تحریر : عبدالعزیز عرب
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے اس ریمارکس کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے کہ
اگر صادق اور امین ہونے کو معیار بنالیا جائے تو ساری پارلیمنٹ ہی نا اہل
ہوجائے گی یعنی ہماری قسمت میں جھوٹے اور خائن ہی لکھے ہیں 22 کروڑ پر
مشتمل قوم اگر اپنے بیچ میں سے چند سو صادق اور امین بھی نہ نکال سکے تو
واقعی اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ سر کے ساتھ سر اور تال کے ساتھ تال ملا کر
گائے۔۔ ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘۔
ایک طرف لوگ گڈ گورننس کے چرچے سنتے اور دوسری طرف گندگی اور غلاظت کے ڈھیر،
کچرا کنڈیاں، ٹوٹی گلیاں، سڑکوں پر گڑھے، ابلتے گٹر دیکھتے ہیں تو ظاہر ہے
انہیں گھن ہی آتی ہوگی۔ اب ہم سب کو شہر آرزو کا ماتم اس سوچ کے ساتھ کرنا
چاہیے کہ ہمیں ان مسائل سے نکلنے کے لئے کیا کرنا ہے؟
یہ دنیا عبرت کا مقام ہے لیکن عقل والوں کے لئے۔۔۔ قیام پاکستان کے وقت جن
کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا اب مختلف شکلوں میں حکمران بن گئے اور سوچنے
لگے کہ ہم تو پیدا ہی حکمرانی کے لئے ہوئے ہیں اور یہ سب ہماری خاندانی
میراث ہے ۔ بس یہی سوچ مار گئی کہ
ابھی تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
گڈ گورننس کے ڈھنڈورے اور جعلی سروے بھلا کہاں تک ساتھ نبھاسکتے ہیں؟ دنیا
کا کوئی پروپیگنڈہ کسی بھوکے کو اس بات پر قائل نہیں کرسکتا کہ اس کا پیٹ
بھرا ہوا ہے۔
کسی بھی قوم کے عروج کے لئے جن باتوں کو لازمی ترین قرار دیا گیا ان میں
ایک یہ بھی تھی کہ عروج پانے والی قوموں میں کمیونٹی کے لئے کچھ اچھا، عمدہ،
اعلیٰ کنٹری بیوٹ کرنے کا شوق اور جذبہ بہت نمایاں اور غالب ہوتا ہے لیکن
ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ہماری قوم کو سائنسی علوم سے دور رکھا گیا پچھلوں
کا اگر ہم رونا نہ روئیں تو آج بھی اگر نگاہ ڈالیں تو عام آدمی کے بچوں کی
پہنچ سے معیاری تعلیم بہت دور نظر آتی ہے نتیجہ ظاہر ہے کہ پرنٹنگ مشین سے
لے کر ریلوے انجن، بلب، کیمرہ، ٹیلی فون، ہوائی جہاز، کمپیوٹر، ایمبولینس،
فائر بریگیڈ، ناک پر موجود عینک، کینسر کے علاج کے لئے کیمو تھراپی،
پھیپھڑوں کی پیوند کاری، دل کی پیوند کاری، ریفریجریٹر، اے سی، سلائی مشین
سے لے کر ماچس تک کی ایجاد میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن ایک دوسرے پر
کفر کے فتوے لگا کر جنت سے بے دخل کرنے میں سب سے بڑا حصہ ہمارا ہے اور ہم
صراط مستقیم پر بیٹھے دودھ سے مرچوں تک میں ملاوٹ کر رہے ہیں پیشہ ور
گواہوں سے ہماری کچہریاں آباد ہیں ٹریفک سگنلز 1912 میں متعارف ہوئے جنہیں
استعمال کرنے کی تمیز ابھی تک یہاں نہیں پہنچی یہاں صرف ملی نغموں کا عروج
ہے ’’یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے‘‘۔.
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ 72 سالوں میں ایماندار اور مخلص قیادت نصیب نہیں
ہوئی لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان اس خطہ میں ایک ذمے دار ترقی یافتہ ملک
بن سکتا ہے مگر اس کے لئے پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ ایک قوم بن کر
ہم سب کو ایک ایماندار دیانتدار حکومت کے ساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر کام
کرنا پڑے گا۔ہر برے وقت کے ساتھ اچھا وقت بھی آتا ہے۔ پاکستان 22 کروڑ
مسلمانوں کا ملک ہے دشمن چاہے جتنا بھی مضبوط ہو وہ ہمارے جذبہ ایمانی کے
سامنے کچھ بھی نہیں. وطن عزیز میں موجود سمجھدار اور قابل ایماندار
دیانتدار افراد کو آگے بڑھ کر اس ملک اور قوم کی ترقی میں اپنا اہم کردار
ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان زندہ باد
|