیم شکسپئیر (William Shakespeare) ،بر ٹرینڈ رسل (Bertrand Russell)، آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈرامہ نگار ،نقاد اور دانش ور جار ج بر نارڈ شا( George Bernard Shaw)، اناتولی فرانس (Anatole France) اور بر گساں(Henri Bergson) کی نمائندہ تحریروں کے اردو تراجم کیے ۔ اپنے دیرینہ رفیق سیدامتیاز علی تا ج کے ساتھ مِل کر انھوں نے ولیم شکسپئیر کے ڈرامے“A Mid summer Night’s Dream” کا اردو ترجمہ کیا۔اس ڈرامے کو گورنمنٹ کالج لاہورکی ڈرامیٹک کلب نے سٹیج پر پیش کیا ۔ وہ چار سال(1954-1958) اقوام متحدہ کے انڈرسیکرٹری رہے ۔ 14۔اگست 2003کوحکومت پاکستان کی طرف سے پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کو بعدازوفات ہلالِ امتیاز دیاگیا۔
مضامین پطرس کو قارئین کی طرف سے بہت پذیرائی ملی ۔روح اور قلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی اس ادب پارے کو معاصر ادب میں ممتاز مقام عطا کرتی ہے ان مضامین میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی وسعت ِ نظر کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے ۔ معاشرتی زندگی میں ہوس نے نوع انسانی زندگی کو خود غرضی ،انتشار اور پر تشدد روّیوں سے آلودہ کر دیا ہے ۔سادیت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانانات کے پس پردہ بھی مفاد پرستی ،انسان دشمنی اور بے حسی کار فرما ہے ۔مضامین کا حسن ،رعنائی اور مسرورکُن اسلوب انھیں عالمی ادب کی منتخب شگفتہ تحریروں کے برابر لاتا ہے ۔بے لوث محبت ،خلوص اور دردمندی کی مظہر یہ پر لطف تحریریں قاری کو ایک ایسے جہانِ تازہ میں پہنچا دیتی ہیں جہاں اسے سمے کے سم کے ثمر کے مسموم اثرات سے نجات مِل جاتی ہے ۔آفاقیت کے مقبول ترین ر جحان کی آ ئینہ دار یہ شگفتہ تحریریں جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حوصلے ،اعتماد اور خندہ پیشانی سے مسائل سے عہدہ بر آ ہونے پر مائل کرتی ہیں۔ ممتاز بر طانوی ادیب سٹیفن لی کاک (Stephen Leacock)نے مزاح کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے:

,, Humour may be defined as kindly contemplation of th incongruities of life and the artistic expression there of.,, (1)
جرمن فلسفی کانٹ (Immanuel Kant)نے مضحکہ خیز کیفیات سے جنم لینے والے مزاح کے بارے میں لکھاہے :
ludicrous,, isan affection arisingfrom the sudden transformation ofa strained expectation into nothing.,,(2)
فرانسیسی فلسفی ہینری بر گساں (Henri Bergson) نے مزاحیہ تحریروں کے بارے میں لکھاہے :
,,The comic is something mechanical entrusted upon encrusted upon the living.(3)
تخلیق ِادب میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی انفرادیت در اصل خاندانی حالات ،تعلیم و تربیت ،سماجی اور معاشرتی عوامل کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی اور اعلاعلمی و ادبی ماحول کی مرہونِ منت ہے ۔ ان کی مستحکم اور باغ و بہار شخصیت کے نمو پانے کے مراحل کی جستجو سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے انھوں نے ہمیشہ حصار ِ ذات سے باہر نکل کر حالات کا جبر سہنے والے الم نصیب انسانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی ۔انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بناپر معاشرتی زندگی کے مسائل پر غور و خوض کو شعار بنایا اور اپنے آنسوہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چُھپاکر اپنی تحریروں کو زعفران زار بنا نااپنا مطمح نظر ٹھہرایا ۔ آلامِ روزگار کی تمازت سے بچنے کے لیے یاس و ہراس سے نڈھال دیوار گریہ کے سائے میں بیٹھے ستم رسیدہ انسانوں کو ان کی شگفتہ تحریریں بے عملی اور بے حسی کے سرابوں سے بچنے اور ستیز کے لیے کمر بستہ ہونے کی راہ دکھاتی ہیں ۔ان کے مضامین کی کتاب ’’ مضامین پطرس ‘‘ کا دیباچہ خالص مزاح کی عمدہ مثال ہے:
’’ اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مُجھ پر احسان کیا ہے۔اگر آپ نے کہیں ے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔اپنے پیسوں سے خریدی ہے تومجھے آ پ سے ہمدردی ہے ۔اب بہتر یہی ہے کہ آ پ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں ۔ان مضامین کے افراد سب خیالی ہیں حتیٰ کہ جن کے لیے وقتاًفوقتاًواحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی ’’ ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں ۔‘‘آ پ تو اس نکتے کو اچھی طر ح سمجھتے ہیں لیکن کئی پڑھنے والے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اس سے پہلے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ان کی غلط فہمی اگر دُور ہو جائے تو کیا ہرج ہے ۔جو صاحب اِس کتاب کو کسی غیر مُلکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں وہ پہلے اُس مُلک کے لوگوں سے اِجازت حاصل کر لیں ۔‘‘(4)
