محبّت کا آئینہ

فی زمانہ یہ بات سننے میں کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ کسی لڑکی کے ایک دم سے دو رشتے آگئے ہوں- معاشی اور گھریلو مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ نوجوان جو شادی کے قابل ہوگئے ہیں، ان ہی مسلوں کو حل کرنے میں لگے رہتے ہیں- جب یہ مسلے حل ہوجاتے ہیں تب ہی شادی بیاہ کی طرف دھیان جاتا ہے-

اس حقیقت کا سرتاج بانو کو بھی ادراک تھا- وہ تو اس خیال میں تھی کہ اس نے بی اے کرلیا ہے، اب ٹیچر ٹریننگ کا کورس کرکے کسی اسکول میں نوکری کر لے گی تاکہ اس مصروفیت میں لگ کر وقت اچھا گزرے- یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ جگہ جگہ اسکول کھل گئے ہیں اور ان میں ٹیچرز کی آسامیاں نکلتی رہتی ہیں-

مگر جب اچانک اس کے یہ رشتے آئے تو گھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی- اس کی ماں نے دو نفلیں شکرانے کی پڑھیں – اس روز شام کو جب اس کا باپ اور بھائی کام پر سے آئے تو یہ ہی موضوع رات گئے تک زیر بحث رہا-

سرتاج بانو بہت خوب صورت تھی- گھر کے ماحول کی وجہ سے اس کا آزادی سے باہر آنا جانا بھی نہیں تھا اس لیے اس کی قدرتی معصومیت اور بھولا پن بھی برقرار تھا- کسی لڑکی میں خوب صورتی اور بھولپن یکجا ہوجائیں تو اس کی شخصیت میں چار چاند لگ گئے جاتے ہیں- یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اکثر مرد دوستی کے تو لیے بولڈ لڑکیاں ڈھونڈتے ہیں اور شادی کے لیے انھیں خوب صورت اور سیدھی سادھی لڑکی درکار ہوتی ہے-

شکل صورت تو الله کی دین ہے، کوئی بھی اس میں مستقل کمی بیشی نہیں کرسکتا- مگر دوسری چیزیں انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہیں، لوگوں سے برتاؤ، ان سے حسن سلوک اور اپنے ساتھ رہنے والوں کی خدمت وغیرہ- سرتاج بانو ان باتوں میں ماہر تھی- اس کی ماں نے بھی اسے شروع سے ہی گھر داری کے کاموں میں لگا کر اسے ایک سگھڑ لڑکی بنا دیا تھا- اس نے اس کے ذہن میں یہ خیال بھی راسخ کردیا تھا کہ اچھا اخلاق اور خدمت سگے رشتوں کی محتاج نہیں ہوتی، ان کو اپنی عادت کا حصہ بنا لینا چاہیے اور ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے- اس کا خیال تھا کہ ایسی لڑکیاں شادی کے بعد بہت سکھی رہتی ہیں اور ان کی اچھی عادتوں کی وجہ سے سسرال کے سب لوگ ان کا بہت خیال رکھتے ہیں- یہ خیال رکھنا ان کی خوش اخلاقی، ملنساری اور خدمات کا بدل ہوتا ہے -

ان دو رشتوں میں سے ایک رشتہ حسن نامی لڑکے کا تھا- اس لڑکے کی خاص بات یہ تھی کہ وہ انتہائی حسین و جمیل اور جاذب نظر تھا – اس کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس کا باپ ایک کاروباری آدمی ہے اور گھر میں روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے- وہ بارہ جماعت تک پڑھا ہوا تھا- چونکہ باپ کی اچھی آمدنی تھی اس لیے وہ ابھی تک کچھ نہیں کرتا تھا- اس کی مستقبل کی پلاننگ تھی کہ باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹائے گا- اس کی بہنوں نے سرتاج بانو کو کسی تقریب میں دیکھا تھا اور پتہ پوچھتی پوچھتی ان کے گھر تک آن پہنچی تھیں- بہانہ تو پانی پینے کا تھا مگر پانی کے بہانے انہوں نے سرتاج بانو کی ماں سے کافی باتیں کرلی تھیں- اس کے کچھ روز بعد وہ رشتہ لے کر آن پہنچیں اور حسن کی تصویر تھما کر پھر آنے کا کہہ گئیں-

