ہمارا لیڈر آوے ہی آوے

(کردار یا واقعات میں کسی قسم کی مماثلت محض اتفاق سمجھی جائے)

بالم میاں اپنے مزاج کے واحد آدمی ہیں۔ وہ علاقہ جنرل کونسلر کے خدانخواستہ امیدوار نہ تھے۔ یہ ان کی نوجوانی کاخواب تھا۔ اُس رات انتخابی نتائج آنے کے بعد وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونا تھا، وگرنہ ان کا اپنا شرمندہ ہونا لازم تھا۔ ان کی انتخابی مہم کے دوران شاہانہ خرچوں کے باعث مخالفین نے یہ بات اڑا دی تھی کہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پید اہوئے تھے۔ حالانکہ اس وقت ان کے منہ میں دانت بھی نہ تھے۔ بھلا پیدا ہوتے ہوئے چیختے چلاتے اور روتے دھوتے بالم میاں کے منہ میں سونے کا چمچہ کس طرح رہ سکتا تھا؟ یہی ان کی انتخابی مہم کا بنیادی ایشو تھا۔ اپنی پوری مہم کے دوران پمفلٹوں، بینروں اور جلسوں میں تردید کرتے ہوئے وہ یہ بات ثابت کرتے رہے۔ اس کے لیے انہوں نے نقشوں اور چارٹوں کا بھرپور استعمال کیا۔ مخالفین نے ان کے مزاج کو سمجھتے ہوئے انہیں بالکل ٹھیک کام پر لگا دیا تھا!!!

علاقہ کونسلر بننے کا خواب ان کی بدہضمی یا گیسٹرک ٹربل کی وجہ سے نہ تھا۔ جب بالم میاں کی عمر کوئی چودہ پندرہ برس ہوگی، ان سے دو غلطیاں سرزد ہوگئیں۔ پہلی غلطی علاقہ خاکروب سے نظر نہ بچانے کی اور دوسری اس سے پنگا لینے کی تھی۔ برسوں قبل شہر کے محلے، گلیوں میں صبح و شام خاکروب حضرات جھاڑو پھیرا کرتے تھے۔ یوں سائیڈ ایفیکٹ کے طورپر کوڑا کرکٹ صاف ہوجاتا تھا۔ اب تو یہ صاحبان دیکھنے کو بھی نہیں ملتے۔ ایک روز محلے کے خاکروب نے جھاڑو پھیرنے کا شغل میلہ ختم ہی کیا تھا کہ نوجوان بالم میاں نے اپنے گھر کا کچرا لا کر گلی میں پھینک دیا۔ حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی، وہ روزانہ صفائی کے بعد ہی ایسا کرتے تھے۔ اسے بد قسمتی کہئے کہ اس روز نظر بچانے میں چوک ہوگئی۔ خاکروب کئی دنوں سے تپا بیٹھا تھا۔ انہیں ایسا کرتا دیکھ کر چیخ اٹھا۔

“اتنا بڈھا ہوگیا ہے، عقل نہیں آئی تجھے؟”

خاکروب کا انہیں بوڑھا کہنا کوئی غلط نہ تھا۔ چودہ پندرہ برس کی عمر میں وہ پینتالیس، پچاس کے نظر آتے تھے۔ یہ سننا تھا کہ وہ دوڑ کے گھر میں گھس گئے۔ اس اندیشے سے گھر کا دروازہ بند کرکے کنڈی چڑھا لی کہ کہیں وہ جھاڑو سے ان کی پٹائی نہ کردے۔ خاکروب اپنی یونین کا جنرل سیکرٹری تھا۔ خاکروب کا کہا وہ مکالمہ فلمی انداز میں ایکو کے ساتھ دن بھر بار بار ان کے کانوں میں گونجتا رہا۔ “اتنا بڈھا ہوگیا ہے، عقل نہیں آئی تجھے؟” وہ سارا دن دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ کر گردن ہلاتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ “نہیں …… نہیں ……” پکارتے رہے۔ اگلے ہی روز ہمت کرکے اپنے گھر کی کھڑکی سے گردن نکال کر خاکروب کو دھمکی دے دی کہ وہ جب بھی بڑے ہوئے علاقہ کونسلر بنیں گے اورپھر اس سے بدلہ چکائیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے پھُرتی سے اپنی گردن اندر اچک کر کھڑکی بند کرلی۔ خاکروب ہاتھ پاؤں کا ہلکا تھا۔ بالم میاں کی بڑا ہو کر علاقہ کونسلر بننے والی بات ناقابل فہم تھی کیوں کہ چہرے مہرے سے ان میں مزید بڑا ہونے کی گنجائش نظر نہ آتی تھی۔ بہرکیف ان کا یہ اظہار ابتدائی طور پر فرطِ جوش اور غصے کا نتیجہ تھا، جو آئندہ چند روز میں فراموش ہوسکتا تھا۔ تاہم بدقسمتی سے خاکروب ڈھیٹ قسم کا آدمی تھا۔ وہ پھر جب کبھی انہیں دیکھتا، دانت نکال کر ہنستا اور طنزیہ کہتا ۔“ابے تُو کونسلر بنے گا؟”

