طعنے

سنو رابعہ تم نے کرن کو دیکھا عبایہ پہنا شروع کردیا ہے حجاب کے ساتھ،ہاں یار دیکھا تو تھا اللہ جب ہدایت عطا فرمادے رابعہ نے بدستور موبائل میں مصروف رہتے ہوئے جواب دیا،مگر کرن کی شاید تسلی و تشفی نہیں ہوئی تھی شاید بھرپور غیبت کا ارادہ تھا اس لیے بات بڑھاتے ہوئے مزید کہا یار اب کیا فائدہ اس حجاب کا اس عبائے کا جب پوری اکیڈمی نے اسے اس کی واہیات ڈریسنگ میں دیکھ لیا ہنہہہ نو سو چوہے کھاکر بلی حج کو چلی، ہاں یہ تو ہے رابعہ نے بھی تائید کی مگر شاید موبائل میں شاید زیادہ دلچسپی کا سامان تھا اس لیے بھرپور غیبت و تبصرے کا ارادہ پایہ تکمیل نہ پہنچ سکا ...

لیکن ایک سیکنڈ رکیں یہ مکالمہ پڑھ کر تائید کر کے گذر نہیں جائیں یہ ہم سب کا معاملہ ہے صرف کرن و رابعہ کا نہیں ہم اتنے کم ظرف لوگ ہیں کہ کسی کے نیک ارادے کو اپنی باتوں سے اپنی طنز و طعن سے ریزہ ریزہ کرسکتے ہیں یہ معاملہ صرف عبائے حجاب کا نہیں بلکہ ہر توبہ کے بعد بندے ہی اس کمزور انسان کو اپنی باتوں سے اپنے چھبتے سوالات و تبصروں سے چھلنی چھلنی کردیتے ہیں. جیسے کہ
پچھلے دنوں ایک کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی باتوں باتوں میں حجاب زیر موضوع آگیا کہنے لگیں دل تو چاہتا ہے کہ اب حجاب لیا کروں مگر میری نندوں نے کہا بھابھی اب کیا فائدہ ایک عمر گذاردی بنا پردے کے اب کیوں شوق چرا گیا؟ آپ کو تو پھر میں نے بھی سوچا کہہ تو ٹھیک ہی رہی ہیں اس لیے رہنے دیا.
ایسے ہی ایک رشتے دار ہیں ان کے بھائی کی عمر چالیس بیالیس سال ہوگئی مگر شادی نہیں ہوسکی ذکر زیر موضوع آیا تو سننے کو ملا اتنی گذر گئی باقی بھی گذر جائے گی (واہ کیا کہنے یعنی اب اگر ان انکل کی بالفرض مزید چالیس سال کی عمر باقی ہے تو ان کی سزا ہے باقی بھی آپ ایسے ہی گذاریں کیونکہ آپ نے یہ کام وقت پر نہیں کیا )

ایک اور جاننے والی ہیں ساس سے نہیں بنتی تھی شوہر کو لے کر الگ دنیا بسالی بعد ازاں احساس بیدار ہوا معافی وغیرہ مانگ کر ساتھ رکھ لیا خدمت کرنے لگیں تو ان کے محلے کی خواتین کے لبوں پر اب یہ جملے رہتے ہیں پتا نہیں کیا لالچ کھینچ لایا پہلے تو الگ ہوگئی تھی (یعنی یہاں یہ مراد لے لیا جائے بہو اگر ایک وقت میں غلط کر بھی گئی تو وہ اب زندگی بھر غلط بنی رہے غلطی نہ سدھارے کیونکہ وہ جس محلے میں رہتی ہے انھیں یہ معلوم تھا کہ یہ پہلے غلط کرچکی ہے)

ایسے ہی ایک پرانے محلے کی جاننے والی تھیں گھر کی ضروریات مکمل کرنے کے لیے گمراہی کے راستے پر چل پڑی چند سال بعد عمرے پر گئیں دامن ِ ہدایات تھام کر آئیں مگر آج تک انھیں ان کی سابقہ زندگی کے تناظر میں ذلیل کیا جاتا ہے طعنے دیے جاتے ہیں

ایسی أن گنت مثالیں ہیں ہمارے درمیان جو ہم خود پیدا کرتے ہیں، جن کی وجہ ہم خود بنتے ہیں اور انجانے میں اپنا اور کسی دوسرے کا کتنا نقصان کر جاتے ہیں ہمیں اندازہ تک نہیں ہو پاتا

آخر کیوں معاف نہیں کرتے ہم لوگ ایسے لوگو کو جو اپنا آپ سدھارنا چاہتے ہیں، سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں ہمت دکھاتے ہیں، ہمت کرتے ہیں ہم سے اچھے ہوتے ہیں جو اپنی کوتاہیوں غلطیوں کا ادراک کرکے انھیں درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اپنی زبانوں سے صرف ان کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہیں

خدارا رحم کریں خود پر اپنے حالوں پر اور صرف ایک بار سوچ حضورﷺ نے جب اسلام کی تبلیغ شروع کی تھی تو چار افراد سے شروع ہوئی تھی وہ دعوت اس سے قبل سب غیر مذہب پر تھے تو زرا سوچیں آج جن جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنھم کا نام ہم عزت و احترام سے لیتے ہیں وہ بعد میں کلمہ گو ہوئے تھے کیا ہم انھیں طعنے دینے کا سوچ سکتے ہیں؟ کیا ہماری روح نہیں کانپ جاتی اس خیال سے بھی؟ کیا اس زمانے میں کسی نے انھیں ان کی سابقہ زندگی کا جتایا تھا؟ انھیں کیا فائدہ؟ کیا فائدہ یا پہلے تو یہ کیا تھا، پہلے تو وہ کیا تھا کہہ کر حوصلہ شکنی کی تھی؟؟؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ کھلے دل سے دائرہ اسلام میں خوش آمدید کہا تھا ہاں یہ ضرور تھا وہ اعلیٰ ہستیاں خود اپنے سابقہ اعمال کے لیے غمزدہ رہتی تھیں مگر ان کے حوصلے پست نہیں کیے جاتے بلکہ انھیں نوید دی جاتی تھی انھیں قرآنی آیتوں کی صورت میں بشارتیں دی جاتی تھیں. بہشت کی خلد کے انعامات کی.....

تو ہم ایک عام انسان ہوکر ہوتے کون ہیں کسی کے لیے فیصلے کرنے والے؟ اندازے لگانے والے؟ کسی کی نیتوں کے نیک و بد ہونے کا بتانے والے؟ کیا حق پہنچتا ہے ہمیں؟ تو جان لیں کوئی حق نہیں پہنچتا.... کوئی بھی حق کسی بھی طرح کا نہیں......

کاش یہ بات ہمیں سمجھ آجائے اور ہم دوسروں کے اعمال کے بجائے اپنے اعمال کی فکر میں غلطاں ہوجائیں
 

Dur Re Sadaf Eemaan
About the Author: Dur Re Sadaf Eemaan Read More Articles by Dur Re Sadaf Eemaan: 49 Articles with 46226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.