جس دن سے اِس پیکر خاکی نے اِس جہان سنگ و خشت میں قدم
رکھا ہے اُس دن سے آج تک نفوس قدسیہ کو چھوڑ کر ہر انسان خود ستاشی اور
اپنی برتری کے لیے ہر قدم اٹھاتا آیا ہے ‘ اپنی برتری اور دوسروں پر تسلط
کے لیے وہ کو ئی بھی حرکت کر سکتا ہے یہاں تک کہ لاکھوں انسانوں کو موت کے
گھاٹ اتارنے سے گریز نہیں کر تا ‘ میں سب سے بہتر ہوں میرے جیسا کو ئی نہیں
میں سب سے نرالا ہوں میرے جیسا نہ کو ئی آیا اور نہ ہی کو ئی آئے گا ‘ دنیا
کے چپے چپے کے انسان کو پڑھ لیں پو ری تاریخ انسانی کو اٹھا لیں اپنی برتری
اور دوسروں پر حکمرانی کے لیے انسان کچھ بھی کرتا ہے لیکن جب ہم بزم تصوف
میں جھانکتے ہیں تو بہت سارے اسرار کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ
کو چہ تصوف میں انسان اپنی ساری اکڑ کروفر بر تری کو خا ک میں ملا کر کسی
انسان کے سامنے عاجز حقیر غلام بن کرکھڑا ہو جاتا ہے پھر یہ عاجز بندہ کسی
کی آنکھ کے اشارے پر جان ہتھیلی پر رکھ کر پیش کر دیتا ہے ۔اور اگر مد
مقابل کسی بات پر ناراض ہو جائے تو انگارو ں پر لوٹنا شروع کر دیتا ہے پھر
اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک ناراض کو منانہ لے یہ عاجزی حقیری
غلامی ہمیں وادی تصوف میں مرشد مرید کے تعلق میں واضح نظر آتی ہے جب راہ حق
کا مسافر طالب مرید اپنے مرشد کی خوشنودی کے لیے اپنی انا کے سارے خول توڑ
کر غلاموں کی طرح مرشد کے پاؤں سے لپٹا نظر آتا ہے اور اگر مرشد کسی بات پر
ناراض ہو جائے تو ہمالیہ جیسے دیو قامت پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کر نے کو
تیار ہو جاتا ہے کسی انسا ن کی انسان سے محبت سپردگی جانثاری کا نقطہ عروج
اگر آپ نے دیکھنا ہو یا جنون کی حد تک بے لوث محبت تو تاریخ تصوف میں مرشد
مرید کے تعلق کو دیکھیں حیران کن حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ جتنا مرید مرشد
کے عشق میں فنا ہوا جتنی غلامی اختیار کی اتنی ہی اُس کی روحانی ترقی حاصل
ہو ئی بلکہ تاریخ تصوف کے تمام اولیا ء کرام کے تذکرے آپ اٹھا لیں ایک بھی
بے ادب نافرمان آپ کو نظر نہیں آئے گا بلکہ عقیدت سپردگی اطاعت کاآخری درجہ
بلکہ خدا رسول ﷺ کے بعد مرشد ہی سب رشتوں پر بھاری نظر آتا ہے جو عقیدت میں
آخری حدوں سے گزر گیا وہ اتنا ہی اعلیٰ مقام بھی پاگیا اور یہ سچ بھی ہے کہ
مرشد کے علاوہ دوسرا بڑے سے بڑا بزرگ بھی آنکھوں کو اتنا نہیں بھاتاجتنا
اپنا مرشد بھا تا ہے مرشد ہی سب سے پہلے سب سے اول سب سے پیارا ‘ اِسی جذبے
میں مرید سالک کی روحانی ترقی نقطہ کمال تک پہنچ جاتی ہے مرید کا اپنے مرشد
سے لازوال عشق ادب و احترام کا لازوال واقعہ تاریخ تصوف کے اوراق میں بابا