خاکروب کے اس طعنے کو جب بھی سنتے، اسے ایک نئے چیلنج کے طور پر لیتے۔ یوں ہر رات کونسلر بننے کی نئی امنگ، ایک نئے خواب کی صورت میں ان میں بیدار ہوتی۔


یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی زندگی میں دو اہم موڑ آگئے ایک تو وہ جوان ہوگئے اور دوسرے ان کے علم میں یہ بات آئی کہ جنرل کونسلر بننے کے لیے بندے کا سیاست دان ہونا ضروری ہے۔ یہ بات ایک کایاں قسم کے دوست نے ان سے چکن تکہ کھاتے ہوئے بتائی۔ اس کے بتانے کا انداز اتنا عمدہ تھا کہ بالم میاں فوراً سمجھ گئے۔ ان کے سمجھنے کا ثبوت یہ تھا کہ دوست کے انکار کے باوجود اس کے لیے ایک اور تکے کا آرڈر دے دیا۔ حالانکہ وہ دو تکے پہلے ہی کھڑکا چکا تھا۔ دوست نے مشورے کے عوض کئی ہزار روپے اینٹھ لیے۔ یوں اس نےمشیر خاص کے درجے پر خود کو فائز کرلیا۔

دوست کے مشورے اور اصول سیاست کی رو سے بالم میاں سیاست کے لیے انتہائی موزوں ہی نہیں ضروری شخصیت بھی تھے۔ سیاست میں فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ بندہ جیل یاترا نہ کرلے۔ یہ یا ترا تو وہ پہلے ہی کرچکے تھے۔ کچھ عرصے قبل پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کے جرم میں بالم میاں اندر ہوچکے تھے۔ لین دین کے کسی مسئلے پر محلے کے دو افراد کے درمیان باضابطہ مکے بازی اور فلائنگ ککوں کا مظاہرہ ہوا۔ بالم میاں ازراہ ہمدردی جھگڑا ختم کرانے کے چکر میں ان دونوں کے گھونسوں اور لاتوں کی زد میں آگئے۔ اتفاق سے علاقہ پولیس وہاں پہنچ گئی۔ اندیشہ نقص امن کے شبہے میں بالم میاں سمیت تینوں افراد کو گرفتار کرلیا۔ فریقین جن کے مابین جھگڑا تھا، اُس رات وہ دو نوں تو شخصی ضمانتوں پر رہا ہوگئے۔ لیکن بے چارے بالم میاں پر اگلی دو راتیں مع ایک دن نہایت بھاری گزرے۔ انہیں جسمانی ریمانڈ پر تھانے میں بند رہنا پڑا۔ ان کے خلاف دو معصوم اور بے گناہ شہریوں کو ورغلا کر سرِراہ لڑائی کرانے کے جرم میں پرچہ کاٹ دیا گیا تھا۔

