جب آپ کسی نوجوان کو کہیں کہ آپ نوکری چھوڑ کر”کھیتی باڑی“
کیوں نہیں کرتے تومنہ پر نہ سہی لیکن پیٹھ پیچھے وہ ضرور کہتا ہو گا کہ
”پاگل ہے یہ مفت میں تنخواہ مل رہی ہے یہ کس چکر میں ڈالنے لگا ہے“۔پھر
بغیر کوئی تجربہ کیے ہم اپنے طور پر یہ فیصلہ کر چکے ہوتے ہیں کہ زمینوں سے
کچھ نہیں اگتا۔ایسے ہی وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔اور اب تو موسم ہی بدل گے
ہیں۔اب تو زمینیں بنجر ہی ٹھیک ہیں۔ میری اپنی بھی یہی رائے تھی لیکن چند
دن پہلے صحافی دوستوں کے ہمراہ ملوٹ (باغ) میں ایک زمیندار محمد رشید سے
ملاقات کی اور ان کے فارم ہاوسز دیکھے تو رائے یکسر بدل گئی۔
ملوٹ ضلع باغ کا ایک گاؤں ہے جو باغ شہر سے تقریباًسترہ کلومیٹر شمال مغرب
کی جانب واقع ہے۔اس گاؤں کے چھوٹے چھوٹے قصبات ہیں۔”بن گراں“ ان ہی قصبات
میں سے ایک قصبہ ہے۔یہاں مختلف قبائل آباد ہیں لیکن مثالی ہم آئیگی پائی
جاتی ہے۔دیگر قصبات کی نسبت اس قصبہ میں لوگ زراعت کی جانب زیادہ مائل ہیں
اور اس کی وجہ وہ 75 سالہ شخص محمد رشید زمیندار ہے جس نے محکمہ ڈاکخانہ
جات اور تعلیم میں کچھ عرصہ سروس کی لیکن نوکری کو خیر آباد کہہ کر ”کھیتی
باڑی“ کی جانب توجہ دینی شروع کی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔بظاہر
تندرست،توانا اور حد درجہ مہمان نواز محمد رشید اپنے نام کے ساتھ فخریہ
زمیندار لکھتا ہے جس سے اس کی زراعت کے ساتھ لگن اور تجدید عہد صاف نظر آتا
ہے۔
محمد رشید زمیندار کے پاس ان کے اپنے حصے کی زمین صرف 8 کنال ہے۔اسی میں ان
کا ویوہیکل نما گھر بھی ہے۔وہ مکئی،گندم کی ریکارڈ فصل کاشت کرتے ہیں۔اگر
آپ پنجاب میں بھی کسی زمیندار کو بتائیں کہ ہمارے ہاں 8 کنال اراضی پر
سالانہ 64 من مکئی اور 75 من گندم کاشت کی جاتی ہے تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ
جائے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس دور آفتادہ قصبہ میں یہ سب حقیقت ہے۔بات
یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان 8 کنالوں میں 600 درخت بھی لگائے گے ہیں جن
میں سے 250 پھلدار درخت بھی شامل ہیں۔سالانہ 20 من لہسن بھی اسی زمین سے
پیدا کیا جاتا ہے جس کی مجموعی لاگت ایک لاکھ باسٹھ ہزار روپے(ہول سیل ریٹ)
بنتی ہے۔موسمی اور بے موسمی سبزیاں اس کے علاوہ ہیں۔8 کلو وزن کی مولی،570
گرام کا شلجم،24 کلو وزن کا کدو،اور عمدہ نسل کے سیب پیدا کرنے مارکیٹ کو
مہیا کرنے کا ریکارڈ بھی محمد رشید زمیندارکے پاس ہی ہے۔ محمد رشید زمیندار
کا حیرت انگیز کارنامہ تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں محکمہ زراعت کا قیام
1952 میں عمل میں لایا گیا اور 1995 میں اس محکمے میں ریفارمز لا کر اسے
جدید بنانے کی کوشش کی گئی۔سال 2019-20 کے لیے حکومت آزاد کشمیر نے اس
زراعت کے شعبہ کی ترقی کے لیے 500 ملین یعنی 50 کروڑ روپے مختص کیے۔مجھے اس
وقت حیرت ہوئی کہ جس محکمے کے پاس آزاد کشمیر بھر میں زرعی زمین بڑی تعداد
میں موجود ہے۔تمام اضلاع میں دفاتر و اسٹاف کے علاوہ کثیر تعداد میں بجٹ
