حیدرآباد پاکستانی صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ
1935ء تک سندھ کا درالخلافہ تھا اور اب ایک ضلع کی حیثیت رکھتا ہے۔اپنی
موجودہ شکل میں اس شہر کی بنیاد غلام شاہ کلہوڑو نے1768ء میں رکھی۔ اس سے
قبل یہ شہر مچھیروں کی ایک بستی تھی جس کا نام نیرون کوٹ تھا۔تقسیم ہند سے
قبل حیدرآباد ایک نہایت خوبصورت شہر تھا اور اس کی سڑکیں روز گلاب کے عرق
سے نہلائی جاتی تھیں۔ بعد از برطانوی راج ، یہ اپنی پہچان کھو تا رہا اور
اب اس کی تاریخی عمارت کھنڈر میں تبدیل ہوگئیں ہیں۔ موجودہ حیدرآباد شہر کی
جگہ پہلے نیرون کوٹ نامی ایک بستی قائم تھی ، یہ دریائے سندھ کے کنارے
مچھیروں کی ایک چھوٹی بستی تھی۔ اس کا نام اس کے سردار نیرون کوٹ کے نام سے
اخذ کیا۔ دریائے سندھ کے متوازن میں ایک پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے گنجو ٹکر
کہتے ہیں۔ یہ بستی جوں جوں ترقی کرتی گئی ویسے ہی دریائے سندھ اور ان
پہاڑیوں کے درمیان بڑھنے لگی۔ چچ نامہ میں ایک سردار کا اکثر ذکر ملتا ہے
جس کا نام اعظم لوہانہ تھا ۔یہ برہمن آباد شہر کا سردار تھا اور اس کی
ملکیت میں دو علاقے آتے تھے۔ لوہانہ اور ساما 636ء میں لوہانہ کے جنوب میں
ایک بستی کا ذکر ملتا ہے جسے نارائن کوٹ کہا گیا ہے ۔ تاریخ نویسوں کا
ماننا ہے کہ نارائن کوٹ اور نیرون کوٹ ایک ہی بستی کا نام تھا۔تھوڑے ہی
عرصے میں اس پہاڑی سلسلے پر کچھ بدمت پجاری آبسے شہر میں اچھی تجارت کے
خواہش مند لوگ بستی ایک تجارتی مرکز تو بن ہی گئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ
دوسری اقوام کی نظریں اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھے نہ رہ سکیں۔ نیرون
کوٹ کے لوگوں کے پاس ہتھیار نہیں تھے ، بس فصلیں کاشت کرنے کے کچھ اواز تھے
۔ چنانچہ جب1711ء میں مسلمان عربی افواج نے اس بستی پر دھاورا بولا تو یہ
لوگ اپنا دفاع نہ کرسکے اور یہ بستی تقریباً فنا ہوگئی ۔ یہاں بس ایک قلعہ
اور اس کے مکین باقی رہ گئے تھے۔ بمطابق چچ نامہ اس قلعہ کو نیرون قلعہ کے
نام سے جانا جاتا تھا۔ "محمد بن قاسم اپنے لشکر سمیت اس قلعہ کے باہر آکھڑا
ہوا اور راجا داہر کو اپنی آمد کی اطلاع بھجوائی بعد از محمد بن قاسم نے
قلعہ کو بغیر جنگ و جتن ہی فتح کرلیا"۔" تاریخ کے مطابق نیرون کوٹ سے
حیدرآباد کا نام تبدیلی کچھ یوں ہوا کہ ۔ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے داماد مبارک
حیدر (حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) کے نام سے منسوب کرتے ہوئے نیرون قلعہ
کو حیدرآباد نام دیا گیا"۔ تالوور، کو لووال حکمرانوں کے درمیان 1843ء میں
ایک بڑی جنگ ہوئی جس کے بعد کے نتائج میں حیدرآباد، برطانوی حکمرانوں کے
قبضے میں چلا گیا ۔ کچھ عرصہ تک برطانوی جنرل چارلس جیمس نے کراچی کو