انسانی ہمدردی ،خلوص ،دردمندی اور ایثار پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی شخصیت کے امتیازی اوصاف تھے ۔سماجی اور معاشرتی حالات کے تناظر میں اُن کا کرداراقتضائے وقت کے مطابق رہا۔پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی شخصیت کی عظمت اُن کی شگفتہ تحریروں میں پوری آ ب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔ہجوم ِغم میں گھر ے بے بس و لاچار انسانوں کی ڈھارس بندھانا زندگی بھرپروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کانصب العین رہا ۔کتاب ’’مضامین پطرس ‘‘ میں درج ذیل گیار ہ مضامین شامل ہیں۔
۱۔ہاسٹل میں پڑنا، ۲۔سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی، ۳۔کُتے ، ۴۔اُردو کی آخری کتاب ، ۵۔میں اک میاں ہوں ،۶۔مرید پور کا پیر ،۷۔انجام بخیر ، ۸۔سنیما کا عشق ، ۹۔میبل اور میں،۱۰۔مرحوم کی یاد میں، ۱۱۔لاہور کا جغرافیہ ۔
تخلیق ِادب میں حالات و واقعات کے نشیب و فراز کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتاہے ۔ یہ گمان کہ تخلیقِ ادب کے لیے نا مساعد حالات ،کٹھن مسائل اور تکلیف دہ ماحول نا گزیر ہے ایک غیر حقیقی طرزِ فکر کی علامت ہے ۔ عملی زندگی میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ابتد ا میں انسان جن افعال کو سہل سمجھتاہے بعد میں وہی اس کے لیے دشوار ثابت ہوتے ہیں۔ہنسنا اور ہنسانا بھی ایسا ہی فعل ہے ۔ تخلیق ِادب کے بارے میں حقیقی شعور سے عاری اورسطحی سوچ رکھنے والے بعض لوگ ہنسنے اور ہنسانے کو ایک عام سی سر گرمی پر محمول کرتے ہیں۔طنز و مزاح کاانسانی مزاج ،معاشرتی روّیوں اورعمرانی مسائل سے گہراتعلق ہے ۔ اسے تہذیب و ثقافت اور تمد ن و معاشرت کے ارتقا کی مقیاس خیال کیا جاتاہے ۔طنز و مزاح انسان کی فکری منہاج اور ذہنی بالیدگی کاآئینہ دار ہے ۔قدر تِ کاملہ کی طرف سے صرف اِنسان کو ہنسنے کی صلاحیت عطا کی گئی ہے ۔اسی لیے انسان کو حیوان ظریف بھی کہا جاتا ہے ۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے اپنی شگفتہ مزاجی میں قارئینِ ادب کو بھی شامل کیا ہے ۔ شاعر نے سچ کہا تھا:
ہنسو تو ساتھ ہنسے گی دنیا
بیٹھ اکیلے رونا ہوگا
ایک فعال اور زیرک مزاح نگار کی حیثیت سے پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے اپنے اسلوب میں ندرت اور تنوع پیدا کرنے کی خاطر اپنی تخلیقات کومتعدد تجربات ،مشاہدات اور بصیرتوں سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔’’ پطرس کے مضامین ‘‘ میں شامل تحریریں معاشرے ،ماحول ،سماج ،تہذیب و ثقافت ،حتیٰ کہ بنی نوع انسان سے وابستہ مسائل پر محیط ہیں ۔ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے انھیں جہاں بھی کوئی بے اعتدالی اور نا ہمواری دکھائی دیتی ہے وہ اسے اپنی تحریروں کا موضوع بناتے چلے جاتے ہیں ۔ان تمام موضوعات کو اپنے ہمدردانہ شعور ،خلوص و درد مندی ،ایثار و وفا،حسِ مزاح اور شگفتہ مزاجی سے ایسی معنویت عطا کرتے ہیں کہ کہ قاری دنگ ر ہ جاتا ہے ۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی حاضر دماغی ،تجسس و تخیل کی بالیدگی، منضبط پیرایۂ اظہار ،دل کش نثر ،دل نشیں اسلوب اور منفردمرقع نگاری سے گلشنِ ادب میں سکوت کا خاتمہ ہو جاتاہے اور عنادل کے زمزمہ خواں ہونے سے ہرچہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے ۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے اپنی تحریروں میں شگفتگی پیداکرنے کے لیے جو حربے استعمال کیے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
1۔ صنائع بدائع اور موازنہ
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی شگفتہ تحریروں کو محض تفنن طبع تک محدود رکھنا درست نہیں ۔ ان کے اسلوب کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک طنز و مزاح مشغلہ نہیں بل کہ معاشرے کے مضحک پہلوؤں کو سامنے لانے والی ایک اہم ذمہ داری ہے ۔ تخلیق فن کے لمحوں میں انھوں نے فنی روایات ، ادبی اقدار اور تخلیق کار کی انا کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔اپنی شگفتہ مزاجی اور منفرد اسلوب کے تفاعل سے وہ ایسا سماں باندھ دیتے ہیں کہ تخلیق کار اورقاری کے درمیان فکری ہم آ ہنگی پروان چڑھتی ہے ۔اس فکر ہم آ ہنگی کے معجز نما اثر سے مزاح کے تشکیلی عوامل میں قارئین کی دلچسپی میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ انھوں نے معاشرتی مقاصد کے حصول کی خاطر اپنے مضامین میں صنائع بدائع اور موازنہ سے خالص مزاح کوتحریک دی ہے ۔ اس طرح مزاح پیدا کرنے کی مثالیں درج ذیل ہیں:
