ڈاکٹر سید ندیم حسین۔ اوسلو، ناروے
آج سے تیرہ چودہ سال پہلے کی بات ہے ۔ میں جاب سے گھر آیا۔ کھانا وغیرہ کھا
کے بیٹھنے لگا تو دیکھا کہ میری گیارہ سالہ بیٹی حرا صوفے پہ لیٹی تھی ۔ اس
کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہاتھا ۔ کہ وہ کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔ میں اس
کے قریب بیٹھ گیا ۔ اور پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کے کہا کہ لگتا ہے
میری بیٹی کوئی گہری بات سوچ رہی ہے۔ بیٹی میری طرف دیکھ کے مُسکرائی اور
کہا جی بابا جان میں کچھ سوچ رہی ہوں۔ میں نے استفسار کیا کہ میری بٹیا کیا
سوچ رہی ہے۔ ؟ وہ کہنے لگی بابا جان ایک بات تو بتائیں۔ ماموں جان ہاتھ
کھول کے نماز پڑھتے ہیں۔ اور آپ ہاتھ باندھ کے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیا نماز
پڑھنے کا طریقہ ایک نہیں۔؟ میں نے اسے بتایا۔ کہ بیٹا حضور نبی کریم ﷺ نے
دونوں طریقوں سے نماز پڑھی ہے۔ لہذا دونوں طریقے درست ہیں۔ بیٹی اُٹھ کے
بیٹھ گئی ۔ وہ فُٹ بال کے میچ شوق سے دیکھتی تھی۔ اس لیئے مثال بھی فٹ بال
سے ڈھونڈ کے لائی۔ کہنے لگی بابا جان یہ نہیں ہو سکتا۔ کہ اسلام کے سب سے
اہم رُکن کو ادا کرنے کا طریقہ ایک نہ ہو۔ جیسے اگر مانچسٹر یونائیٹڈ اور
چیلسی کا میچ ہو رہا ہو تو یہ نہیں ہو سکتا۔ کہ چیلسی کے لیئے الگ قانون ہو
اور مانچسٹر یونائیٹڈ کے لیئے الگ۔ اسی طرح حضور نبی کریمﷺ نے نماز ایک ہی
طریقے سے پڑھی ہو گی۔ کچھ دنوں بعد اس نے ایک اور سوال پوچھا جو میں نے ٹی
وی پہ ایک بہت بڑے عالم دین سے لائیو شو میں پوچھ لیا۔ مولانا صاحب حیرت
میں گُم ہو گئے۔ کم از کم میں نے وہ سوال کبھی نہیں سوچا تھا۔
یہ دو واقعات میرے ذاتی تجربات ہیں۔ مجھے یقین کامل ہے کہ تمام والدین ان
سوالات کا سامنا کرتے ہوں گے۔ کیونکہ آج کل الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی
بہتات نے نت نئے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اور بچے ہر چیز کو تنقیدی نگاہ سے
دیکھتے ہیں۔ ایسے میں ہم والدین بھی کسی رہنمائی کے طالب و متلاشی ہوتے
ہیں۔ ڈاکٹر عارف کسانہ نے ہمارا یہ کام آسان کر دیا ہے۔ پہلے انھوں نے سبق
آموز کہانیاں لکھی۔ اور اب سبق آموز کہانیاں2 بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ڈاکٹر
عارف کسانہ صاحب تحقیق ، علم ، تحریر اور تقریر کے اعتبار سے ایک انتہائی
متحرک شخصیت ہیں۔ وہ سویڈن کے کارولنسکاہسپتال میں محقق ہیں۔ کالم نگار
ہیں۔ قرآن پاک کا ماہانہ درس کرتے ہیں۔ کشمیر کے موضوع پہ وڈیوز بناتے ہیں۔
جو نہایت معلوماتی ہونے کی وجہ سےایک علمی خزینہ ہیں۔ سٹاک ہولم کی سماجی
اور سیاسی تقریبات میں ہر وقت سرگرم رہتے ہیں۔
اس سے پہلے ان کی کتابیں افکار تازہ اور سبق آموز کہانیاں شائع ہو چُکی
ہیں۔ اُن کی کتاب سبق آموز کہانیاں کا دُنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمعہ
شائع ہو چُکا ہے۔ اور کئی زبانوں میں تراجم ہو رہے ہیں۔ اسی طرح زیر نظر
کتاب سبق آموز کہانیاں 2 کے بھی یقینا» دوسری زبانوں میں تراجم ہوں گے۔ اس
کتاب کی خاص بات اس کی سادہ بیانی ہے۔ مصنف نے بھاری بھرکم تراکیب ، مشکل و
ثقیل الفاظ اور فلسفیانہ موشگافیوں سے اجتباب کیا ہے۔ اور بات کو سادہ ،
سلیس اور روزمرہ کی بولی جانے والی زبان میں بیان کیا ہے۔ انداز بیان عام
فہم مگر پر اثر ہے۔ کتاب ہے تو بچوں کے نام لیکن اس میں بڑوں کے سیکھنے کے
لیئے بہت کچھ ہے۔ اس میں موجود دینی اور تاریخی معلومات سے بڑی عمر کے لوگ
بھی استفادہ کر سکتےہیں۔ کتاب میں جن موضوعات پہ گفتگو کی گئی ہے مثلا»
عبادات کا مقصد اور اسوۂ حسنہ ﷺ وغیرہ۔ ان پہ لاتعداد ضخیم کتابیں موجود