درالخلافہ بنایا۔کسی دور میں حیدرآباد میں زیادہ تر لوگ سندھی تھے کیونکہ
اکثر اشخاص جو اس شہر میں آتے تھے وہ اندرون سندھ کی جانب سے آتے تھے۔ یہ
یہاں پاکستان کے نامور ادارے سندھ یونیورسٹی میں پڑھنے آتے ہیں جو حیدرآباد
سے 33 کلو میٹردوری پر جام شورو میں واقع ہے۔ حیدرآباد میں اس کے علاوہ
بلوچ، اردو، پشتو اور پنجابی بولنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ حیدرآباد
شہرقبل تقسیم مقام کی نامور قوموں کا علاقہ تھا۔ لیکن جب 1947ء کے بعد
ہندوستان سے مہاجر قوم ہجرت کرکے شہر میں داخل ہوئی تو سندھیوں اور مہاجرین
میں فسادات چھڑ گئے ۔ موجودہ حالات بہتر ہوئے اور دونوں اقوام باہم خوش ہیں
مگر اکثر واقعات ان علامات کا اظہار کرتے ہیں۔ مذاہب کے اعتبار سے حیدرآباد
کے لوگ زیادہ ترمسلمان ہیں جبکہ ایک خاص مقدار میں سندھی ہندو بھی یہاں
رہائش پذیر ہیں ۔تقریباً2 فیصد آبادی مقامی عیسائیوں کی بھی ہے۔("حیدرآباد
میں اﷲ کے نیک و مقبول بندوں ( اولیاء اﷲ ) کے مزارات بھی ہیں جن میں مشہور
مزارات اولیاء ہیں۔" قدم گاہ مولا علی،سخی عبد الوہاب شاہ جیلانی ؒ، سید
محمود شاہ الوریؒ، ابو احمد مفتی خلیل میاں برکاتی قادریؒ ،حضرت غنی بابا
ؒ، حضرت مکی شاہ اصحابیؒ، حضرت بابا منصور ؒ ، حضرت بابا مہر شاہ بخاری،
حضرت جلالی بابا ؒ، بابا صلاح الدین ؒ، حضرت پیرزولی خان ؒ ، حضرت شاہ عبد
اللطیف بھٹائیؒ، سمیت دیگر اولیاء اکرام افضلیت خاص عام اور مقبول ترین
ہیں)۔
اس طرح اگر ذکر حیدرآباد کی شام کے وقت چلنے والی ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے دنیا
میں مشہور ہے ۔ اگر بات موسم کی جائے تو موسم ٹھنڈا ہو یا گرم شام ہوتے ہی
دریائے سندھ کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا یہاں کے شہریوں کی دن بھر کی تھکن دور
کردیتی ہے ، اس ہوا کی وجہ سے ایک سٹرک (شاہراہ) ٹھنڈی سٹرک کے نام سے
مشہور ہے ۔ کاروباری لحاظ سے اہمیت کاحامل ہے اور حیدرآباد صنعت و تجارت کے
لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے یہاں کی اہم صنعتوں میں
چوڑی، چمڑا، کپڑا اوردیگر صنعتیں شامل ہیں۔
اب بات کرتے ہیں حیدرآباد کے دیگر اہم مسائل کی جس کے باعث شہر حیدرآباد
اپنی قدیمی شناخت کھوتاجارہا ہے اور شہری شدید مشکلات اور پریشانی میں
زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس وقت اہم مسئلہ بلدیات کا ہے جس کے باعث حیدرآباد
شہر تباہ ہوگیا ہے شہر کی رونقیں ختم ہوتی جارہی ہیں ، روڈ ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہیں سٹرکوں پر گڑوں کاگندا پانی جمع ہے ، گڑ ابل رہے ہیں ، اس شہر میں
35 سال سے ایم کیو ایم نے مکمل حکومت کی ہے اور صوبے کے مرکز میں پیپلز
پارٹی کی حکومت چوتھی بار بھی جاری ہے اور ماضی میں ایم کیو ایم اور پیپلز
پارