اِس وقت پُوری دُنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ممالک
میں اسلامو فوبیا کی لہر شدت اختیار کرتی جارہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ
ناروا، بیجااور امتیازی سلوک،اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات
ومقامات کی توہین اور اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے واقعات آئے دن کے معمول
بنتے جارہے ہیں۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے برطانیہ کے
ایک ادارے رنیمیڈ ٹرسٹ نے کیا۔ ۱۹۹۷ میں اس ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی جس
کا عنوان تھا: اسلامو فوبیا سب کے لیے ایک چیلنج۔
اسلامو فوبیا مغرب میں کوئی نیا رجحان نہیں ہے، عرصہ سے چلا آرہا ہے، تاہم
11/9 کا واقعہ کے بعد اس میں اضافہ ہوا ہے، اسلامو فوبیا کا شکا ر شخص اس
واہم کا اسیر ہوجاتاہے کہ تمام مسلمان یا بیشتر مسلمان مذہبی جنون کی وجہ
سے غیر مسلموں سے جارحانہ رویہ رکھتے ہیں، اور یقین رکھتے ہیں کہ اسلام
رواداری، مساوات اورجمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتاہے، برطانیہ کے ایک
ادارہ runnymadeنے ۱۹۹۷ ء میں ایک دستاویز”islamophobia:a challeng for us
all“اسلاموفوبیا، ہم سب کے لئے ایک چیلنج کے عنوان سے جاری کیا تھا، جس میں
اسلاموفوبیاکی تعریف متعین کرتے ہوئے اس کے آٹھ نکات بتائے گئے تھے، اور اس
تعریف کی آج وسیع پیمانے پر بشمول”european monitorang centre on racism
and xenophobia“ تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس نے 2004میں ایک فالو اپ
رپورٹ بعنوان ”اسلامو فوبیا ایشوز، چیلنجس اور ایکشن“شائع کیا، اس تعریف کے
جوآٹھ اجزاء ہیں وہ درجِ ذیل ہیں (۱)اسلام کو وہ ایک موحد، جامد اور تبدیلی
مخالف مذہب تصور کرتے ہیں (۲)اسلام کو ایک علیحدہ اور منفرد مذہب سمجھتے
ہیں جس میں مشترک تہذیبی قدریں نہیں ہیں، جس میں دوسروں کے اثرات قبول کرنے
کی صلاحیت نہیں ہے(۳)اسلام”تہذیبوں کے تصادم“کے نظریہ پر عمل پیرا ہے، جو
پر تشدد، جارہانہ، اور دہشت گردی کو شہ دیتا ہے، (۴)اسلام کو مغرب کے
مقابلہ میں کمتر تصور کرتے ہیں، اسے غیر عقلی، جاہلانہ اور شہوت زدہ
گردانتے ہیں (۵)اسلام کو ایک سیاسی نظریہ تصور کرتے ہیں، جو سیاسی یا فوجی
فائدے کیلئے استعمال کیا جاتاہے(۶)اسلام پر مغرب کی تنقید کو بغیر کسی حجت
کے مسترد کردیاجاتاہے(۷)اسلام کے خلاف معاندانہ ومخاصمانہ رویہ کو مسلمانوں
کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں معاشرہ سے الگ تھلگ رکھنے کے لئے بطور
ِجواز استعمال کیا جاتاہے(۸)مسلمانوں کے خلاف مخاصمت کو قدرتی یا معمول کا
رد عمل قرار دیا جاتا ہے، علاوہ ازیں اس اسلاموفوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کو
درپیش مشکلات اور حقیقی مسائل کا احاطہ مبسوط انداز میں کیا گیاہے۔
اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جس کا
مقصد اسلام کی رسوائی‘مسلمانوں کو ذلت وپستی کے کنویں میں دھکیلنا ہے، اور
عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کو مسلم مخالف مہم اور عمل کی شکل میں دیکھا
جاسکتا ہے، واضح طورپرنقصان مسلمانوں کا ہی ہورہا ہے لیکن بنیادی سطح پر اس
کے حمایتی خود بھی خسارہ میں ہیں، اسلاموفوبیا محض اسلام اور مسلمانوں کے
خلاف تعصب اور نفرت کا نام نہیں یا یہ صرف ان کی مخالفت میں تشدد اور غیر
مناسب اشتہار بھی نہیں ہے بلکہ اسلاموفوبیا کا مقصدمسلمان فرد، قوم، اسلام
اور اس کی تہذیب کو مختلف حلقوں میں پست کرنا ہے، اور ان میں معمولی طاقت
ابھرنے سے بھی محروم کرنا ہے، اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جو امریکہ اور
یوروپ کے بیشتر ممالک میں روزبروزبرق رفتاری سے پھیل رہی ہے۔ اسلاموفوبیاکے
تحت سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، علمی، اورمذہبی ہر اعتبارسے اسلام اورمسلمانوں
کے خلاف زہر اگلاجارہاہے، اسی لئے تمام سیاسی حالات، بحران، تشددوتعصب،
انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت گری وغیرہ اسلامو فوبیا کی عکاسی کرتے
ہیں۔
بیسویں صدی میں لاکھوں مسلمان فرانس‘ برطانیہ‘ امریکا‘ جرمنی‘ اٹلی‘
ہالینڈ‘ اسپین‘ آسٹریلیا‘ سوئٹزر لینڈ‘ سویڈن‘ آسٹریا‘ ڈنمارک اور ناروے
