بچپن میں اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی محلے میں رونق لگ
جاتی تھی ۔ہم اسلام آباد کے سرکاری گھر میں رہتے تھے اس وقت ان گھروں کے
باہر کی دیواریں چھوٹی ہوا کرتی تھیں ۔حالات بھی پرسکون تھے چوری کا ڈر
نہیں ہوتا تھا سب کے مین گیٹ سارا دن کھلے رہتے تھے ۔محلہ کیا تھا خاندان
تھا سب کا ۔ایک دوسرے کے گھر سے محبت کا تعلق تھا کونکہ سب اپنے خاندان سے
دور سرکاری نوکری کی غرض سے اس شہر میں تھے ۔یہ سن اسی کا زمانہ تھا ۔
قریب کی مارکیٹ سے جھنڈیاں خریدی جاتیں انکو سنبھال کےجان سے زیادہ عزیز
رکھا جاتا ۔اسلام آبادمیں کسی بھی وقت اچانک تیز بارش ہو جاتی تھی اس لیۓ
آخری دن سب کے گھر سجتے ۔مگر کیا خوب سجتے پورے پورے صحن جھنڈیوں سے بھرے
جاتے ۔محلے کا ہر گھر سجا ہوتا ۔14اگست کو ہم بچے صبح ہی اٹھ جاتے اور سب
سے پہلے باہر جا کر اپنا سجا گھر دیکھ کر خوش ہوتے ۔بچوں کا اصل میں اندر
ہی اندر ایک دوسرے سے مقابلہ ہوتا تھا کہ کس کا گھر اچھا سجا ہے ۔اس وقت
ماں باپ بھی ساتھ ہوتے تھے بچوں کے کونکہ سرکاری دفتر کی دوپہر میں چھٹی ہو
جاتی تو ابّا گھر آ جاتے ماں بھی گھر پے موجود ۔کیا خوب زمانہ تھا آج کے
دور سے بلکل مختلف اب راتوں کو دیر سے آنا باپ کا معمول ہے کچھ بیچارے
نوکری کی سختی کی وجہ سے لیٹ ہو جاتے ہیں تو کچھ لوگوں کی زندگی باہر
دوستوں میں زیادہ گزرتی ہے۔ آج کی ماں بھی مصروف ہے زیادہ تر تو گھر چلانے
کے لیۓ جاب کر رہی ہیں اور کچھ شوقیہ بھی ۔اب بچوں کو وہ بچپن نہیں مل رہا
جو ہم نے گزارا ۔جس کو یاد کر کے آج بھی ہم مسرور ہوتے ہیں ۔اب ڈیجیٹل دور
ہے جس طرح موبائل کی میموری ڈیلیٹ ہو جاتی ہے اسی طرح مجھے لگتا ہے آج کے
بچوں کی بچپن والی میموریبھی بہت جلد ڈیلیٹ ہو جائے گی ۔شاید جب یہ بڑے ہوں
انکے پاس بچپن کی اتنی خوبصورت یادیں نہ ہوں جتنی ہمارے پاس ہیں ۔
اور ہاں ایک بات اور جب ہم بچے تھے اور کبھی زمین پر کوئی جھنڈی گری نظر آ
جاتی تو پتا ہے ہم کیا کرتے تھے ؟ہم اسے اٹھا کر چوم کر آنکھوں سے لگاتے کہ
یہی ماں باپ نے سکھایا تھا ۔ |