منافقین سے چھٹکارا

میر بھی کیا سادہ ہیں کہ بیمار پڑے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

دو پاکستانیوں کے قاتل، امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا بار کس کی گردن پر ڈالا جائے؟ صوبائی حکومت، وفاقی حکومت، عدالتی فیصلہ، فوج اور خفیہ ادارے؟

اس سوال کا جواب مختلف حلقے مختلف اداروں کو نامزد کر کے دے رہے ہیں اور سب میں سچائی بھی موجود ہے کہ ان تمام اداروں کا اس میں اپنا اپنا موثر کردار شامل ہے۔ اور اس رہائی کو”پر اسرار“ یا ”غیر متوقع“ کہنا ہماری خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ جب ہماری حکومت اور فوج کی امداد کے لئے ایک غیر معمولی امدادی رقم امریکہ ہی فراہم کرتا ہے اور ہمارے ارباب اقتدار اس بھیک پر فخریہ اعترافات بھی کرتے ہوں تو کیا اس صورت حال میں یہ ممکن تھا کہ ایک ریمنڈ کے بدلے پورے ملک کو گروی رکھ دیا جاتا؟ اور امریکی امداد بند کرا کے پاکستان جیسے عظیم ملک کو دشمن کے لئے تر نوالہ بنا دیا جاتا۔ یہ تو چند محدود سوچ کے حامل بے وقوف لوگ ہیں جو”قومی غیرت، ملی غیرت“ یا”اسلامی غیرت“ جیسے جذباتی قصے چھیڑ دیتے ہیں۔ یہ تنگ نظر ہیں، پست ذہن ہیں، گلوبل ویلج کے تقاضوں سے سراسر ناآشنا، بے وقوف جذباتیے، قوم کی تباہی و بربادی کی طرف لیجانے والے کم عقل، اور اب ریمنڈ کی رہائی پر سیخ پا کر ہو کر جل بھن رہے ہیں، لیکن نہ پہلے ان سے کچھ ہوا نہ آگے ہو گا یہ اس طرح ناکام ہوتے رہیں گے۔

قارئین کرام! یہ جذبات ہیں ان لوگوں کے جو ہمارے ہی دھرتی پر موجود ہیں، اسی ملک کا کھاتے ہیں، اپنے آپ کو دنیاوی مفادات کے لئے ضرورت پڑنے پر، سچا و پکا مسلمان کہلانے کا دعویٰ بھی کر ڈالتے ہیں، لیکن کیسے عجیب بد باطن ہیں، جو کافروں کی تکلیف پر بے چین اور فکر مند ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کی خوشی انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتی، جس دن سے ریمنڈ گرفتار ہو ا یہ کافروں کے نمک حلال بے چین تھے، ان کی نیندیں اڑ چکی تھیں، اور اس سوچ میں غلطاں تھے کہ کس طرح اس مجرم کو رہا کروا کر اپنی وفادارانہ غلامی پر ایک اور مہر ثبت کرائی جائے اور اس گرفتاری پر پاکستانی عوام جس قدر خوش تھی، یہ خوشی انہیں لمحہ بہ لمحہ آگ کے انگاروں پر لوٹ پوٹ کر رہی تھی اور موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح ان کی خوشیوں پر پانی پھیرا جائے اور پھر ان سے بدلہ لیا جائے۔ اسی لئے اب ریمنڈ کی رہائی کے بعد ان کی گز گز زبانیں اور نفاق زدہ قلم پوری آب وتاب سے خوشی کے شادیانے بجانے اور پاکستانی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے میں اپنی توانیاں صرف کر رہے ہیں۔

میرے نزدیک ریمنڈ کی رہائی اس قدر اہم نہیں بلکہ اصل معاملہ پوری قوم کا وہ کردار اور وہ فیصلہ ہے جس کی بدولت یہ غلامان امریکہ ہمارے سروں پر مسلط ہوئے اور پھر اس کی نمک حلالی میں تمام اختیارات بروئے کار لاتے ہیں تو کیا اب بھی پاکستانی قوم یہ سوچنے پر آمادہ نہیں ہے کہ وہ کن لوگوں کو ملک و ملت کا نجات دہندہ سمجھ کر انہیں لیڈر منتخب کرتی ہے؟ وہ جو ملک و ملت سے کسی طور وفادار نہیں، جو اسلامی روایات واقدار سے نہ صرف جاہل بلکہ ان کے دشمن ہیں، جو منافقت کے ماحول میں پروان چڑھے اور یہی منافقت ان کی کل کائنات ہے۔ہم نے انہی کو اپنی سربراہی کے لئے منتخب کیا اور اب ان کے فیصلوں پر پریشان ہونا چہ معنی دارد؟