فریدؒ کا اپنے مرشد کریم خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے عشق بھی ملتا ہے
جو تاریخ کے اوراق پر نقش ہو کر ر ہ گیا جب نوجوان بابا فرید ؒ اپنے مرشد
اور والدہ ماجدہ کے حکم پر دنیا جہاں کے علمی مراکز اور روحانی خانقاہوں سے
علمی روحانی پیاس بجھانے کے بعد کئی سالوں بعد واپس ماں کے پاس آتے ہیں تو
پھر دہلی میں اپنے مرشد جناب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ سے ملنے جاتے
ہیں ملتان سے دہلی کے طویل سفر پر روانہ ہو تا ہے تو دل بے قرار دھڑکنیں بے
ترتیب پتہ نہیں یہ سفر کب ختم ہو گا پتہ نہیں میں مرشد کریم کے قدموں سے
لپٹ پاؤں گا کہ نہیں یا پھر طویل راستے کی مسافت جان لے لیگی پھر طویل سفر
کے بعد جب جوان بابا فریدؒ دہلی میں داخل ہو تا ہے تو محبوب مرشد سے ملاقات
کے لیے بے قراری اور بھی بڑھ جاتی ہے لوگوں سے بار بار پو چھتا ہے خواجہ
قطب ؒ کی خانقاہ کدھر ہے چند قدم چل کر پھر کسی سے پو چھتا ہے میرے آقا کا
آستانہ عالیہ کدھر ہے تو لوگ عشق سوختہ کی حالت زار دیکھ کر اشارے سے بتاتے
کہ جس شہشاہ روحانیت کا تم پتہ پو چھ رہے ہو وہ اُس طرف ہے آخر کا ر جب مزل
قریب آگئی تو کسی نے کہا جس کا تم پو چھ رہے ہو وہ شہنشاہ ِ دہلی کا حقیقی
سلطان خواجہ قطب ؒ کا روحانی دربار وہ سامنے ہے جیسے ہی خانقاہ کے دروازے
پر پہنچا تو جذبات کی شدت اور منزل اتنی قریب کا احساس ہو تے ہی حالت غیر
ہو گئی ہوش و حواس جاتے رہے وصال کی بے خودی نے جسم کے انگ انگ میں حشر
برپا کر دیا اور کچھ نہ سمجھ آئی تو درِ محبوب پر سر جھکا کر نوجوان فرید ؒ
کھڑا ہو گیا کھڑے ہو نے کا انداز غلاموں جیسا تھا جیسے غلام اپنے شہنشاہ کی
دید کے لیے غلاموں کی طرح سر جھکائے کھڑا ہو ‘ کا فی دیر بعد جب حواس
سنبھلے تو لرزتے کانپتے قدموں کے ساتھ خانقاہ کے اندر داخل ہو ا سلطان
روحانیت دلوں کا حقیقی راجہ شہنشاہِ روحانیت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ
کی مجلس روحانی نقطہ عروج پر تھی جس میں حضر ت برہان الدین بلخی ‘ ؒ حضرت
نور الدین غزنوی ؒ ‘ حضرت شیخ نظام الدین ؒ ‘حضرت ضیاء الدین رومیؒ قاضی
حمید الدین ناگوری ؒ مولانا شمیم الدین ترک ؒ حضرت علاؤ الدین کرمانیؒ حضرت
خواجہ محمود ؒ جیسے قدآور بڑے اعلیٰ پائے کے بزرگ شریک تھے خواجہ قطب الدین
بختیار کاکی ؒ کے منہ سے علم و معرفت کا آبشار ابل رہا تھا حاضرین مجلس
اپنی پیاس کو بجھا رہے تھے جب جوان بابا فرید ؒ اندر داخل ہو ئے تو خواجہ
قطب الدین بختیار کاکی ؒ نے ایک نظر بابا فرید ؒ کو دیکھا پھر اپنے وعظ میں
