مولانا مفتی محمد منصور احمد
امریکہ میں ایک ملعون پادری ٹیری جونز نے ﴿نعوذ باللہ تعالیٰ﴾ قرآن مجید کو
بھرے مجمع میں نذرِ آتش کر دیا اور ایسی روح فرسا باتیں کیں ‘ جنہیں سن کر
اور پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ پھر صلیبی ممالک کی طرف سے قرآن مقدس کی
توہین کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔ افغانستان کے شبر غان جیل ‘ عراق کے
ابو غریب جیل اور کیوبا کے گوانٹا ناموبے کیمپ میں توہینِ قرآن کے ایسے کئی
لرزہ خیز واقعات ہو چکے ہیں ۔
یہ لوگ مسلمانوں کو انتہا پسندی کا طعنہ دیتے ہیں حالانکہ چودہ صدیوں کی
طویل تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں کیا جا سکتا کہ کسی
مسلمان نے بھی کبھی بائیبل کی توہین کی ہو یا عیسائیوں اور یہودیوں کے
مذہبی جذبات کو بلاوجہ مجروح کیا ہو ۔ جب کہ یورپ میں ہر تھوڑے عرصے بعد
ایسے انتہا پسند اور جنونی کھڑے ہو جاتے ہیں جو مسلمانوں کے مذہبی مقدسات
پر کتوں کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں اور پوری دنیا کے امن کو داؤ پر لگا دیتے
ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں اسلام دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے
اور اس دشمنی کا علاج صرف اور صرف وہ ہی ہے جو قرآن مجید نے ہمیں سکھایا ‘
اللہ کے پاک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس پر عمل کر کے دکھایا ‘ صحابہ
کرام (رض) نے جس کا م کے ذریعے پورے عالم کفر کو سرنگوں کر کے اسلام کا
پرچم پوری دنیا میں لہرایا ‘ جس کے ذریعے محمد بن قاسم(رح) نے سندھ اور ہند
کے بت کدوں میں علَم توحید بلند کیا ‘ جس کے بل بوتے پر طارق بن زیاد(رح)
نے اندلس کے کنارے اپنی کشتیاں جلا ڈالیں اور وہاں کے صلیب پرستوں کو
غضبناک شکست دی ‘ جس کو اپنا کر صلاح الدین ایوبی(رح) نے نوے برس بعد
دوبارہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ بحال کروایا اور سچی بات یہ ہے آج
بھی کائنات میں اسلام کی شان و شوکت اُسی عمل سے وابستہ ہے جسے فریضۂ جہاد
کہتے ہیں ۔
اگر واشنگٹن کے ایوانوں میں لرزہ برپا ہے تو کیوں ؟ اگر تل ابیب میں سارے
یہودیوں کی نیندیں اڑی ہوئی ہیں تو کیوں ؟ اگر دہلی کے بت پرست اپنے زخم
چاٹ رہے ہیں تو کیوں ؟ اگر عراق سے صلیبی افواج دم دباکر بھاگ رہی ہیں تو
کیوں ؟ اگر آج بھی طاقت اور فرعونیت کے بل بوتے پر بنائے گئے کفار کے تمام
منصوبے خاک میں مل رہے ہیں تو صرف اس لیے کہ امت مسلمہ کے کچھ نہتے جوانوں
نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر وہ عظیم عمل شروع کر دیا ہے جسے پیارے آقا
مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے کوہان کی بلندی قرار دیا تھا یعنی
جہاد فی سبیل اللہ . آج کفار و منافقین سب اُن کے خلاف سر جوڑے بیٹھے ہیں
لیکن اُن کی یلغاروں کے سامنے کوئی بند نہیں باندھا جا سکا ۔
یاد رکھیں ! دینِ اسلام ہو یا قرآن ِ مجید ‘ ان کی حفاظت صرف اُسی عمل سے
ممکن ہے جو خود اسلام اور قرآن نے ہمیں سکھایا ہے ۔ اب تو خود کفار بھی
ثابت کر چکے ہیں کہ وہ شرافت کے بجائے صرف اور صرف طاقت کی زبان سمجھتے
ہیں۔ اس لیے امت مسلمہ کو اب کھوکھلے نعروں ‘ بے جان باتوں اور زبانی جمع
خرچ کے بجائے اسی عظمت والے راستے کو اپنانا چاہیے ۔
امریکہ کے ملعون پادری کی اس ناپاک جسارت کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