ہیں۔ لیکن ایک تو وہ لکھی مذہبی نقطہ نظر سے گئی ہیں۔ دوسرے ان کی زبان
عالمانہ اور انداز خطیبانہ ہے جس کی وجہ سے عام لوگ اور خصوصا بچے ان
کتابوں سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں سبق آموز کہانیاں 2 ایک بہترین
متبادل ہے۔ مصنف نے ان دینی مسائل کو کہانیوں کی شکل میں پیش کر کے نہایت
دلچسپ بنا دیا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے۔ جیسے کوئی بزرگ کہانی سُنا
رہا ہو۔ مصنف نے مثالیں بھی روزمرہ کی زندگی سے دی ہیں جن سے بات کو سمجھنے
میں اور آسانی ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پہ وہ جب قرآن کا تعارف کرواتے ہوئے
بتاتے ہیں کہ قرآن ایک نیویگیٹر ہے۔ جو ہمیں سیدھے راستے کی طرف لے کرجاتا
ہے۔ اور جہاں ہم غلطی کرتے ہیں قرآن ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ نیویگیٹر کی
مثال سے ہی قرآن کی اہمیت کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
دینی مسائل سمجھانے کے علاوہ کتاب میں عام معلومات بھی دلچسپی کا باعث ہیں،
جیسے شہد کی مکھی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک مکھی اپنے جسم کے وزن سے
پانچ سو گنا زیادہ وزنی شہد کا مادہ چوس کے لاتی ہے۔ اور ایک چمچ شہد بنانے
کے لیئے اسےدو ہزار پھولوں کا رس چوسنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پانچ سو گرام شہد
بنانے کے لیئے دو لاکھ مرتبہ پھولوں کا رس چوسنا پڑتا ہے۔ اور اس کے لیئے
اسی ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ کتاب میں مسلمانوں کی سائنسی
اور علمی خدمات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ جس سے بچوں اور بڑوں کی
معلومات میں گراں قدر اضافہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب قرآن سے
دوری ہے۔ اور اس کا مطلب عموما» عبادات سے دوری لیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن خود
اپنا مقصد ینفع الناس بتاتا ہے۔ یعنی انسانیت کی فلاح۔ انسانیت کی فلاح کے
لیئے علم و ہنر بنیادی چیز ہیں۔ انسانیت کا احترام لازمی ہیں۔ جن اقوام نے
دُنیا میں ترقی کی ہے انھی اصولوں کے تحت کی ہے۔ مصنف بھی انھی قرآنی
اصولوں کا پرچارک ہے ۔ اور سبق آموز کہانیاں 2 میں انھوں نے اسی کی ترغیب
دی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عبادات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
کتاب کی ایک اور خاص بات کسی قسم کے مذہبی فرقے سے قطع نظر عبادات کے مفہوم
کاذکر ہے۔ مثلا» رمضان اور جہاد کےبارے میں بتاتے ہوئے مصنف نے فرقہ واریت
سے بالا تر ہو کرخالص قرآنی نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ نئی نسل کو ذہن نشین
کروانا بہت ضروری ہے کہ فرقہ واریت قرآنی نقطہ نگاہ سے شرک ہے۔ قرآن نے جا
بجا فرقہ واریت سے منع فرمایا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے سؤر کا گوشت کھانے،
جھوٹ بولنے یا غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
برصغیر کی تاریخ علامہ اقبال اور سر سید احمد خان جیسے رہنماؤں کےذکر کے
بغیر ادھوری ہے۔ مصنف نے ان دو رہنماؤں کا تعارف بھی کروایا ہے۔ تاکہ بچوں
کو ان کے کارناموں سے بھی آگاہی حاصل ہو سکے۔
الغرض سبق آموز کہانیاں2 کی زبان سادہ ، عام فہم اور پُر اثر، انداز بیان
دلکش اور تعلیمی ہے ۔ کتاب کے مضامین متنوع اور معلوماتی ہیں۔ یہ تمام پہلو
کتاب کوہر پیر و طفل کے لیئے دلچسپ اور مُفید بناتے ہیں۔ یہ کتاب مصنف کی
اس سعیء پیہم اور جہد مسلسل کا حصہ ہے جو وہ اپنے کالمز ، کتب، وڈیو
پیغامات اور سماجی تقریبات کے ذریعے پاکستان اور اسلام کے لیئے کرتے رہتے
ہیں۔ ہم اُن کی کوششوں کی کامیابی کے لیئے دُعا گو ہیں۔ اور دامے، درمے،
قدمے سُخنے ان کے ساتھ ہیں۔
|