ایک تھی چڑیا اور ایک تھا کوا! چڑیا کا گھر تھا چھوٹا سا
سرکاری کوارٹر، کوے کا گھر تھا بڑا سرکاری بنگلہ۔ چڑیا چھریرے بدن کی تھی
اور کوا فربہ اندام تھا۔ چڑیا بس سے آفس آتی تھی، کوا کار سے آفس جاتا تھا۔
کوا چڑیا کے ساتھ چھیڑخانی کرتا تھا، وہ اسے ٹالتی تھی، کوا چڑیا کو ٹیڑھی
گردن کر کے ایک آنکھ سے دیکھتا، چڑیا کو کوا ایک آنکھ نہ بھاتا۔ وہ دوسری
طرف منھ پھیر لیتی، کوا تھا چالاک اور چھچھورا، وہ ہمیشہ چڑیا سے کہتا۔ ’’
چلو چڑیا، تمہیں گھر تک ڈراپ کر دوں۔ بیٹھو میری کار میں !‘‘
" نہیں! میں بس سے جاؤں گی۔ شکریہ!"
چڑیا کادری بادری ہو کر ایک ہی جواب دیتی۔
جب کوے کی دال نہیں گلی تو اس نے سوچا۔ ’’ اب ڈائریکٹ چڑیا کے گھر ہی جانا
چاہئیے۔ ‘‘
فضا بنانے کے لیے کچھ دنوں تک کوے نے چڑیا سے مسلسل کہا۔ ’’میں تمہارے گھر
آؤں گا۔ مجھے تم سے کچھ کہنا ہے۔ ‘‘
چڑیا نے کئی بار منع کیا۔ وہ اسے اور اس کے جیسے کوؤں کو اچھی طرح جانتی
تھی ، کیوں کہ دوسری چڑیوں نے اسے بہت کچھ بتا دیا تھا۔ لیکن کوا ضدی تھا،
وہ جو کچھ چاہتا اسے حاصل کر کے رہتا۔
چڑیا نے دل ہی دل میں طے کیا۔ آنے دو ایک بار کوے کو گھر، پتہ چل جائے گا۔
پھر ہمیشہ کی یہ کٹ کٹ دور ہو جائے گی!
اس نے کوے کو اتوار کی صبح بلایا۔ چڑیا کے گھر جانے کے لیے تیار کوا پہنچ
گیا چڑیا کے گھر!
’’ چڑیا ، چڑیا، دروازہ کھول۔ ‘‘ کوا دروازے کے باہر سے بولا۔
’’اجی سنتے ہو ، دیکھو تو کون آیا ہے ؟میں بچے کو نہلا رہی ہوں۔ ‘‘ چڑیا نے
اندر سے بلند آواز میں کہا۔
’’چڑیا چڑیا......دروازہ کھول۔ ‘ کوے کو کان پڑی آواز پر یقین نہ آیا۔
’’ اجی سنتے ہو ! دیکھو دروازے پر کون ہے ؟‘‘ میں بچے کی آنکھ میں کاجل لگا
رہی ہوں۔ آپ ڈنڈ بعد میں پیلئے، پہلے دروازہ کھولیے۔ اور ہاں دروازہ کھولنے
سے پہلے مارشل کو زنجیر سے باندھ کر رکھیے، پتہ ہے نا کہ بغیر بھونکے ہی وہ
ایک دم حملہ کرتا ہے۔ ‘‘
.......اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کوا وہاں سے جان بچاکر بھاگا اور
دوسرے دن سے چڑیا کو’’چڑیا بہن‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے لگا۔ |