بالم میاں کے سیاست میں پاؤں رکھنے کا فیصلہ کوئی چھوٹی موٹی بات نہ تھی۔ اس فیصلے سے ایوانِ اقتدار میں کھلبلی مچنا لازم تھی۔ لیکن اگلے دو ماہ تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ کھلبلی کی نوعیت کیا تھی؟ آیا کہ مچی بھی یا نہیں؟ بہر کیف مشیر دوست کو دو ہزار روپے بطور مشورہ فیس ادائیگی کی بعد وہ انہوں نے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں کی پریس کانفرنس طلب کی۔ پریس کانفرنس کی خاص بات وہاں ناشتے کے لیے رکھے گئے آلو کے سموسوں اور چکن پیٹس کے ساتھ قیمے کے سموسوں اور بیف پیٹس کا حسین امتزاج تھا۔ جب کہ اس پرہجوم پریس کانفرنس کی عام بات یہ تھی کہ اس میں صحافی حضرات صرف دو تین ہی تھے۔ لیکن محلے کے بچوں اور پٹوڑی، تلنگے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد نے اس میں شرکت کرکے بالم میاں کو مسرت کا موقع فراہم کیا تھا۔ یوں انہیں اپنا سیاسی مستقبل انتہائی روشن دکھائی دے رہا تھا۔ اگلے روز انہوں نے قریبی اخبار فروش سے تمام اخبارات خرید لیے۔ شام تک باری باری اخبارات کئی بار دیکھے۔ بالم میاں نظر نہ آنا تھے، نہ آئے، وہ تو کئی روز بعد معلوم ہوا جن افراد کو وہ صحافی حضرات سمجھ رہے تھے، وہ دراصل بینکوں کے ریٹائرڈ ملازمین تھے، جو کوئی کام نہ ہونے کے باعث روزانہ مختلف پریس کانفرنسوں اور سماجی تقریبات میں شرکت کرتے اور اختتام پر وہاں پیش کردہ سامانِ خورونوش سے شغل فرماتے تھے۔

بالم میاں کو پریس کانفرنس میں اٹھنے والے اخراجات پر کوئی ملال نہ تھا۔ تاہم اخبارات میں خبر اور تصویر شائع نہ ہونے نے انہیں مغموم کردیا تھا۔ اس غم کی وجہ سے وہ چند ہی گھنٹوں میں نڈھال ہوگئے،تھے۔ اسی وجہ سے اپنے غسل خانے میں پھسل کر گر گئے۔ ان کا سر نکلے پر جا لگا، جس کے ٹوٹنے سے پانی کا فوارہ اُبل پڑا۔ گرنے کے باوجود ان کی کھوپڑی سیف اینڈ ساؤنڈ رہی۔ جانے کس میٹریل کی بنی ہوئی تھی۔ نلکا بہرحال میڈان چائنا تھا۔ یوں وہ ایک نلکے کی قربانی دے کر میدان سیاست میں مکمل طور پر داخل ہوگئے۔

سیاست میں داخل ہوتے ہی انہوں نے قومی مخلوط حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کردیا۔ یہ مطالبہ انہوں نے اپنے بچوں کی موجودگی میں بیگم سے کیا۔ یہ سنتے ہی بیگم آپے سے باہر ہوگئیں۔ گھر میں ایجی ٹیشن کی فضاء قائم ہوگئی۔ اگر بچیوں نے اماں کو نہ روکا ہوتا تو بالم میاں دنیا کے پہلے “شہید عائلی سیاست” ہوجاتے۔ ان کی بیگم غیر سیاسی اور غیر جمہوری مزاج کی حامل ہیں۔ سمجھیں کہ وہ اپنے مرد ہونے کا استحقاق استعمال کرتے ہوئے بیک وقت مزید تین شادیاں کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

سیاست دان ہونا بھی ایک بیماری ہے۔ بندہ سیدھا بیٹھ نہیں سکتا۔ مطالبہ، مذمت، احتجاج، استحقاق، حق اور ایسے دیگر الفاظ جس سے دوسرا چڑتا ہو، اس کے منہ سے اس طرح نکلتے ہیں جیسے دکھ و تکلیف میں “ہائے اماں، ہائے اماں” نکلتا ہے۔ مشیر دوست کے مشورے کے بموجب جب بالم میاں پر لازم تھا کہ ہمہ وقت ان الفاظ کا سوچے سمجھے بغیر ورد کرتے رہیں، تاکہ ایوانِ اقتدار میں خوف کی فضاء قائم رہے۔ اگر خوف باقی نہ رہے تو کام ٹھیک سے نہیں ہوتا۔ یوں وطن عزیز کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اقتدار سے باہر رہنے والے سیاست دان کم از کم ایک تسبیح روزانہ ان الفاظ کی لازماً پڑھیں۔ شروع شروع میں بالم میاں مختلف حکومتی اقدامات پر پُرزور احتجاج کرتے اور اگلے روز اخبار فروش سے تمام اخبارات خرید فرما کر اپنا بیان ڈھونڈتے، جو کبھی نظر نہ آیا۔ بعدازاں مشیر نے بتایا کہ سیاست دان صرف بیان دیتے ہیں، اخبار نہیں پڑھتے۔ اگر اخبار پڑھیں گے تو بیان کب دیں گے؟ احتجاج اور مذمت کب کریں گے؟ انہیں چاہیے کہ صرف بیان دیں، اخبارات دیکھ کر اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ اس کے باوجود وہ کبھی کبھار اخبار دیکھ ہی لیا کرتے جن میں بالم کی “ب”تک نہ ہوتی۔ ایک روز طیش میں آکر انہوں اپنے مشیر دوست پر چڑھائی کردی۔