’’ میری تقریروں میں جوش بڑھتا گیا معقولیت کم ہوتی گئی ۔جب اِدھر اُدھر کے لوگوں سے لاہور کے حالات سُنے تو معلوم ہوا کہ لندن اور لاہور میں چنداں فرق نہیں۔ شاہدرے اور شالامار کی ارمان انگیز فضا۔ ٹھنڈ ی سڑک وغیرہ کے مشاغل ۔ پاکیزگی اور طہارت کا کعبہ اور ہاسٹل گناہ و معصیت کا ایک دوزخ ۔‘‘(ہاسٹل میں پڑنا ) ۔’’ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طر ح کلمۂ شہادت بھی پڑھا، پھر یہ بھی یادہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پرایک آدھ کروٹ بھی لی ۔‘‘(سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی)
2۔گل افشانی ٔ گفتار
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی گل افشانی ٔ گفتار جامدو ساکت پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے۔ ہجوم یاس و ہراس میں گِھرے د ل گرفتہ لوگوں کے لیے اُن کی شگفتہ تحریریں پیامِ نوبہار ثابت ہوتی ہیں۔وہ جس موضوع پر بھی لکھیں مزاح کی پھل جھڑیاں بکھرتی چلی جاتی ہیں ۔پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی شگفتہ تحریریں قارئینِ ادب کی انتہائی پسندیدہ ،لائق صد رشک و تحسین اورقابل فخر اقدار کو زندگی کی حقیقی تاب وتواں اور معنویت عطاکرنے ک وسیلہ ثابت ہوتی ہیں۔مضامین پطرس میں شامل تحریریں عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں اور یہ عصر ی آ گہی پروان چڑھانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں ۔یہ شگفتہ تحریریں نہ صرف اپنے عہد کو متاثر کرتی رہیں بل کہ تخلق اور اس کے پس پردہ کارفرما لا شعوری محرکات سے آ گہی حاصل کرنے کا وسیلہ ثابت ہوئیں ۔ یہ شگفتہ تحریریں تخلیق کار کی شخصیت اورسماجی عوامل کے بارے میں تمام حقائق سامنے لاتی ہیں ۔ نو آبادیاتی دور میں حبس کا وہ ماحول جہاں ہنسنا تو بہت دُورکی بات ہے لوگوں کو گریہ و زاری کی بھی اجازت نہ ہو وہاں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی شگفتہ تحریریں ستارۂ سحر ثابت ہوئیں۔
’’ لاہور میں ہمارے ایک ماموں دریافت کیے گئے اور ان کو ہمارا سر پرست بنا دیا گیا۔‘‘ (ہاسٹل میں پڑنا ) ۔’’ ارے کم بخت خدائی فوجدار ،بدتمیز کہیں کے میں نے تجھے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینایایہ کہا تھا کہ سِرے سے سونے ہی نہ دینا۔تین بجے جاگنابھی کوئی شرافت ہے؟تُونے ہمیں ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے ؟‘‘ ( سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی) ۔’’ جب تک اس دُنیا میں کُتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مُصرہیں سمجھ لیجے کہ ہم قبر میں پاؤ ں لٹکائے بیٹھے ہیں۔‘‘ ( کتے )
’’ آخر کار بائیسکل پر سوار ہوا ۔پہلاہی پاؤ ں چلایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی مُردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زند ہ ہو رہا ہے ۔۔۔ پچھلاپہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتابھی تھا۔( مرحوم کی یاد میں )
’’رفتہ رفتہ میں اس چیزکے قریب آیا جس کو میرا نوکربائیسکل بتا رہا تھا۔اس کے مختلف پُرزوں پر غور کیا تو اتنا ثابت ہو گیاکہ بائیسکل ہے ۔لیکن مجمل ہئیت سے یہ صاف ظاہر تھاکہ ہل اورراہٹ اور چرخہ اور اسی طرح اور جدید ایجادات سے پہلے کی بنی ہوئی ہے ۔‘‘( مرحوم کی یاد میں )
’’ میرا دِل جدیدتہذیب سے باغی ہو کر مجھ سے کہتا کہ مر داشرف المخلوقات ہے ۔اس طرف میبل عورت مرد کی مساوات کااظہارمبالغہ کے ساتھ کرتی تھی ۔یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتاتھاکہ وہ عورتوں کو کائنات کی رہبراور مردوں کو حشرات الارض سمجھتی ہے ۔‘‘( میبل اور میں )
’’ اصلی اور خالص گھوڑے لاہور میں خوراک کے کام آتے ہیں۔قصابوں کی دکانوں پر انہی کا گوشت بکتا ہے اور زین کس کر کھا یا جا تا ہے۔تانگوں میں ان کی بجائے بناسپتی گھوڑے استعمال کیے جاتے ہیں۔بناسپتی گھو ڑا شکل وصورت میں دُم دار ستارے سے مِلتاہے ۔کیونکہ اس گھوڑے کی ساخت میں دُم زیادہ اور گھوڑا کم پایا جاتا ہے ۔حرکت کرتے وقت اپنی دُم دبا لیتا ہے۔‘‘(لاہور کا جغرافیہ )
3۔مضحکہ خیز کیفیات