ہمیں سب سے اول یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم نے اپنے کردار اور طرز عمل سے سرچشمہ ہدایت قرآن مجید کو پس پشت ڈال دیا ہے اور مرکز نور وسعادت مدینہ طیبہ سے اپنا رشتہ کاٹ لیا ہے اور جب تک ہم ان دونوں مراکز سے اپنا مضبوط، مخلصانہ، اور کردار وعمل کی سچائی سے رنگ بھرا رشتہ بحال نہیں کرتے تب تک ہم اس نوع کے اور دیگر تباہ کن حادثات کا سامنا کرتے رہیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم کو میرے سمیت، اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرنے، تمام گناہوں کو چھوڑنے اور اس پر نادم ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑانے، آنسو بہانے اور رو رو کر اس کو منانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب کوئی قوم مجموعی حیثیت سے اپنے رب کو ناراض کر دے تو پھر خاص اور مقبول بندوں کی دعائیں بھی ان کے حق میں قبول نہیں ہوتیں۔ حضرت انسؓ سے روایت کردہ ایک حدیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے، فرمایا:”لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ مومن، عام لوگوں کے لئے دعا کرے گا تو قبول نہیں ہوگی، حق تعالیٰ شانہ فرمائیں گے تو اپنی ذات کے لئے اور ذاتی ضروریات کے لئے دعا کر، میں سنوں گا، مگر عام لوگوں کے لئے نہیں، کیونکہ انہوں نے مجھے ناراض کر لیا ہے۔“ اب توبہ و استغفار کی جہاں ایک شکل تو یہ ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کی دربار میں ندامت و سرشاری سے معافی مانگیں وہیں اس توبہ کا اہم حصہ یہ بھی ہے کہ ہم ان منافقین سے اپنا دامن چھڑائیں جو کافروں کی یاری اور دوستی میں ہمارا سب کچھ داؤ پر لگا رہے ہیں۔ جو ہمیں، یہ سبق پڑھاتے ہی کہ کافر ہمارے خیر خواہ ہیں حالانکہ قرآن کریم نے ہمیں صاف صاف ہدایات دی ہیں اور بتلایا ہے کہ کافر تمہارے خیرخواہ تو دور کی بات تمہارے ایسے دشمن ہیں کہ اگر تمہیں خیر اور بھلائی پہنچے تو اس پر سیخ پا ہوتے ہیں اور اگر پریشانی پہنچے تو شادیانے بجاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے ذیل میں کافروں اور منافقوں کی یہی بری خصلت اور قرآن کریم ہی کے الفاظ میں اس سے نجات کا راستہ۔

اﷲ تعالیٰ نے ان منافقوں کا حال ان الفاظ میںبیان کیا ہے۔
”ترجمہ: تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے۔ اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔“(التوبہ:۰۵)

جب کسی نیک اور مومن پر مشکل آجائے تو منافق اس خبر کو پھیلاتا بھی پھرے گا اور ظاہر یہ کرے گا کہ اسے اس حادثے سے بہت تکلیف پہنچی ہے اور کہے گا کہ بس اﷲ ہی مدد کر لے کہ فلاں پر اس طرح مشکل پڑ گئی ہے، اﷲ تعالیٰ ہمیں اور اس کو صبر دے۔ حالانکہ اندر سے اس کا دل خوشی سے پھول رہا ہوتا ہے۔ اگر مسلمانوں کو خوشی نصیب ہو تو سخت غصے اور جھنجلاہٹ میں ہوگا اور اس خوشی کے موقع پر اس کا دل تنگ ہو رہا گا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ چلو ہم نے پہلے سے اس مصیبت سے بچاؤ کا راستہ بنا لیا یعنی کافروں سے دوستی گانٹھ لی اور ان کے شر سے بچ گئے حالانکہ یہ بے وقوف منافق اس حقیقت سے غافل ہیں کہ آخرت کا عذاب بہت سخت ہے۔

