نوکری نہیں روزگار

اگرچہ عام طور پرہر ریاست اپنے شہریوں کوروزگار کے حقوق اور روزی کمانے کا مناسب ماحول فراہم کرتی ہے تاکہ ایک طرف شہریوں کو روزی کمانے کے مواقع مل سکیں اور دوسری طرف ریاست معاشی طور پر مضبوط ہو سکے تاہم روزگار کا میدان نہایت وسیع ہے جس میں صنعت و حرفت، تجارت، زراعت، مشاورت (کنسلٹینسی) اورملازمت ( سرکاری و پرائیویٹ)کے ساتھ ساتھ بیشما ر دیگر شعبے بھی شامل ہوتے ہیں اس وسیع تناظر میں سرکاری ملازمت روزگار کا ایک جُزوی اور معمولی ذریعہ ہونے کے سبب محض ایک قلیل تعداد کو روزگار فراہم کرنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں نوکری کو غلامی سمجھا جاتا ہے اور باصلاحےّت لوگ بہت کم نوکری کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں روزگار کے دوسرے شعبوں میں ضروری ترقی نہیں ہو سکی اور وہاں مناسب حالاتِ کار کا بھی فقدان ہے اور دوسری طرف عام طور پر سرکاری ملازمت میں کام سے زیادہ مراعات اور قابلیّت سے زیادہ منصب مل جاتا ہے اسلئے ہر کوئی سرکاری ملازمت کے حصول کی خواہش کرتا ہے۔ چنانچہ ریاست سرکاری شعبوں میں بھرتی کو بھی شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کی ذیل میں شمار کرتی ہے اوربعض اوقات ضرورت سے زیادہ اور معیار سے کمتر لوگوں کو بھی بھرتی کر لیتی ہے۔ تاہم اصولی طور پر سرکاری ملازمت کی فراہمی میں میرٹ کا اصول بہرحال مقدم اور حقِ روزگار ثانوی حیثیّت رکھتاہے کیونکہ کوئی بھی روزگار یا بیروزگاری الاؤنس دیکر شہریوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ذمہ داری ریاست ہی کی ہے۔ یوں ریاست شہریوں کو روزگار دے کر گویا اپنی آئینی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہے مگرحقیقت یہ ہے کہ روزگار دینے کے ساتھ ساتھ تمام کارکنوں کو ہرقسم کے امتیاز اور استحصال سے پاک ماحول مہیا کرنے کی ذمہ داری بھی ریاست ہی کی ہے۔ جیساکہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل نمبر3 کے مطابق ریاست کارکنوں سمیت تمام شہریوں کو ہر قسم کے امتیاز اور استحصال سے پاک ماحول فراہم کرنے کیلئے پالیسی وضع کرنے کی پابند ہے اور آرٹیکل نمبر 18 ہر شہری کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کا حق دیتا ہے جبکہ آرٹیکل نمبر27 کے تحت ہر شہری کو علاقائی کوٹہ اور اپنی اہلیّت کے مطابق بلاامتیاز سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا حق حاصل ہے جبکہ آرٹیکل نمبر37(F) میں وعدہ کیا گیا ہے کہ ریاست لوگوں کی تعلیم و تربیّت اور زراعت، صنعت و حرفت اور دیگر شعبوں میں ترقی اور دیگر مناسب اقدامات کے ذریعے شہریوں کو امورِ سلطنت چلانے بشمول روزگار کرنے کے مناسب مواقع مہیا کرے گی۔ تاہم آرٹیکل نمبر38 شہریوں کے روزگار کے حقوق سمیت اُنکی معاشی و معاشرتی ترقی کیلئے ریاست کی ذمہ داریاں نہایت مفصّل طور پر بیان کرتا ہے۔ مثلاً ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو روزگار/ذرائع آمدن مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ کارکنوں کو مناسب حالاتِ کار (ورکنگ انوائرمنٹ)، آرام، تفریح، سوشل سیکورٹی اور معذوری، بیماری اور بیروزگاری کی صورت میں گزارہ الاؤنس کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ نیز شہویوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف سرکاری ملازمت پر تکیہ کرنے کی بجائے روزگار کے دیگر لامحدود شعبوں میں بھی کام کریں جیسا کہ قائدِ اعظم نے فرمایا ہے؛ کام، کام اور بس کام۔ (تحریر و تحقیق: اے آر نسیم ، سابق اسسٹنٹ الیکشن کمشنر)
 

Rauf Nasim
About the Author: Rauf Nasim Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.