امرتسر آزادی سے پہلے کا تجزیاتی مطالعہ

جب ہم صنف سخن کی بات کریں۔تو بہت سی نثری وشعری اصناف ہمارے سامنےآتی ہیں۔ انہی میں ایک صنف افسانہ نگاری کی ہے جس نے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بہت ترقی کی ہے۔ مگرآج ہمارا زیر بحث موضوع صنف نہیں بلکہ افسانہ نگاری ہے۔ اور اس میں بہت سے افسانہ نگاروں نے اپنا حصہ ڈالا۔جن میں منٹو ، پریم چند،راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندرکے نام نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

کرشن چندر اردو ادب کے نامور ادیب اور افسانہ نگار ہیں۔اورپوری اردو دنیا ان پرناز کرتی ہے۔انھوں نے نہ صرف اردو ادب کے لیے قیمتی خزانہ چھوڑا۔بلکہ اردو افسانے کی د نیا میں چار چاند لگا دیئے۔ افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری پر بھی کام کیا۔کرشن چند اردو افسانہ نگاری میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے بہت سے افسانے تحریر کیے۔جن میں "ان داتا"، "پورے چاند کی رات"،"دو فرلانگ لمبی سڑک" اور "پہلا دن "جیسے شاہکار افسانے لکھے ۔ جومختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔

"امرتسر آزادی سے پہلے" تاریخی اہمیت کا حامل افسانہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے دیگر افسانے تاریخی نوعیت کے ہیں۔جن میں" امرتسرآزادی کے بعد"،" پشاور ایکسپرس "شامل ہیں ۔جبکہ منٹو کا افسانہ"ٹوبہ ٹیک سنگھ"بھی تاریخی حوالے سے اہم ہے۔ان افسانوں میں تقسیم کے وقت کے حالات و واقعات،فسادات،معاشرتی بے راہ روی اور ظلم و بربریت کا بیان ہیں ۔ اور یہ افسانے تاریخی تناظر میں لکھے گئے۔

اس افسانے میں کئی ہندو مسلم کرداروں کے ساتھ خواتین کرداربھی دیکھائی دیتے ہیں ۔جن میں صدیق،اوم پرکاش، بیگم،زینب،شام کوراورپاروہیں۔ اوم پرکاش اور صدیق ہندو مسلم کردار ہیں ۔ ان میں کوئی کردار ایسا نہیں جس کے گرد کہانی گھومتی نظر آئے۔ ہر کردار اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔اور بعض کردار ہمیں مضبوط اعصاب کے مالک نظر آتے ہیں۔

ایک اور پہلو جو ہمیں اس افسانے میں دکھائی دیتا ہے۔وہ کرشن چندر کی خوبصورت منظر نگاری ہے۔ جو افسانے کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ اور اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہے۔انھوں نےاس انداز سےمنظر کشی کی کہ ان حالات کی تصویر ہماری آنکھو ں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ "امرتسر آزادی سے پہلے"اس کے علاوہ ان کا ایک اور افسانہ"پشاور ایکسپرس" میں بھی ہمیں منظر کشی نظر آتی ہے۔

جلیاں والا باغ میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے ۔جو ایک ہی جذبے کے تحت اکھٹے ہوئے،اوروہ تھا جذبہ آزادی۔ جب جلیاں والا باغ میں فساد شروع ہوتا ہے ۔صدیق اوراوم پرکاش جن کا آپس میں کوئی خونی رشتہ یا دوستی نہیں۔ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں۔ مگر ان میں محبت ،بھائی چارے کا رشتہ موجود ہے۔ جب گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ توصدیق ،اوم کی ڈھال بن جاتا ہے حالاں کہ وہ خود بھی زخمی ہوتاہے ۔لیکن وہ آخری سانس تک اس کے ساتھ رہتا ہے ۔او ردیوارکے اس پار آ کر دونوں دم توڑ جاتے ہیں۔

جب حالات ناسازگار ہوئے اور حاکم کا تسلط قائم ہوا۔عوام پر ظلم و ستم ڈھائے گئے۔انھیں سرکاری حکم کی پیروی کرنے کوکہا گیا۔جس سے انھوں نےانکار کیا۔اس کے بعد جوکچھ پارو،بیگم،زینب اور شام کور کے ساتھ ہوا وہ ایک سنگدل اور ظالم شخص ہی کر سکتا ہے۔انھیں حکم نہ ماننے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا۔
اگر ایک طرف دیکھیں تو ہمیں ان کی مظلومیت،جبر اور استحصال نظر آتا ہے۔دوسری جانب ان کی بہادری کہ وہ کس طرح اپنے ملک کی خاطر گوروں کے سامنے نڈر ہو کر کھڑی ہو گئیں۔ان کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا۔بظاہر ان کےمذاہب مختلف تھے مگر ان میں محبت کا جذبہ زندہ تھا۔ایک کے بعد ایک اپنی جان دیتی گئیں۔

مزید انھوں نے بتایا،امرتسر میں موجود ہندو،مسلم اور سکھ تینوں مذاہب الگ الگ تھے ۔مگر وہ آپس میں مل جل کر محبت سے رہتے تھے۔جس کی مثال:
پارو،بیگم، شام کور اور زینب ہیں۔جو اکھٹی ہو کر سبزی لینے جاتی۔اور گوردوارے کے آتے ہی اس کی تعظیم کیا کرتی۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔مختلف مذاہب،تہذیب و ثقافت ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے تہواروں کا احترام کیا کرتے۔خوشی غمی میں شریک ہوتے۔کوئی فرقہ ،تعصب اور نفرت موجود نہ تھی۔یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت ہوا۔جس کی خبر کسی کو کان و کان نہ ہوئی۔اور جب امرتسر تقسیم ہوا تو اس وقت لوگوں کو علم ہوا کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہو گیا۔

 

Ayesha Ambreen
About the Author: Ayesha Ambreen Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.