قرآن کا درد محسوس کرتے ‘ اپنی زندگیوں کو قرآن کے سانچے میں ڈھالتے ‘ اپنے
گھروں کو قرآن سے سجاتے ‘ اپنے دلوں کو قرآن سے آباد کرتے ‘ اپنی اولادوں
کو قرآن پر لگاتے ‘ قرآن مجید کے ساتھ اپنی عملی وفاداری کا اظہار کرتے مگر
افسوس کہ اس سب کے بجائے دماغوں پر کرکٹ کا بھوت سوار ہے ۔ ہم زبان سے تو
قرآن کے دشمنوں پر لعنت بھیجتے ہیں لیکن اپنے عمل سے اُن کی ہم نوائی کر
رہے ہیں ۔ حکمرانوں کو تو چھوڑیں کہ وہ ’’کرکٹ ڈپلومیسی ‘‘ کے ذریعے عوام
کو اصل مسائل سے ہٹا کر کھیل کود میں الجھانا چاہتے ہیں لیکن کم از کم مخلص
اہلِ وطن کو تو سوچنا چاہیے کہ پاکستان کی جو عزت و آبرو ڈاکٹر عافیہ صدیقی
کی قید ‘ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور ڈرون حملوں کی صورت میں لٹ
چکی ہے ‘ کیا وہ صرف کرکٹ میچ جیتنے سے بحال ہو سکتی ہے ۔ کتنا بڑا دھوکہ
ہے جو ہم اپنے آپ کو دے رہے ہیں اور کتنی بڑی خیانت ہے جو قوم کے سمجھ بوجھ
رکھنے والے طبقات عوام کے ساتھ کر رہے ہیں ۔
آئیں ! ان وقتی شعبدہ بازیوں سے نکلیں اور کچھ ایسے کام کر جائیں جن کے
ذریعے ہم اپنے رب کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور قرآن کے دشمنوں کے دانت کھٹے
کر سکیں ۔ قرآن مجید کی احسان شناسی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم سب اپنا سب
کچھ اُس پر لٹا دیتے لیکن کم از کم یہ چند عملی اقدامات تو ہر مسلمان کو
کرنے چاہئیں ۔
٭.خود قرآن مجید پڑھنے کا اہتمام کریں ‘ روزانہ تلاوت ِ کلامِ پاک کا معمول
بنائیں اور کلامِ الٰہی کو سیکھ کر ٹھیک ٹھیک پڑھیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ صبح
سویرے ہر مسلم گھرانے سے تلاوت کی آوازیں بلند ہوتی تھیں اور کوئی شخص اُس
وقت دنیاوی کام میں مصروف نہیں ہوتا تھا جب تک وہ اپنے معمول کی تلاوت نہ
کر لیتا ۔ اب رات کو منحوس فلمی ڈراموں اور شیطانی کاموں نے یہ سعادت بھی
ہم سے چھین لی ہے ۔ خواتین اپنے گھروں میں اس روایت کوزندہ کریں اور پھر
پورے دن اپنے گھر میں نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں کا مشاہدہ کریں ۔
٭.اپنے بچوں کو قرآنِ مجید کی تعلیم دیں ۔ دنیا کی ہر تعلیم سے پہلے ہر
مسلمان بچے کو قرآن مجید درست طور پر آنا لازمی ہے ۔ اس کام کو سر سری طور
پر کرنے کے بجائے اس کیلئے اچھے اساتذہ اور اچھی درسگاہ کا انتخاب کریں ۔
اس کیلئے دنیاوی تعلیم کی نسبت زیادہ سوچیں ‘ زیادہ کوشش کریں اور ان
معاملات کو سمجھنے والے تجربہ کار حضرات و خواتین سے اس سلسلے میں مشورہ
کریں ۔ یاد رکھیں یہ آپ کے بچے کی پوری زندگی کا سوال ہے بلکہ اُس کی دنیا
و آخرت کا دارومدار اسی پر ہے کہ آپ بچپن میں اس کو قرآن مجید کی تعلیم کس
حد تک دلاتے ہیں ؟ کیونکہ بچپن کا سیکھا پچپن تک ساتھ نبھاتا ہے ۔
٭. قرآن مجید کی نشرو اشاعت میں حصہ لیں۔ گلی گلی کوچے کوچے قرآن مجید کی
تعلیم پہنچانے کیلئے اپنی جان ‘ اپنا مال اور اپنی صلاحتیں لگائیں ۔ آج
اہلِ باطل اپنے بیہودہ نظریات کو دنیا میں پھیلانے کیلئے ہر قسم کے جتن کر
رہے ہیں جب کہ مسلمان اس سلسلے میں بہت ہی غفلت سے کام لے رہے ہیں ۔ ضرورت
اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اوقات اور اپنی آمدنیوں میں سے باقاعدہ اشاعتِ
قرآن کا حصہ مقرر کریں اور اُسے صحیح مصرف تک پہنچائیں تاکہ آپ کی محنت
ٹھکانے لگے ۔