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی گل افشانی ٔ گفتار کے دو ا ٓہنگ قاری کے فکر ونظر کو مہمیز کرتے ہیں ۔سب سے پہلے تو وہ مضحکہ خیزکیفیات کے بارے میں ایک واضح اور بے ساختہ انداز اپناتے ہیں ۔اسلوب کی یہی بے ساختگی قاری کے لیے مژدہ ٔ جانفزا ثابت ہوتی ہے ۔جیسے ’’میبل اور میں‘‘ذوق مطالعہ سے عاری ایک لڑکے اور لڑکی کے بارے میں ہے ۔اسی طرح ’’ مرید پور کا پِیر ‘‘میں ایک خود ساختہ اور جعلی سیاسی کارکن کا کچاچٹھا پیش کیا گیاہے ۔ ایک سیاسی جلسۂ عا م میں اس جعل ساز سیاسی کارکن کی بے ربط اور مہمل تقریر کے جملوں کا ایک ایک لفظ محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتا ہے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ بعض تلمیحات ،تاریخی واقعات اور بے ہنگم تضادات و ارتعاشات کو ان مضحکہ خیزکیفیات کا حصہ بنا دیاگیاہے ۔اس کی مثالیں نظام سقہ ، ارسطو اور سکندر اعظم ( B: 356 BC,D:323 BC )کے دور سے تعلق رکھنے والا نا بینا قناعت پسند دانش ور دیو جانس کلبی ،بم کی تیاری کی سوچ،تپسیا اور سادھو وغیرہ ہیں ۔ آخری عمر میں دیو جانس کلبی ویرانے میں مٹی کے اک ٹب میں پڑ ارہتا تھا۔ وہ کہا کرتاتھاکہ انسان کا دشمن انسان ہے جانور نہیں۔جب سکندر اعظم نے پوری دنیا فتح کر لی تو دیو جانس کلبی نے کہا:
’’اگر انسان قناعت پسند ہو تو وہ مٹی کے اس ٹب میں بھی خوش رہ سکتاہے لیکن اگر وہ حریص ہو جائے تو پوری کائنات بھی اس کے لیے چھوٹی ہے ۔‘‘
’’ تھیٹر کے معاملے میں ہماری معلومات اندر سبھا سے آ گے بڑھنے نہ پائیں ۔‘‘ ، ’’سگرٹ غسل خانے میں چُھپ کر پیتے تھے ۔‘‘ (ہاسٹل میں پڑنا ) ۔صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا ساڑھے پانچ سو جواب آ یا لیکن اضطراب کی کیامجال جو چہرے پر ظاہر ہو نے پائے ۔‘‘(سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی) ۔ ’’ اب یہی ہمارا معمول ہو گیا ہے جاگنا نمبر ایک چھ بجے جاگنانمبر دو دس بجے اِس دوران میں لالہ جی آواز دیں تو نماز ۔‘‘(سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی) ۔’’آپ نے خداتر س کتابھی ضرور دیکھا ہو گا۔عموماً اس کے جسم پر تپسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِگناہ کا احساس آنکھ نہیں اُٹھانے دیتا۔دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے ۔سڑک کے بیچوں بِیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آ نکھیں بند کرلیتاہے ۔شکل بالکل فلاسفروں کی سی اورشجرہ دیو جانس کلبی سے مِلتاہے ۔۔۔۔۔۔ رات کے وقت یہی کُتا اپنی خشک پتلی سی دُم تا بحدِ اِمکان سڑک پر پھیلا کر ر کھتا ہے ۔اس سے محض خد اکے بر گزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے ۔جہاں آ پ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا ۔انھوں نے غیظ و غضب کے لہجہ میں آ پ سے پُر سش شروع کر دی ’’ بچا فقیروں کو چھیڑتا ہے ۔نظر نہیں آتا ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘(کتے )
’’ سامنے پنگوڑا لٹک رہاہے ۔سُلا نا ہو تو افیم کِھلا کراس میں لٹا دیتی ہے ۔رات کو اپنے ساتھ سُلاتی ہے ( باپ کے ساتھ دُوسرا بچہ سوتا ہے )۔جاگ اُٹھتا ہے تو جھٹ چونک پڑتی ہے اور محلے والوں سے معافی مانگتی ہے ۔‘‘ ( اُردو کی آخری کتاب )
انجام بخیر میں عمدہ لباس پہنے ہوئے تین طالب علم پطرس نامی اپنے نادار اُستادکے کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ معلم کے کمرے میں کتابوں کاانبار لگاہے۔ کمرے میں صرف ایک کرسی ہے جس پر معلم بیٹھاہے معلم کے چہرے سے ذہانت پسینہ بن کر ٹپک رہی ہے۔ طالب علم ضخیم کتابوں کو جوڑ کر ان پر بیٹھ جاتے ہیں۔اس کے بعد ہر طالب علم اپنے مضمحل استادکی خدمات کے اعتراف اور اظہار تشکر اور احسان مندی کے جذبے سے ایک ایک اٹھنی پیش کرتا ہے ۔اس طرح وہ طالب علم اپنے فرض سے سبک دوش ہو جاتے ہیں ۔ اپنے شاگردوں کی اس قدر افزائی کے بعد پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس اپنے خالق کے حضور سر بہ سجود ہو کر کہتا ہے :
’’ باری تعالیٰ تیرالاکھ لاکھ شکر ہے کہ تُو نے مجھے اپنی ناچیز محنت کے ثمر کے لیے بہت دنوں انتظار میں نہ رکھا۔تیری رحمت کی کوئی انتہا نہیں لیکن ہماری کم مائیگی اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔‘‘( انجام بخیر)
مستری خدا بخش نے جب بائیسکل کی قیمت صرف تین روپے بتائی تو بائیسکل کے مالک کے دِل پر جو صدمہ گزرا اس کی لفظی مرقع نگاری اور مستری خد ابخش سے گفتگو بہت دلچسپ ہے :
’’او صنعت و حرفت سے پیٹ پالنے والے نچلے طبقے کے انسان مجھے اپنی توہین کی پروا نہیں۔لیکن تو نے اپنی بے ہودہ گفتاری سے اِس بے زبان چیز کوجو صدمہ پہنچایاہے اس کے لیے میں تجھے قیامت تک معاف نہیں کر سکتا۔‘‘ (مرحوم کی یادمیں)