اس کا دوسرا رشتہ اس کے باپ کے کسی جاننے والے کے توسط سے آیا تھا- اس لڑکے کا نام حبیب تھا- وہ کسی سرکاری محکمے میں چودہ گریڈ کا ملازم تھا- یہ رشتہ حبیب کی ماں اور اس کی بھابی لے کر آئی تھیں- جاتے ہوۓ انہوں نے بھی لڑکے کی تصویر ان کے حوالے کی اور جواب کے لیے کچھ روز بعد آنے کا کہہ گئیں- حبیب عام شکل و صورت کا ایک نوجوان تھا- اس کی شکل پر معصومیت تھی اور نہایت سیدھا سادہ لڑکا نظر آتا تھا- تصویر میں بالوں میں چپڑا ہوا تیل اور قدرے سانولا رنگ بھی نمایاں تھا-

شکل و صورت اور فیملی بیک گراؤنڈ میں حسن کا پلڑا بھاری تھا- سرتاج بانو کے تمام گھر والوں کو وہ بہت پسند آیا تھا- اس کا بھائی بولا- "سرتاج کے لیے یہ زیادہ مناسب لگ رہا ہے- اس کا ایڈریس امی آپ مجھے دیجیے گا- میں لڑکے کے بارے میں پوری معلومات حاصل کرلوں گا-"

یہ کہہ کر اس کا بھائی حبیب کی تصویر کو بھی دیکھنے لگا اور پھر بغیر کچھ کہے اسے ماں کو تھما دیا-

"اس لڑکے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟" اس کے باپ نے پوچھا-

"اگر حسن سے بات پکی نہیں ہوتی تو پھر اس پر بھی غور کرلیں گے-" اس کے بھائی نے لاپرواہی سے کہا- "یہ بھی مناسب لگ رہا ہے مگر حسن زیادہ بہتر ہے-"

"سرتاج بانو کی رائے لی ہے؟" تھوڑی دیر بعد اس کے باپ نے پوچھا- "زندگی تو اس نے گزارنا ہے- اس کی رائے سب سے مقدم ہونی چاہیے-"

اس کی بات سن کر سرتاج بانو کی بھابی دونوں تصویریں لے کر اس کے پاس پہنچی- اس نے کہا- "تم کیا کہتی ہو سرتاج بانو- ان دونوں میں سے تمہیں کون پسند ہے- یہ تو میں تمہیں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ ان دو لڑکوں کے رشتے تمہارے لیے آئے ہیں اور دونوں لڑکوں کا بیک گراؤنڈ کیا ہے-"

بھابیاں نندوں کی پکی دوست ہوتی ہیں اور اپنے دلوں کی باتیں ایک دوسرے سے کرلیتی ہیں- یہ ہی بات اگر سرتاج بانو سے اور کوئی پوچھتا تو اس کا شرم سے برا حال ہوجاتا- مگر چونکہ یہ سوال اس کی بھابی نے کیا تھا اس لیے واؤ ذرا نہیں شرمائ- اس نے دونوں تصویروں کو غور سے دیکھا اور بولی- "ویسے تو امی، ابّا جان اور آپ لوگوں کا فیصلہ ہی بہتر ہوگا- لیکن اگر آپ میری رائے معلوم کرنا چاہتی ہیں تو میری نظر میں یہ لڑکا زیادہ مناسب ہے-" اس نے حبیب کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا-

اس کی بات سن کر اس کی بھابی حیران رہ گئی- "یہ تو ایک سرکاری ملازم ہے- گریڈ بھی زیادہ نہیں- حسن کا تعلق پیسے والے گھرانے سے ہے- وہاں تم مزے کرو گی- اچھی طرح سوچ لو- تمہارے انتخاب پر میں حیران ہوں - اگر یہ دونوں رشتے کسی اور لڑکی کے آتے تو وہ ان میں سے حسن کو ترجیح دیتی- دیکھ نہیں رہی ہو ڈراموں کے کسی ہیرو کی طرح شکل ہے اس کی-" اس کی بھابی نے کہا-