مشغول ہو گئے مرشد کی آنکھ میں آشنائی کی روشنی نہ چمکتی دیکھ کر نوجوان
فرید ؒ کے دل و دماغ میں بھونچال سا آگیا کہ مرشد نے تو اُسے پہچانا ہی
نہیں وہ مرشد جس کے ایک حکم پر گھر بار چھوڑ کر جنگلوں بیا بانوں ریگستانوں
صحراؤں میں کئی سال ننگے پاؤں چلا ایک درسے دوسرے در تک پھرتا رہا کیا میں
اِس قابل نہیں ہوں کہ مرشد یاد رکھیں کیا میں مرشد کی محفل میں شامل ہو نے
کے قابل نہیں ہوں جوان فریدؒ اِس قسم کے وسوسو ں میں گھرتے جا رہے تھے اِسی
دوران محفل میں شریک ایک بزرگ نے آپ کو کھڑا دیکھا تو اشارے سے بیٹھ جانے
کا حکم دیا لیکن نوجوان فرید ؒ کی نظریں تو خواجہ قطب ؒ کے روشن چہرے پر
جمی ہو ئی تھیں اُس چہرے کو بابا فریدؒ بت کا بت بنے دیکھی جا رہا تھا طرح
طرح کے خیالوں سے روح زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہی تھی کہ مرشد کو اپنا
تعارف کس طرح کراؤں کہ میں کون ہوں آپ ؒ کاخادم وہی طالب جس کو آپ ؒ ملتان
کی مسجد میں ملے تھے جس کو آپؒ نے اپنی غلامی میں لے لیا تھا پھر آپ نے ہی
تو حکم دیا تھا کہ ظاہری تعلیم حاصل کرکے میرے پاس دہلی آنا تا کہ تمہارا
روحانی سفر شروع کراسکوں لیکن پھر یہ اندیشہ دماغ میں ابھرا کہ اگر مرشد نے
پھر بھی پہچاننے سے انکار کر دیا تو میری تو دنیا میں ہی قیامت آجائے گی
میرا سرمایہ حیات تو لٹ جائے گا کیونکہ اگر مرشد نے نہ پہچانا تو پھرتو یہ
زندگی ہی بے کار اور دوزخ بن جائے گی اِ س خیال کے ساتھ ہی جوان فرید بید
مجنوں کی طرح لرزنے لگے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آنے لگا جیسے سمندر کی
تلاطم خیز موجوں میں ڈوبنے لگا ہوں لیکن پھر بے جان مردے میں جان پڑی جب
خواجہ قطب کی شیریں آواز گونجی بابا فرید سب کام ختم کر آئے ہو یہ آواز کیا
تھی نوید حیات تھی مردے میں جان پڑ گئی مرشد کی زبان سے بابا فرید کا سننا
ایسے تھا جیسے ساری کائنات مل گئی ہو جنت زمین پر آگئی ہو ساری دنیا کے
خزانوں کا مالک بن گیا ہو ۔ مرشدکی زبان سے بابا فرید کے نام نکلنے کی دیر
تھی کہ بابا فرید لوگوں کی پروا سے بے خبر دوڑتے ہو ئے گئے اور جاکر خواجہ
قطب کے قدموں سے لپٹ گئے زاروقطار رونے لگے بولے شہنشاہ اے میرے مالک اگر
آپ مجھے نہ پہنچاتے تو میری زندگی تو اندھیروں میں ڈوب جاتی بابا فریدؒ
اپنے مرشد کے قدموں کو چومتے جاتے روتے جاتے اور بار بار ایک ہی بات کہ آپ
نے مجھے پہچان لیا میں امر ہوگیا میری زندگی آپ کے قدموں پر نثار مجھے اپنی
غلامی میں لے لیں میرے گلے میں اپنا طوق ڈال دیں مجھے اپنی مریدی میں لے
لیں خواجہ قطب ؒ نے بابا فریدؒ کو اتھا کر گلے سے لگا لیا اور کہاآج سے تم
میرے بابا فرید ؒ ہو ۔
|