بالکل یہی طرز عمل قرآن نے کافروں کا بتلایا ہے ۔فتح الجواد سے متعلقہ آیت کا ترجمہ اور چند ضروری اقتباسات ملاحظہ کریں:
”ترجمہ: اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں بری لگتی ہے اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچے تو اس سے خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کے فریب سے تمہارا کچھ نہ بگڑے گا۔بے شک اﷲ تعالیٰ ان کے اعمال پر احاطہ کرنے والا ہے۔(ال عمران:۰۲۱)

خلاصہ:یہ لوگ تم سے اس قدر بغض اور عداوت رکھتے ہیں کہ جب بھی تمہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو یہ تکلیف میں جلنے لگتے ہیں اور اگر تمہارا کچھ نقصان ہوتا ہے تو یہ خوشیاں مناتے ہیں۔ اب ایسے شریر لوگوں اورب دخواہ دشمنوں کے شر سے بچنے کایہ طریقہ نہیں ہے کہ تم ان سے یاری اور دوستی کر لو بلکہ ان سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دین اور نظریات پر مضبوطی سے ڈٹے رہو۔ اور اﷲ پاک کی نافرمانی سے بچ کر اسکی نصرت کو اپنے ساتھ لو۔ یہ جتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں اﷲ تعالیٰ سے نہیں چھپ سکتے۔

(۱) ممکن تھا کہ کسی کو یہ خیال گزرے کہ جب ہم ان سے دوستانہ تعلقات نہ رکھیں گے تو وہ زیادہ غیظ وغضب میں آکر ہمارے خلاف تدبیریں کریں گے اور بیش ازبیش ( یعنی زیادہ سے زیادہ ) نقصان پہنچانا چاہیں گے۔ اس کا جواب دیا کہ تم صبرواستقلال اور تقویٰ وطہارت پر ٹھیک ٹھیک قائم رہو گے تو ان کا کوئی داؤ فریب تم پر کار گر نہ ہوگا، جو کاروائیاں وہ کرتے ہیں سب خدا کے علم میں ہیں اور اس کو ہر وقت قدرت حاصل ہے کہ ان کا تاروپود بکھیر دے تم اپنا معاملہ خدا سے صاف رکھو پھر تمہارے راستہ سے سارے کانٹے صاف کر دئیے جائیں گے ( تفسیر عثمانی)

(۲) تم اپنے قصے مقاتلہ کفار ( یعنی کفار کے خلاف جہاد کو) یا د کر لو جہاں صبر تقویٰ پورا پورا کیا جیسے بدر وہاں کیدک فار ( یعنی کفار کی سازشوں اور تدبیروں ) سے کچھ ضرر نہ پہنچا اور جہاں اس میں کسی قدر کمی آگئی وہاں ضرر (نقصان ) ہوگیا جیسے ا حد میں مغلوب ہوگئے پھر حمراءالاسد میں باوجودیکہ واقعہ احد سے تازہ زخم خوردہ تھے لیکن استقلال وتقویٰ سے کام لیا پھر کامیاب ہوئے اس سے ( آیت میں مذکور ) مضمون بالا کی پوری تائید ہوگئی۔ ( بےان القرآن)

دنیا بھر کے کافروں سے حفاظت کا قرآنی نسخہ”استقلال اور تقویٰ “ یعنی ایمان وجہاد پر مضبوطی اور کافروں کی یاری سے پرہیز پر مشتمل ہے۔ کاش امت مسلمہ اسے سمجھے اور اپنی حفاظت اور ترقی کے رسوا کن منصوبوں کو چھوڑ کر اس قرآنی نسخے پر عمل کرے۔ جس نسخے پر عمل کی برکت سے اسلام ہم تک پہنچا ہے“۔

اور ہاں اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہی عطار کے لونڈوں سے دوائی لینی ہے یا کسی مرد خدا کے دامن سے وابستہ ہونا ہے۔ جو خود بھی ایمان اور جہاد پر ثابت قدم ہو اور اپنے وابستگان کو بھی اسی روشن شاہراہ پر لئے کامیابی و سرفرازی کی طرف گامزن ہو؟

فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے!
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343799 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.