اخلاق مصطفی ﷺ

 آپ ﷺ کی بعثت تمام انسانیت پر اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔جس کا مقصد انسانوں کو اﷲ تعالیٰ کی عبادت کے طریقے سیکھانا اور ان کے اخلاق و قردار کو سنوارنا تھا جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا ''میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ عمدہ اخلاق کی تکمیل کروں '' رسول اﷲ ﷺ خود بھی اعلیٰ اخلاق کے مرتبے پر فائز تھے جس کی گواہی خود خالق کائنات نے دی ہے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور بے شک آپ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں. (القلم:4)

آپﷺ اخلاق کی جامع اور مکمل تصویر ہیں۔آپﷺ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔رسول اﷲ ﷺجمال خلقت اور کمال اخلاقی میں سب سے نمایاں اور بلند و بالا تھے آپ کے اخلاق پر بے شمار احادیث ملتی ہیں یہاں ان کے معنی و مطالب کا مختصر خلاصہ پیش کر رہی ہوں۔آپ ﷺکے چہرے پر ہمیشہ بشاشت ہوتی تھی سہل خو اور نرم پہلو تھے,جفا جو اور سخت خو نہ تھے بازاروں میں اونچی آواز نہ لگاتے تھے سب سے زیادہ تبسم فرماتے تھے غصے سے سب سے زیادہ دور اور رضا میں سب سے آگے ،دو کاموں میں سے جو زیادہ آسان ہوتا اسی کو اپناتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہو،اگر گناہ کا کام ہوتا تو پھر سب سے زیادہ دور ہوتے ،آپ نے کبھی اپنی ذات کے لیے انتقام نہ لیا, آپﷺ سب سے سخی, سب سے کریم, سب سے بہادر, سب سے شہ زور, اذیت پر سب سے بڑھ کر صبر کرنے والے,سب سے زیادہ باوقار اور سب سے بڑھ کر حیا دار تھے کوئی چیز نہ پسند فرماتے تو چہرے پر اس کے آثار دیکھے جاتے آپ اپنی نظر کسی کے چہرے پر نہ جماتے اور نہ نا پسندیدگی کے ساتھ کسی کا سامنا کرتے اور نہ ہی کبھی کسی کو دیکھ کر ماتھے پر بل لاتے سب سے زیادہ عادل, پاک نفس,پاک دامن,سچائی کے علم بردار اور بڑے امانت دار تھے نبوت سے پہلے ہی امین کے لقب سے مشہور تھے. سب سے زیادہ متواضع اور تکبر سے دور تھے سب سے بڑھ کر عہد کے پاس دار تھے صلہ رحمی کرنے والے تھے سب سے عظیم و شفقت ورحمت والے تھے سب سے عمدہ معاشرت و ادب والے,سب سے زیادہ کشادہ اخلاق تھے ملامت سے سب سے زیادہ دور, جنازوں میں تشریف لے جاتے, فقراء اور مساکین کے ساتھ بیٹھتے, غلام کی دعوت قبول کرتے,کھانے اور لباس میں ان پر برتری نہ اختیار فرماتے. جو آپ کی خدمت کرتا آپ خود اس کی خدمت فرماتے اپنے خادم کو عتاب نہ کرتے یہاں تک کہ کبھی اسے اف تک نہ کہا آپ کی زندگی کا ایک ایک پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہے.آپ کا اپنے صحابہ کے ساتھ بھی بہت عمدہ اخلاق ہوتا تھا.

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ اگر کوئی شخص حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کان میں کوئی سرگوشی کی بات کرتا تو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اس وقت تک اپنا سر اس کے منہ سے الگ نہ فرماتے جب تک وہ کان میں کچھ کہتا رہتا اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں کبھی پاؤں پھیلا کر نہیں بیٹھتے تھے اور جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے آتا آپ ﷺسلام کرنے میں پہل کرتے اور ملاقاتیوں سے مصافحہ فرماتے اور اکثر اوقات اپنے پاس آنے والے ملاقاتیوں کے لئے آپ صلی ااﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی چادر مبارک بچھا دیتے اور اپنی مسند بھی پیش کر دیتے اور اپنے اصحاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو ان کی کنیتوں اور اچھے ناموں سے پکارتے کبھی کسی بات کرنے والے کی بات کو کاٹتے نہیں تھے۔

ہر شخص سے خوش روئی کے ساتھ مسکرا کر ملاقات فرماتے، مدینہ کے خدام اور نوکر چاکر برتنوں میں صبح کو پانی لے کر آتے تا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ان کے برتنوں میں دست مبارک ڈبو دیں اور پانی متبرک ہو جائے توسخت جاڑے کے موسم میں بھی صبح کو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہر ایک کے برتن میں اپنا مقدس ہاتھ ڈال دیا کرتے تھے اور جاڑے کی سردی کے باوجود کسی کو محروم نہیں فرماتے تھے۔

آج تقریباً چودہ سو برس گزر جانے کے بعد دشمنان رسول کی کیا مجال کہ آپ صلی ا? تعالیٰ علیہ وسلم کو بد اخلاق کہہ سکیں اس وقت جب کہ آپ صلی ااﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے مجمعوں میں اپنے عملی کردار کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ خداوند قدوس نے قرآن میں اعلان فرمایا کہ (اے حبیبﷺ) خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں بداخلاق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔(آلِ عمران)

آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بہت ہی بلند اخلاق، نرم خو اوررحیم و کریم ہیں۔حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم محاسن اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔
 

Malika Mubeen
About the Author: Malika Mubeen Read More Articles by Malika Mubeen: 2 Articles with 3109 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.