4۔مزاحیہ کردار
مضمون ہاسٹل میں پڑنا میں ہاسٹل میں داخل ہونے کا خواہش مند طالب علم بھی ایک مزاحیہ کردار کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ اس کی باتیں سن کر ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔مثال کے طور پر وہ جب ہاسٹل کی زندگی کی خوبیاں بیان کرتا ہے تو قاری پطرس کی حسِ مزاح کا قائل ہو جاتا ہے :
’’ ہاسٹل میں جسے دیکھوبحرِ علوم میں غوطہ زن نظر آتا ہے ۔باوجود اس کے کہ ہر ہاسٹل میں دو دو سو تین تین سو لڑکے رہتے ہیں پھر بھی وہ خاموشی طاری ہوتی ہے کہ قبرستان معلوم ہوتا ہے ۔‘‘(ہاسٹل میں پڑنا)
صبح دیر سے جاگنے والا طالب علم عادی دروغ گو اور مزاحیہ کردار ہے ۔اس طالب علم کی باتیں سن کر خندۂ زیرِ لب کی کیفیت پید اہوتی ہے ۔’’ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کی بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دِن کیا بُری طرح کٹا کرتا۔‘‘(سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی)
سنیما کے ایک شیدائی اور مزاحیہ کردار مرزا صاحب کی ہئیت کذائی دیکھ کرقاری مسکرانے لگتاہے ۔ مرزا صاحب کے کپڑے زیبِ تن کرنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ مصنف یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگراس کے بس میں ہوتا تو قانون کی رُو سے انھیں کبھی کپڑے اُتارنے ہی نہ دیتا۔ یہاں مرزا کے تاخیر ی ہتھکنڈوں پر طنز کی گئی ہے :
’’ اگر قتل ِ انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتاتو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سر زد ہو جاتا۔اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں بے بس ہوتا ہوں ۔‘‘ ( سنیما کا عشق )
’’ میں ایک میاں ہوں،مطیع و فرماں بردار ۔اپنی بیوی روشن آرا کواپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آ گاہ رکھنا اصولِ زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہاہوں ۔خدا میرا انجام بخیر کرے ۔ چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اُتنے ہی روشن آرا کو بُرے لگتے ہیں ۔‘‘ ( میں ایک میاں ہوں )
مرید پور کا پیر بھی ایک مزاحیہ کردار ہے ۔جس کے بارے میں ایک مقامی اخبار ’’مرید پور گزٹ ‘‘ نے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے صرف دو ماہ تک چھپنے والے ’’ مرید پور گزٹ ‘‘ کی اس خصوصی اشاعت کے متعلق لکھا ہے کہ اس کا مکمل فائل تاریخ کے طوماروں میں دب چکا ہے اور اب اس گزٹ اوراس کے مدیر کاکسی کو اس کا اتا پتا معلوم نہیں۔مرید پور گزٹ کے مدیر کا حلیہ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے اس طرح بیان کیا ہے :
’’ رنگ گندمی ،گفتگو فلسفیانہ ،شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔۔اس اخبار نے مرید پور کے پیر کے خطوط کے بَل پر جو خصوصی نمبر شائع کیاوہ اِتنی بڑی تعداد میں چھپاکہ اُس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پرنظر آتے ہیں ۔‘‘( مرید پور کا پیر )
5۔تحریف نگاری
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے تحریف نگاری کے ذریعے اپنی شگفتہ تحریروں کو نکھار عطا کیا ہے۔ان تحریروں سے فرحت اور شادمانی کے ایسے سوتے پُھوٹتے ہیں جوروح اور قلب کو سکون سے متمتع کرنے کاوسیلہ ثابت ہوتے ہیں ۔ تحریف نگاری کے ذریعے پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے معاشرتی زندگی میں پائے جانے والی انصاف کُشی ، جبر و استبداد ،استحصال اورگھٹن کے خلاف شگفتہ انداز میں لکھا ہے ۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی شقاوت آمیز ناانصافیاں پیہم شکستِ دِل پر منتج ہوتی ہیں۔ظالم و سفاک اورمُوذی و مکار استبدادی قوتیں مظلوم انسانوں کو قلعۂ فراموشی میں محبوس کر دیتی ہیں۔یہاں یہ قسمت سے محروم جگر سوختہ مظلوم حواس باختہ ،غرقا ب ِغم اور جاں بہ لب پڑے سسکتے رہتے ہیں ۔اس قسم کے لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور جان لیوا صدمات میں گِھرے انسانوں کے لیے ظرافت طلوع ِ صبح ِ بہاراں کی نوید ثابت ہوتی ہے ۔پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی تحریف نگاری ید بیضا کامعجزہ دکھاتی ہے اور غموں کے ازدحام میں دِل کو سنبھالنے پر آمادہ کرتی ہے ۔
’’ ا س چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گِر پڑنے ۔۔۔۔دیگچیوں کے اُلٹ جانے ،دروازوں کے بند ہونے ،کتابوں کے جھاڑنے ،کرسیوں کے گھسیٹنے ،کلیاں اور غر غرے کرنے ،کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔اندازہ کر لیجے کہ ان میں سُر تال کی کِس قدرگنجائش ہے !