"وہ تو ٹھیک ہے - آپ کا کہنا بجا ہے- لیکن یہ بھی تو دیکھیے زندگی بڑی لمبی اور کٹھن ہوتی ہے اسے ڈراموں کی طرح نہیں گزارہ جاسکتا- شوہر اگر حد سے زیادہ خوب صورت ہو تو وہ خود نمائی میں مبتلا ہوجاتا ہے- بیوی تو اپنی خوب صورتی کا فائدہ اٹھا کر صرف اپنے شوہر کو ہی رجھا کر رکھتی ہے مگر اکثر مرد اپنی خوب صورتی کا ناجائز فائدہ بھی اٹھانے لگتے ہیں اور ان کا وہ وقت جو گھر میں گزرنا چاہئیے باہر گزرتا ہے- اپنی خوب صورتی کا احساس انھیں ہر کسی سے اپنی ستائش کا طلب گار بنا دیتا ہے- وہ بیوی کی بھی زیادہ پرواہ نہیں کرتے- ان کی بس یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ان کی بیوی بھی ان کے آگے پیچھے پھرے اور ان کی مدح سرائی کرتی رہے-"

اس کی بھابی حیرانی سے اس کی شکل تکنے لگی تھی- "تم تو عجیب لڑکی ہو-" آخر اس نے کہا-

سرتاج بانو مسکرا کر بولی- "ماشا الله شکل و صورت میں آپ بھی تو لاکھوں میں ایک ہیں- بھائی جان کسی ڈرامے کے ہیرو تو نہیں تھے اور نہ ہی بہت پیسے والے ، مگر وہ آپ کا دم بھرتے ہیں- میرا خیال ہے کہ اگر وہ آپ سے زیادہ خوب صورت اور پیسے والے ہوتے تو صورت حال مختلف ہوتی- وہ آپ کو اتنی اہمیت بھی نہیں دیتے جو اب دیتے ہیں-"

"ہاں یہ تو ہے- وہ مجھ سے بہت محبّت کرتے ہیں-" اس کی بھابی خوشی سے کھل کر بولی- "دیکھتی نہیں ہو میری ذرا سی تکلیف پر کیسا پریشان ہوجاتے ہیں- رہی بات شکل و صورت کی تو محبّت تو ایک ایسا آئینہ ہے کہ اگر اس آئینے میں اس شخص کو دیکھو جس سے محبّت ہے تو وہ دنیا کا سب سے حسین شخص بن کر دکھائی دیتا ہے-"

"الله آپ دونوں کو نظر بد سے بچائے- آپ نے ان کا ہر معاملے میں ساتھ بھی تو بہت دیا ہے- ان کی ہر پریشانی کو اپنی پریشانی جانا- ہماری دونوں بہنوں کی شادیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا- یہ ہی تو اچھی زندگی کا فارمولا ہے- ایک خدمت گزار اور اچھی عادتوں کی بیوی ہو اور محنت و ایمانداری سے کمانے والا شوہر، چاہے وہ عام شکل و صورت کا ہی کیوں نہ ہو - بیوی اطمینان سے گھر چلاتی ر ہے اور شوہر اس نیک بخت کو دیکھ دیکھ کر مزید لگن سے روزی کمانے میں مصروف رہے- جس گھر میں ایسے میاں بیوی ہوں وہاں خوشیاں ہی خوشیاں اور سکون ہی سکون ہوتا ہے-"

"میں تمہارے خیالات سے متفق ہوں- تو پھر میں سب کو بتا دوں کہ تم نے حبیب کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے-" اس کی بھابی اٹھتے ہوۓ بولی-

بھابی کی بات سن کر سرتاج بانو کے چہرے پر سرخی آگئی- اس نے سر جھکا کر دھیرے سے کہا- "جی"-

(ختم شد)
 

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 121945 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.