جونہی شعیب گھر میں داخل ہوا اور
امی کی اس پر نظر پڑی تو وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھیں کیونکہ اس کی بائیں
آنکھ کے کنارے پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرے کا بایاں حصہ سوج رہا تھا۔
“بیٹا! یہ کیا ہوا ہے؟ کیا تمہیں چوٹ لگی ہے یا کسی سے جھگڑا ہوا ہے؟“ امی
نے پوچھا۔
بارہ سالہ شعیب یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ امی اس کو ذرا سی بھی تکلیف
میں نہیں دیکھ سکتیں ۔ وہ بہت پریشان ہوجائیں گی کیونکہ وہ اکلوتا بیٹا تھا
اور اسی لئے والدین کا لاڈلا تھا لیکن اس لاڈ پیار نے اسے بگاڑا نہیں تھا ۔
وہ بہت تمیز دار اور سمجھدار بچہ تھا ۔ اس لئے اس نے ہنس کر امی سے کہا“کچھ
نہیں امی! آپ جانتی ہیں نا کہ آج ہماری ٹیم کا پچھلی گلی کی ٹیم سے کرکٹ
میچ تھا ۔ ویسے تو میں باؤلر ہوں لیکن آخری اوور میں جب سب کھلاڑی آؤٹ
ہوگئے تو گیارہویں نمبر پر مجھے بیٹنگ کے لئے جانا پڑا۔ ہمیں جیتنے کے لئے
صرف پانچ رنز درکار تھے ۔ میں نے جاتے ہی چوکا مارا ۔ صرف ایک رن لینے کے
لئے جیسے ہی میں نے شاٹ لگانے کی تیاری کی تو باؤلر نے مجھے باؤنسر مار دیا۔
میں نے بھاگ کر رن تو لے لیا اور الحمد اللہ ہماری ٹیم میچ جیت گئی لیکن
بال میری آنکھ کے کونے پر بہت زور سے لگی اور تیزی سے خون بہنے لگا ۔ وہیں
میدان کے سامنے ڈاکٹر منصور کا کلینک ہے۔ میری ٹیم کے کھلاڑی مجھے وہاں لے
گئے ۔ انہوں نے ٹانکا لگا کے پٹی کردی ۔ بس امی اتفاقاً میری آنکھ بچ گئی
ورنہ بال اتنی تیز تھی کہ شاید میری آنکھ ہی ضائع ہوجاتی۔“
امی نے ساری بات سن کر پہلے تو شعیب کو دوا پلائی جو ڈاکٹر منصور نے اسے دی
تھی ۔ پھر بستر پر آرام سے لٹا کر خود اس کے پاس بیٹھ گئیں اور آہستہ آہستہ
پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
“بےشک بیٹا! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تمہاری آنکھ بچ گئی لیکن یہ
اتفاقاً نہیں ہوا بلکہ اس مہربان اللہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے سے اسے
بچایا ہے کیونکہ ہماری آنکھ کی حفاظت کے لئے نو فرشتے مقرر ہیں جو دن رات
کی ہر گھڑی میں اس کی حفاظت کرتے ہیں اور ہر حادثے اور چوٹ سے اللہ کے حکم
سے اسے محفوظ رکھتے ہیں۔“
شعیب جو دوا کے اثر اور امی کے سر سہلانے کی وجہ سے غنودگی میں چلا گیا تھا
ایک دم اٹھ بیٹھا۔“کیا امی! یعنی ہماری صرف آنکھ کی حفاظت پر نو فرشتے مقرر
ہیں۔“ وہ حیرت سے بولا
“ہاں شوبی بیٹا۔“ امی نے مسکرا کر جواب دیا۔“یہ تو تم جانتے ہو نا کہ میں
تم سے کتنا پیار کرتی ہوں اور تمہیں ذرا سی بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی
اور ہر ممکن کوشش کرتی ہوں کہ تمہیں آرام پہنچاؤں ۔ تمہاری حفاظت کروں تو
اللہ تم سے اور اپنے ہر بندے سے ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے۔ سوچو!
جو صرف آنکھ کی حفاظت کے لئے نو فرشتے مقرر رکھتا ہے تو پھر ہماری حفاظت کے
لئے اس نے کتنے فرشتوں کو مامور کیا ہوگا ۔ اس لئے ہر تکلیف سے نجات کے لئے
صرف اللہ سے دعا کرنی چاہیے اور ہر دم اس کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ ہم
معمولی سے حادثے میں بھی نہیں بچ سکتے جب تک اللہ اور اس کے محکوم فرشتوں
کا ساتھ نہ ہو۔“ یہ سن کر شعیب بولا “جی امی! واقعی یہ اللہ کا احسان ہے کہ
اس نے میری آنکھ کی حفاظت کی ۔ اب میں انشا اللہ تندرست ہوتے ہی دو نفل
شکرانے کے ادا کروں گا۔“
ہاں شوبی بیٹا! ہمیں ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔“ امی نے شعیب
کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
مصنفہ رضوانہ خان!
میری یہ کہانی بچوں کے رسالے“ماہنامہ ساتھی“ میں اکتوبر دوہزار نو کو شائع
ہوئی تھی۔ |