یہ ہیں وہ چند کام کی تجاویز جن پر عمل کر کے ہم قرآن مجید کا حق ادا کر کے
اللہ تعالیٰ جل شانہ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں ۔ باقی صرف باتیں بنانے سے
تو ہم دنی اوالوں کو راضی نہیں کر سکتے ‘ اپنے ضمیر اور اپنے پاک رب کا
سامنا کیسے کریں گے ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن مجید اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی
صداقت اور عظمت کی گواہی جیسے اپنوں نے دی ‘ ویسے ہی غیروں کو بھی اس کا
اعتراف کرنا پڑا ہے ۔ اگر یہ بد فطرت شخص مسلمانوں سے مطالبہ کرنے کے بجائے
تعصب کی عینک اتار کر اپنے ہم قوم اور ہم مذہب لوگوں کے خیالات ہی پڑھ لیتا
تو اُسے ایسی جنونی اور گھناؤنی حرکت کرنے کی جرأت کبھی نہ ہوتی۔
انتہائی مستند اور قابلِ اعتماد حوالہ جات کے ساتھ چند اعترافات مندرجہ ذیل
ہیں :
﴿۱﴾. عہدِ حاضر کے معروف مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ لکھتے ہیں : ’’ قرونِ
وسطیٰ کے یورپ میں یہ تصور عام کیا گیا تھا کہ محمد ﴿ﷺ﴾ ایک ﴿معاذ اللہ ﴾
جھوٹے پیغمبر تھے ‘ جو غلط طور پر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اُن کے پاس اللہ
تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے ، لیکن قرونِ وسطیٰ کے یہ تصورات جو دراصل
جنگی پروپیگنڈے کی حیثیت رکھتے تھے ‘ اب آہستہ آہستہ یورپ اور عیسائی دنیا
کے ذہنوں سے اتر رہے ہیں ‘‘۔﴿Bell's Interoduction to the Quran Ch. 2
P.17﴾
پروفیسر واٹ نے بالکل درست کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تکذیب
کسی علمی دلیل پر مبنی نہیں تھی ، بلکہ یہ اُس پروپیگنڈے کا ایک جز تھا ،
جسے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے ضروری سمجھا جا رہا تھا ۔ انہوں نے خاصی تفصیل
کے ساتھ اُن قدیم اہل یورپ کی تردید کی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر
﴿معاذ اللہ ﴾ جھوٹے دعوے یا جنون یا کسی بیماری کا الزام عائد کرتے تھے ،
اور بتایا ہے کہ عہد حاضر کے مغربی اسکالر روشن دلائل کی وجہ سے ان الزامات
کو تسلیم نہیں کرتے ، آخر میں وہ لکھتے ہیں : ’’ لہٰذا محمد ﴿ﷺ ﴾ کے بارے
میں قرونِ وسطیٰ کے اس تصور کو تو اب خارج از بحث قرار دے دینا چاہئے، اور
محمد ﴿ﷺ ﴾ کو ایک ایسا انسان سمجھنا چاہیے جو پورے خلوص اور نیک نیتی سے وہ
پیغامات سنا تے تھے جن کے بارے میں اُن کا عقیدہ تھا کہ یہ اُنکے پاس خدا
کی طرف سے آئے ہیں ۔ ‘‘ ﴿ایضاً P.18﴾
﴿۲﴾.موریس بوکائیے نے جب اپنی فرانسیسی کتاب ’’ بائیبل قرآن اور سائنس ‘‘
لکھی تو دنیائے عیسائیت میں ایک تہلکہ مچ گیا ۔ انہوں نے اپنے سائنسی
تجربات کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ الہامی کتابوں میں سے صرف قرآن ِ مجید ہی
ایسی کتاب ہے جس کے بیانات آج چودہ سو برس گزرنے کے بعد بھی سائنسی حقائق
کے بالکل مطابق ہیں ۔ یہ پوری کتاب اسی موضوع پر ہے ‘ ہم صرف نمونے کے طور
پر اُن کی اپنی ایک عبارت پیش کر رہے ہیں : ’’ قرآن وحی کا وہ اظہار ہے جو
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ حضرت محمد﴿ صلی اللہ علیہ وسلم ﴾کو پہنچی
جس کو فوراً قلم بند کر لیا گیا اور اہل ایمان نے حفظ کر لیا ۔ وہ اپنی
نمازوں خصوصاً ماہ ِ رمضان المبارک میں اُس کی قرأت و ترتیل کرتے رہے ۔
خود حضرت محمد ﴿ﷺ ﴾ نے اس کی سورتوں میں ترتیب قائم کی اور یہ سب سورتیں
نبی کریم ﴿ﷺ ﴾ کی رحلت کے فوراً بعد حضرت عثمان (رض) ﴿یہاں حضرت ابو بکر