بھی موجود ہے وہ اس 8 کنال اراضی کے مالک محمد رشید زمیندار کا محتاج محکمہ
ہے جو سالانہ 50 من کے قریب اس زمیندار سے مکئی کا بیج خریدتا ہے۔آزاد
کشمیر،کے پی کے اور پنجاب کے مختلف شہروں میں سبزیوں،پھلوں اور مکئی وگندم
کے بیجوں کی نمائش میں یہ شخص ٓازاد کشمیر کی نمائندگی کرتا ہے اور اب تک
سیکڑوں تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد انعامات حاصل کر چکا ہے۔بات یہاں پر ختم
نہیں ہوتی ملکی و غیر ملکی زرعی ماہرین،محکمہ زراعت کے اہلکاران،ایگریکلچر
جامعات کے طلبہ اس زمیندار کے فارم ہاوسز کا وزٹ کر چکے ہیں اور اب بھی
روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی اس شعبہ میں دلچسپی رکھنے والا شخص ضرور
ان کے گھر آتا ہے اور ان سے مل کر معلومات کا خزانہ سمیٹتا ہے۔ محمد رشید
زمیندار کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں جن پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ان
کی پیدائش کے بعد ایجاد ہونے والے آلات جن میں کمپیو ٹر،گھاس اور مکئی
کاٹنے کی مشینیں شامل ہیں زیر استعمال ہیں۔وہ اپنے لیب ٹاپ پر سارا ریکارڈ
محفوظ کیے ہوئے ہیں جسے سکھانے اور چلانے میں ان کے پوتے پوتیاں ان کی مدد
کرتے ہیں۔انہیں فصلوں اور پھلوں کی اقسام،بیماریوں اور موسمی تغیر کے
نقصانات کے علاوہ مارکیٹ سے بھی کمال کی واقفیت ہے۔ان کا اپنا سیل پوئنٹ
بھی ہے جہاں وہ مکئی،گندم اور سبزیوں کے بیج فروخت کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے
کہ وہ جو کام اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں اس میں زیادہ مزہ آتا ہے اور منافع بھی
زیا دہ ہوتا ہے۔ محمد رشید زمیندارموجودہ وقت کسانوں اور اور اس سے ملتی
جلتی پانچ تنظیموں کے سرپرست اعلیٰ ہیں اور علاقے میں زمیندار کی شہرت سے
ہی جانے جاتے ہیں۔ان کے اس تجربے سے درجنوں نوجوان مستفید ہو کر اپنے اپنے
خاندانوں کا سہارہ بن چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد رشید زمیندار جو قدرے کم پڑھے لکھے ہیں لیکن ایک
مکمل”جامعہ“ کا درجہ رکھتے ہیں۔محکمہ زراعت سمیت زرعی جامعات کو ان کی
خدمات مستعار لینی چائیے۔محکمہ زراعت آزاد کشمیر اپنی زرعی زمین جو اس کے
نزدیک ناقابل کاشت ہے اسے لیز پر اس طرح کے زمینداروں کو دینی چائیے تا کہ
اسے قابل کاشت بنایا جا سکے۔اگر محمد رشید زمیندار کا جاپانی املوک فیصل
آباد میں جا کر فروخت ہو سکتا ہے تو ہمیں پنجاب کی گندگی میں پیدا ہونے
والی سبزی لینے کی کیا ضرورت ہے۔نوجوانوں کے لیے محمد رشید زمیندار ایک
زندہ مثال ہیں۔انہیں نوکریوں کی تلاش کو ترک کر کے زراعت کے شعبے کو اپنانا
چائیے۔ محمد رشید زمیندار کا کہنا ہے کہ ”جس خاندان کے پاس دو کنال زرعی
زمین ہے اگر وہ اس پر منصوبہ بندی سے محنت کرے تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں
کہ وہ خاندان درمیانہ طرز زندگی سکون سے بسر کر سکتا ہے“ہمیں ان کے اس قول
سے اتفاق کرنا پڑے گا۔اگر آپ بھی اس شعبہ میں دلچسپی رکھتے ہیں ان سے اس
نمبر پر ماہرانہ رائے لے سکتے ہیں۔ |