پہنچے اور وہاں مقیم ہو گئے۔مغرب میں مقیم ہونے والے جن مسلمانوں نے روزمرہ
زندگی میں اسلامی روایات کو برقرار رکھا‘ انہیں طنزو تشنیع کا سامنا کرنا
پڑا۔ تاہم بیشتر مغربی معاشروں میں نفرت و شر سے بھرے ایسے لوگوں کی تعداد
آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
لیکن اسلام مخالف اقدامات سے ان مغربی ممالک میں مسلمانوں اور مغربیوں کے
مابین تصادم جنم لے رہا جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں جیسے امریکا،
برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، یونان، کینیڈا، آسٹریا، سویڈن وغیرہ۔ یہ
صورت حال ان ممالک میں مزید بے چینی و ابتری پیدا کرسکتی ہے۔
دنیائے مغرب میں متنازع بن جانے کے باوجوداسلام وہاں سب سے زیادہ تیزی سے
پھیلتا مذہب ہے۔ 2011ء میں امریکی تنظیم، پیو ریسرچ سینٹر نے تحقیق کے بعد
انکشاف کیا تھا کہ 2030ء تک کئی مغربی ممالک میں مسلم آبادی دگنی ہوجائے
گی۔امریکا میں مسلمانوں کی آبادی 30لاکھ بتائی گئی جو 2030ء تک بڑھ کر
60لاکھ20ہزار تک پہنچ جائے گی۔شمالی امریکا میں 1990سے2010ء تک مسلمانوں کی
آبادی میں 91فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد
10لاکھ80ہزار سے بڑھ کر30لاکھ 50ہزار تک پہنچ گئی جب کہ آنے والے بیس سالوں
میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80لاکھ 90ہزار ہونے کا امکان
ہے۔برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی20لاکھ 30ہزار سے بڑھ کر50لاکھ 60ہزار اور
فرانس میں 40لاکھ 70ہزار سے بڑھ کر60لاکھ 90ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جب
کہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کھتولک چرچ سے زائد ہے۔
2010ء تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی5کروڑ کے قریب تھی جو 2030ء تک بڑھ
کر6کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔فورم آن ریلجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک
امریکی ادارے کی جانب سے بین المذاہب شرح آبادی کا ایک سروے کے مطابق 2030ء
میں جب دُنیا کی آبادی تقریبا8ارب3کروڑ سے تجاوز کر جائے گی تو اُس وقت
دُنیا میں مسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوجائے گی۔
اسلام کی روزافزوں مقبولیت اور مسلمانوں کی بڑھتی تعداد بھی قدامت پسند
مغربی رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہ یورپ کا دوسرا بڑا مذہب تو بن ہی
چکا۔
اسلام فوبیا کی بنیادی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ غیر مسلموں کا اسلام میں
داخل ہونا اور مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ انگلستان اور ولیز
میں مردم شماری کے تجزیئے کے مطابق پانچ سال تک کی عمر کے ہر دس بچوں میں
سے ایک مسلمان ہے، قومی اعداد و شمار کے دفتر کے مطابق ساڑھے چار سال تک کی
عمر کے کل ساڑھے تین ملین بچوں میں سے تقریبا تین لاکھ بیس ہزار بچے مسلمان
ہیں، مسلمان بچوں کی شرح 9فیصدی ہے، اوکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ کو
لیمن کے اعداد و شمار کے مطابق عرصہ دراز سے انگلستان مسلمانوں کو پناہ دے
رہا ہے، پہلے یہاں پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان سے مسلمان آیا کرتے تھے
لیکن اب افریقی ممالک اور مشرق وسطی سے بھی مسلمان انگلستان کا رخ کر رہے
ہیں۔
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے دُنیا سمٹ گئی ہے اور انسانوں کا آپس
میں رابطہ اور حال احوال بہت سہل ہوگیا ہے۔
دُنیا کو اب یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں
ہوتا چند افراد کے عمل کو پوری قوم یا مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں ہے،
دہشتگردی کے پیچھے کوئی ملک یا مذہب نہیں ہوتا بلکہ چند مخصوص لوگ ہوتے ہیں
جو ملک و قوم کے لیے ناسور ہوتے ہیں۔ دُنیا کو متحد ہوکر کسی مذہب نہیں
بلکہ دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہو گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی سطح
پر اس مسئلے کو علاقائی، نسلی اور مذہبی رنگ دیے بغیر حل کیا جائے،اور ہمیں
اپنے قول و فعل ٗ اخلاق ٗ اسلام اعلیٰ اقدار سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام
سراپا ِ سلامتی ہے۔وہ دین جو جانوروں کے حقوق کا بھی محافظ ہے۔ اسلام محبت
کا نام ہے۔
|