“ابے بیانات دے دے کر منہ خشک ہوگیا ہے، اخباروں میں اس کی بوند تک نہیں آتی۔ کیا بے وقوف سمجھتا ہے مجھے؟”


مشیر دوست بوکھلا گیا۔ وہ گزشتہ کئی ماہ سے ان سے فی بیان فی اخبار پانچ سو روپے وصول کرتا رہا تھا۔ اس نے اپنے حواس پر قابو پانے کے بعد انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے آئندہ ایسی کوئی بات منہ سے نکالی تو وہ ان کی مشاورت سے مستعفی ہو کر وہ کسی بین الاقوامی تیل یا گھی کی کمپنی جوائن کرلے گا۔ حالانکہ اس نے یہ دھمکی سیاسی اندز میں دی تھی۔ وہ بھلا بالم میاں سے جدائی کا کیونکر متحمل ہوسکتا تھا۔ اس نے سپر ہائی وے اسکیم 33 کے ایک پلاٹ پر مکان کی تعمیر کرانا شروع کردیا تھا۔ جس کی تکمیل بالم میاں کے سیاسی کارِ خیر کے بغیر ممکن نہ تھی!

وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ دوست کے مکان کی تعمیر جاری رہی۔ اسی دوران حکومت نے شہری حکومت کے انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ بالم میاں کی دلی مرادیں برآنے اور دوست کے لیے انڈوں سے مرغی کھانے کا وقت آگیا۔ پڑوسیوں کو جیسے ہی ان کے آزاد امیدوار برائے جنرل کونسلر ہونے کا علم ہوا، ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے۔ پڑوسیوں کے ساتھ پورا خاندان ان کے گھر امنڈ آیا جو ایک شادی والے گھر کا نقشہ پیش کرنے لگا۔ محلے بھر کی خواتین اور بچیوں نے ان کے یہاں ڈیرے ڈال لیے۔ مردوں اور نوجوان لڑکوں کے لیے گھر کے باہر شامیانے تان دیے گئے۔ پڑھی لکھی خواتین اور لڑکیوں نے ووٹر کارڈز لکھنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ تاہم وہ کارڈ کم لکھتیں، باورچی خانے میں زیادہ مصروف نظر آتیں۔ یوں النواع و اقسام کی ڈشزبناتیں اور باہر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے اپنے اپنے خاوند کو بھیجواتیں۔ وہ انہیں کھاتے، ڈکاریں مارتے اور بالم میاں کی کامیابی کے لیے ہاتھ اٹھا کر خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں مانگتے۔

بالم میاں کی پانچویں نمبر کی سالی نہایت سمجھ دار اور سلجھی ہوئی خاتون نظر آتی ہے۔ اس نے خواتین کے ووٹوں کی اہمیت سے انہیں آگاہ کیا۔ یہ سنتے ہی بالم میاں بے قرار ہوگئے۔ وہ عورتوں کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ سالی نے مشورہ دیا کہ خواتین کا بھی ایک جلسہ منعقد کرانا ضروری ہے۔ جلسے کے دوران وہ اپنا زورِ خطابت دکھانے کے لیے بے چین تھی۔ اس کا شوہر پہلے ہی اس کے زورِ خطابت اور زورِ بازو سے بے حد متاثر تھا یہی وجہ تھی کہ شادی کے پانچ برس میں اس کی ناک کی ہڈی تین بار متاثر ہوچکی تھی۔ بالم میاں نے قریبی میدان میں شامیانے لگوا کر جلسے کا اعلان کردیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا شاید واحد جلسہ ثابت ہوا۔ سینکڑوں خواتین پر مشتمل اس جلسے میں بالم میاں اسٹیج پر اندر کمار بنے سالیوں کی جھرمٹ میں بیٹھے تھے۔ ان کی بیگم نے پرجوش نعرہ لگایا “تیرے میاں، میرے میاں”۔جواباً آوازیں آئیں ،“بالم میاں، بالم میاں” ابھی نعرہے تھمنے بھی نہ پا ئےتھے کہ اسٹیج ہلنے لگا۔ اگلے ہی لمحے کسی نادیدہ قوتوں نے اسٹیج کو تقریباً کوئی پونے آٹھ فٹ اونچا اٹھا دیا۔ خواتین کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ شور مچا کر خوف زدہ ہو کرباہر کو دوڑ گئیں۔ اِدھر اسٹیج خلا میں لہرانے لگا۔ بالم میاں نے کرسی پر مضبوطی سے ہاتھ جما دیے۔ پھر کیا تھا ،اسٹیج نیچے گرا اور وہ منہ کے بل گر پڑے۔مردوں کا ایک ہجوم اسٹیج تک پہنچ گیا۔ وہ غصے کے عالم میں بالم میاں کو ڈھونڈنے لگے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوئی کہ بالم میاں اسٹیج کے نیچے اوندھے کرسی میں اس طرح پھنس کر چھپ گئے تھے کہ ان کی دونوں ٹانگیں جسم سے نوے ڈگری کا زاویہ بنائے ہوئے تھی۔ سر دونوں رانوں کے نیچے تربوز کی طرح پھنسا ہوا تھا۔ دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ مخالف امیدوار کے کارکنوں نے حملہ کردیا ہے۔ حالانکہ حملہ کرنے والے لوگ شامیانے میں موجود خواتین کے محرم تھے۔ جو باہر کھڑے تھے وہ بالم میاں کی بیگم کی جانب سے لگائے گئے زوردار نعرے “تیرے میاں میرے میاں …… بالم میاں، بالم میاں” کے پُر جوش مگر ان کے لئے دل خراش نعرے پر بپھر گئے تھے۔ بالم میاں کے جسم کی جیومیٹری نے انہیں ہجوم کے غصے سے بچالیا تھا۔ انہوں نے انہیں بندر کی شکل والا اود بلاؤ سمجھا۔انہیں دیکھ کر اکثر افراد کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