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبیعت کو دیکھتا ہو ں میں (سویرے جو کل آ نکھ میری کُھلی)
اُردو کی آخری کتاب میں محمد حسین آزاد کی کتاب ’’ اردو کی پہلی کتاب ‘‘ کی پیروڈی کی گئی ہے ۔ماں کی مصیبت کے عنوان سے پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے لکھا ہے :
’’ ماں بچے کو گود میں لیے بیٹھی ہے ۔باپ انگوٹھاچُوس رہا ہے اور دیکھ کر خوش ہوتاہے ۔ بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے ۔‘ ‘ ( اُردو کی آخری کتاب )
’’اشتہاروں کے علاوہ لاہور کی سب سے بڑی صنعت رسالہ بازی اورسب سے بڑی حرفت انجمن سازی ہے۔ہررسالے کا ہر نمبر عموماًخاص نمبر ہوتا ہے اورعام نمبر صرف خاص خاص
موقعوں پر شائع کیے جاتے ہیں۔عام نمبر میں صرف ایڈیٹر کی تصویراورخاص نمبروں میں مس سلوچنا اور مس کجن کی تصاویربھی دی جاتی ہیں۔اس سے ادب کو بہت فروغ نصیب ہوتا ہے اور
فنِ تنقید ترقی کرتا ہے ۔لاہور کے ہر مربع انچ میں ایک انجمن موجودہے۔پریذیڈنٹ البتہ تھوڑے ہیں اس لیے فی الحا ل صرف دو تین اصحاب ہی یہ اہم فرض ادا کر رہے ہیں۔چونکہ
انجمنوں کے اغراض و مقاصد مختلف ہیں اس لیے بسا اوقات ایک ہی صدر صبح کسی مذہبی کانفرنس کاافتتاح کرتا ہے ،سہ پہرکو کسی سینماکی انجمن میں مس نغمہ جان کا تعارف کراتا ہے اور شام
کوکسی کرکٹ ٹیم کے ڈنر میں شامل ہوتا ہے۔اس سے ان کا مطمح نظر وسیع رہتا ہے ۔تقریر عام طور پرایسی ہوتی ہے جو تینوں موقعوں پر کام آ سکتی ہے چنانچہ سامعین کو بہت سہولت رہتی ہے۔‘‘(لاہور کا جغرافیہ)
مکالمہ نگاری میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی نکتہ آفرینی کاکرشمہ د امنِ دِل کھینچتاہے ۔وہ افکارِ تازہ کی مشعل تھا م کر پامال راہوں سے بچ کر جہانِ تازہ کی جانب رواں دواں رہنے پر اصرارکرتے ہیں ۔مر حوم کی یاد میں ایک پر لطف مضمون ہے ۔اس مضمون کے دو مزاحیہ کردار ایک تو مرزا اور دوسرا بائیسکل کا خریدار ہے ۔یہ دونوں دوست بھی ہیں مگر مزاج کے اعتبار سے دونوں مختلف ہیں ۔ان کے روّیے میں لچک عنقا ہے ۔بائیسکل کا خریدار اپنے معاشی مسائل کے باعث تشویش میں مبتلا ہے ۔اس کے باوجود وہ نمود و نمائش اور جعلی شان و شوکت کی تمنا رکھتاہے ۔ یہ دونوں کردار اپنی اپنی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور ان کی گفتگو جہاں بے ضرر ہے وہاں بے مقصد بھی ہے ۔مصنف نے اپنے خالص مزاح کے لیے اسی گفتگو سے مزاح کے پھول چنے ہیں ۔زندگی کی بے اعتدالیوں اور تضادات کے ہمدردانہ شعور سے لبریز مصنف کے اسلوب کے مطالعہ سے قاری کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی ہے ۔ اپنی انا اور ذات کے حصار سے نکل کر سوچنا ہی شگفتہ مزاجی کی دلیل ہے ۔ ذیل میں پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کی فنی مہارت کی مظہر شگفتہ مکالمہ نگاری کا ایک نمونہ پیش کیا جاتاہے ۔
میں کچھ دیر تک آ ہیں بھرتا رہا۔مرزاصاحب نے کچھ توجہ نہ کی آخر میں نے خاموشی کو توڑا اورمرز اصاحب سے مخاطب ہو کربولا :
’’مرزا!ہم میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہے ؟‘‘
مرزا صاحب بولے ’’ بھئی کچھ ہو گا ہی نہ آخر ۔‘‘
میں نے کہا ’’میں بتاؤ ں تمھیں ؟‘‘
کہنے لگے ’’ بولو۔‘‘