صدیق (رض) کا نام ہونا چاہیے ۔ از ناقل﴾ کے دورِ خلافت میں متن کو موجودہ
شکل دینے کے لئے جمع کر لیا گیا ۔
اس کے بر خلاف مسیحی الہام متعدد انسانی بیانات پر مبنی ہے ۔ حقیقت میں بہت
سے عیسائیوں کے خیال کے برعکس ہمارے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی
کے واقعات کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے عیسائی اور اسلامی متون کے معتبر اور
غیر معتبر ہونے کی وہ صورت ہے جو اب قائم ہوئی ہے ۔ ‘‘
﴿بائبل قرآن اور سائنس ‘ پیش کش :آرمی بک کلب ۲۸۹۱ئ﴾
﴿۳﴾.ای ڈرمنگھم :﴿THE LIFE OF MOHAMET (pub. 1930)﴾
’’عرب بنیادی طور پر انارکسٹ اور انتشار پسند تھے۔ محمد ﴿ﷺ ﴾ نے یہ زبردست
معجزہ کر دکھایا کہ انہیں متحد کر دیا ۔ بلاشک و شبہ دنیا میں کوئی ایسا
مذہبی رہنما نہیں ہوا جسے محمد ﴿ﷺ ﴾ جیسے سچے اور وفادار پیر و کار ملے
ہوں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ محمد ﴿ﷺ ﴾ کی تعلیمات نے عربوں کی
زندگی بدل کر رکھ دی ۔ اس سے پہلے طبقۂ اناث کو کبھی وہ احترام حاصل نہیں
ہوا تھا جو محمد﴿ﷺ ﴾ ، کی تعلیمات کے نتیجے میں ملا ۔ جسم فروشی ، عارضی
شادیاں اور آزادانہ محبت ممنوع قرار دے دیے ۔ لونڈیاں اور کنیزیں جنہیں اس
سے پہلے محض اپنے آقاؤں کی دل بستگی کا سامان سمجھا جاتا تھا ، وہ حقوق و
مراعات سے نوازی گئیں غلامی کا ادارہ بوجوہ اس دور میں باقی رہا لیکن غلام
کو آزاد کرنے والے کو سب سے بڑا نکو کار قرار دیا گیا ۔ غلاموں کے ساتھ
برابری کا سلوک روا رکھا جانے لگا اور غلاموں نے دینِ اسلام کی تعلیمات سے
فیض یاب ہو کر اعلیٰ ترین مناصب حاصل کیے محمد ﴿ﷺ ﴾ کا ارشاد ہے : ’’
تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں ۔ جس نے ایک غلام آزاد کیا اُس پر دوزخ کی آگ
حرام ہو گئی ۔ اپنے غلاموں کو وہی کھلائو جو تم خود کھاتے ہو۔ اُنہیں اپنے
جیسا لباس پہنائو ۔ اُن کی طاقت سے زیادہ کبھی اُن سے کام نہ لو ۔ ‘‘ ایک
موقع پر جب کسی نے بلال ﴿رضی اللہ عنہ﴾ کو ’’حبشن کا بچہ‘‘ کہہ کر پکارا تو
محمد ﴿ﷺ ﴾ نے اُس شخص کو مخاطب کر کے کہا : ’’ تم میں ابھی دورِ جاہلیت کی
خو بو پائی جاتی ہے ‘‘
جو کچھ محمد ﴿ﷺ ﴾ نے کر دکھایا ، اُسے سامنے رکھیں تو ہم اُن کی عظیم ترین
شخصیت کو خراجِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ قرآن کی تعلیمات
سامنے رکھ لیجئے یا وہ خوبیاں جو سارے عالم میں مسلمہ سمجھی جاتی ہیں ،
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآنی تعلیمات اور مسلمہ آفاقی سچائیوں
کا جیتا جاگتا نمونہ تھی اور آپ ﷺ نے کبھی اپنی گفتار اور اعمال کے ذریعے
ان حدود سے تجاوز نہیں کیا ۔ ﴿ بحوالہ : اردو ڈائجسٹ ، جلد ۸۲ ، شمارہ ۴ ،
اپریل ۸۸۹۱ئ ﴾
بیشک سچ ہے کہ’’ الفضل ما شھدت بہ الاعدائ‘‘ یعنی فضیلت تو وہ ہے کہ دشمن
بھی اُس کا اعتراف کریں ۔ ا مریکہ کے ملعون پادری کو یاد رکھنا چاہیے کہ
قرآنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ داری خود خالقِ کائنات نے اٹھائی ہے ۔ اور اسی
لیے وہ ذاتِ پاک ہر دور میں اپنے پسندیدہ بندوں کو اس بات کی توفیق دیتی ہے
کہ وہ اپنی پوری زندگیاں اور تمام صلاحتیں قرآن ِ مجید کی حفاظت اور خدمت
میں کھپا دیتے ہیں ‘ اس لیے وہ اور اُس کے سرپرست اور حواری لاکھ کوششیں کر
ڈالیں .
’’ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ‘‘ |