الیکشن کا دن بھی جیسے تیسے آگیا۔ بالم میاں کی شاندار کامیابی یقینی تھی۔ انہوں نے حلقے کے تمام ووٹرز کو ان کے گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک گاڑیوں میں پہنچانے کا بندوبست کر رکھا تھا۔ خواتین کے لیے مخصوص گاڑی تو وہ خود چلا رہے تھے۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد لوگوں کا ایک بڑا ہجوم ان کے گھر کے باہر نعرے بازی میں مصروف تھا۔ مشیر دوست کے مشورے پر ان کے لیے چائے کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اسی طرح لگ بھگ چالیس گاڑیاں تیار رکھی گئی تاکہ جیت کا اعلان ہوتے ہی انہیں جلوس کی شکل میں علاقے کی سیر کرائی جائے تاکہ حلقے کے لوگ بالخصوص بچے انہیں دیکھ کر خوش ہوں۔ اس کے علاوہ دس دیگیں بریانی کی تیار کرائی گئیں۔ نتیجہ آنے میں جب کچھ دیر ہوگئی تو وہاں موجود عوام کے لیے کھانا شروع کرا دیا گیا۔ بریانی اگر ٹھنڈی ہوجائے تو مزا نہیں دیتی۔ بالم میاں ازخود دیگ پر بیٹھے ڈشز میں بریانی نکال رہے تھے۔ بلاشبہ اس کام کے وہ ماہر ہیں۔ اگر یہ ذمہ داری کسی اناڑی کو سونپی جاتی تو بریانی کا ستیاناس ہوسکتا تھا۔ بالآخر نتیجہ بھی آگیا۔ انہیں حیرت انگیز طور پر صرف گیارہ ووٹ ملے تھے جب کہ اس وقت چار سو سے زیادہ افراد کھانا تناول کرتے ہوئے ذائقے کی باضابطہ تعریف کر رہے تھے۔

مشیر دوست جو کہ ان کا چیف پولنگ ایجنٹ بھی تھا، حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے انہیں کچھ بتائے بغیر خاموشی کے ساتھ اپنے نئے تعمیر شدہ مکان بمقام سپر ہائی وے اسکیم 33 جا چھپا۔ وہ مکان دو روز قبل ہی بالم میاں کے سیاسی کارِ خیر سے پائیہء تکمیل کو پہنچا تھا۔ بے چارے نے دن بھر کی مشقت کے باوجود بریانی چکھی تک نہیں۔ گو کہ بالم میاں کا حلقہ مقتدر میں داخل ہونے کا خواب تو پورا نہ ہوسکا لیکن قدرت نے ان کے دوست کو نئے گھر کی شکل میں ایک چھت ضرور فراہم کردی تھی!!!! ###

Muhammad Younus Chhotani
About the Author: Muhammad Younus Chhotani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.