میں نے کہا’’ کوئی فرق نہیں ۔سنتے ہو مرزا ؟کوئی فرق نہیں ۔ہم میں اور حیوانوں میں۔۔۔۔کم از کم مجھ میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں !ہاں ہاں میں جانتاہوں ۔تم مین میخ نکالنے میں بڑے طاق ہو کہہ دو گے حیوان جگالی کرتے ہیں تم نہیں کرتے ۔اُن کی دُم ہوتی ہے تمھاری دُم نہیں ۔لیکن ان باتوں سے کیا ہوتاہے ؟اِن سے تو صرف یہی ثابت ہوتاہے کہ وہ مجھ سے افضل ہیں لیکن ایک بات میں مَیں اور وہ بالکل برابر ہیں ۔وہ بھی پیدل چلتے ہیں ۔میں بھی پیدل چلتا ہوں ۔اس کا تمھارے پاس کیا جواب ہے ؟جواب نہیں کچھ ہے تو کہو ۔بس چُپ ہو جاؤ ۔تم کچھ نہیں کہہ سکتے۔جب سے میں پیداہوا ہوں اُس دِن سے پیدل چل رہا ہوں ۔پیدل ! تم پیدل کے معنی نہیں جانتے ۔پیدل کے معنی ہیں سینۂ زمین پر اس طرح حرکت کرناکہ دونوں پاؤ ں میں سے ایک ضرور زمین پر رہے۔یعنی تمام عمرمیرے حرکت کرنے کا طریقہ یہی رہاہے کہ ایک پاؤں زمین پر رکھتا ہوں۔دوسرا اُٹھاتا ہوں ۔دوسرا رکھتاہوں ،پہلااُٹھاتاہوں ۔ایک آگے ایک پیچھے ۔ایک پیچھے ایک آگے۔خدا کی قسم اس طر ح کی زندگی سے دماغ سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔حواس بے کار ہو جاتے ہیں ۔تخیل مر جاتا ہے ۔آدمی گدھے سے بدتر ہو جاتا ہے ۔‘‘
مرزا صاحب میری اِس تقریر کے دوران میں کچھ اِس بے پروائی سے سگرٹ پیتے رہے کہ دوستوں کی بے وفائی پر رونے کو دِل چاہتاتھا۔میں نے از حد حقارت اور نفرت کے ساتھ منھ ان کی طرف سے پھیر لیا۔ایسامعلوم ہوتا تھاکہ مرزا کو میری باتو ں پر یقین ہی نہیں آتا۔گویامیں اپنی جوتکالیف بیان کر رہا ہوں وہ محض خیالی ہیں ۔یعنی میرا پیدل چلنے کے خلاف شکایت کرنا قابلِ توجہ ہی نہیں ۔یعنی میں کسی سواری کامستحق ہی نہیں ۔میں نے دِل میں کہا’’ اچھا مرزایوں ہی سہی ۔دیکھو تو میں کیا کرتا ہوں۔‘‘
میں نے اپنے دانت پچی کر لیے اور کرسی کے بازو پر سے جُھک کر مرزا کے قریب پہنچ گیا۔مرزا نے بھی سر میری طرف موڑا ۔میں مسکرا دیا لیکن میرے تبسم میں زہر مِلا ہوا تھا۔جب مرزا سننے کے لیے بالکل تیار ہو گیاتو میں نے چبا چبا کر کہا :
’’ مرزا میں ایک موٹر کار خریدنے لگاہوں َ‘‘
یہ کہہ کرمیں بڑے استغنا کے ساتھ دوسری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے کہا’ ’ سُنا نہیں تم نے۔میں ایک موٹر کارخریدنے لگا ہوں ،موٹر کارایک ایسی گاڑی ہے جس کو بعض لوگ موٹر کہتے ہیں ۔بعض لوگ کار کہتے ہیں۔لیکن چونکہ تم ذرا کُند ذہن ہو ۔اس لیے میں نے دونوں لفظ استعمال کر دئیے ہیں ۔تاکہ تمھیں سمجھنے میں کوئی دِقت پیش نہ آ ئے۔‘‘
مرزا بولے ’’ ہوں ‘‘
اب کے مرزا نہیں میں بے پروائی سے سگرٹ پینے لگا۔بھویں میں نے اوپر کو چڑھا لیں ۔سگرٹ والاہاتھ میں منھ تک اِس انداز میں لاتااور ہٹاتا تھاکہ بڑے بڑے ایکٹر اِس پر رشک کریں۔
تھوڑی دیر کے بعد مرزا پھر بولے’’ ہوں ‘‘
میں نے سوچا اثر ہو رہا ہے ۔مرزا صاحب پر رعب پڑ رہا ہے ۔میں چاہتا تھا۔مرزا کچھ بولے ۔تاکہ مجھے معلوم ہو کہاں تک مرعوب ہوا ہے ۔لیکن مرزا نے پھر کہا ’’ ہوں ‘‘
میں نے کہا ’’مرزاجہاں تک مجھے معلوم ہے تم نے سکول او رکالج اور گھر پر دو تین زبانیں سیکھی ہیں۔اس کے علاوہ تمھیں کئی ایسے الفاظ بھی آتے ہیں جو کسی سکول اور کالج یاشریف گھرانے میں نہیں بولے جاتے ۔پھر بھی اِس وقت تمھار کلام ’’ ہوں ‘‘ سے آ گے نہیں بڑھتا۔تم جلتے ہو ۔مرزا اس وقت تمھاری جوذہنی کیفیت ہے ۔اس کو عربی زبان میں حسدکہتے ہیں ۔
مرزا صاحب کہنے لگے ’’نہیں یہ بات تو نہیں۔میں تو صرف خریدنے کے لفظ پر غور کر رہا تھا ۔تم نے کہا میں ایک موٹر کار خریدنے لگا ہوں ۔تو میاں صاحب زادے خریدنا ایک ایسا فعل ہے کہ اس کے لیے روپے وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔وغیرہ کا بندوبست توبخوبی ہو جائے گالیکن روپے کا بندو بست کیسے کرو گے؟‘‘
یہ نکتہ مجھے نہ سُوجھا تھا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری ۔میں نے کہا ’’میں اپنی کئی قیمتی اشیابیچ سکتا ہوں ۔‘‘
مرزابولے ’’کون کون سی مثلاً؟‘‘
میں نے کہا’’ ایک تو میں اپنا سگرٹ کیس بیچ ڈالوں گا۔‘‘
مرزا کہنے لگے ’’چلو دس آنے تو یہ ہو گئے۔ باقی ڈھائی تین ہزارکاانتظام بھی اسی طرح ہوجائے تو سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اس کے بعدضروری یہی معلوم ہوا کہ گفتگو کاسلسلہ کچھ دیر کے لیے روک دیا جائے ۔چنانچہ میں مرزا سے بیزار ہو کر خاموش ہورہا ۔یہ بات سمجھ میں نہ آ ئی کہ لوگ روپیہ کہاں سے لاتے ہیں ۔بہت سوچا ۔آخر اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگ چوری کرتے ہیں ۔اس سے ایک گونہ اطمینان ہوا۔
ہوسِ زر کے سرابوں میں خجل ہونے والے بد قسمت افراد یہ سمجھتے ہیں کہ مادی دور کی لعنتوں کے باعث معاشرتی زندگی سے راحت و شادمانی،عدل و انصاف اور خوش حالی کی تمنا خیال و خواب ہو گئی ہے ۔ مراعات افتہ عناصر نے اپنی مکر کی چالوں سے تمام وسائل پر غاصبانہ قبضہ کر ر کھاہے ۔ ساری دنیاکے حالات بدل رہے ہیں مگرمحنت کشوں کے حالات جوں کے توں ہیں ۔ کوئی مسیحا فاقہ کش فقیروں کی قسمت کی لکیروں کو بدل نہیں سکا مگر بے ضمیروں کے سدا وار ینیارے رہتے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ عقابوں کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں ہیں۔ ادب کا عام قاری بھی جب زندگی کے تضادات دیکھتا ہے تو وہ دل گرفتہ ہو جاتاہے ۔آلام ِ روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والا محروم طبقہ مراعات یافتہ استحصالی طبقے کی عیاشیوں کو دیکھ کر ہروقت حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال رہتا ہے۔اقتصادی زبوں حالی کے شکار اور آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے محروم لوگ پروفیسر احمدشاہ بخاری پطرس کی کتاب ’’ مضامین پطرس‘‘نکال کر پڑھنے لگتے ہیں کہ شاید انھیں معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے ،اہلِ جور کو نیست و نابود کرنے کے لیے پروفیسر احمدشاہ بخاری پطرس جیسے درد آ شنا کا تجویز کردہ درج ذیل نسخہ مِل جائے ۔
’’ میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ میں جب کسی کی موٹر کار کو دیکھوں ۔مجھے زمانے کی ناساز گاری کاخیال ضرور ستانے لگتاہے اور میں کوئی ایسی ترکیب سوچنے لگتا ہوں جس سے دنیا کی تما م دولت سب انسانوں میں برابر برابر تقسیم کی جا سکے ۔اگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس اد اسے گزر جائے کہ گرد و غبارمیرے پھیپھڑوں ،میرے دماغ ،میرے معدے اور میری تِلّی تک پہنچ جائے تو اُس دِن میں گھر آ کر عِلمِ کیمیاکی وہ کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف۔اے میں پڑھی تھی ۔اور اس غرض سے اس کا مطالعہ کر نے لگتا ہوں کہ شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آ جائے ۔‘‘

مآخذ
1.Stephen Leacock :Humour AndHumanity ,Thornton Butterworth,Ltd,London,1937,Page 11.

2. As above
3. As above
(4)۔احمدشاہ بخاری پطرس: پطرس کے مضامین ،اُردو اکیڈیمی،لاہور ،بار چہارم ،جنوری ،1944،صفحہ 5۔
DR.Ghulam Shabbir Rana( Mustafa Abad Jhang City)
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.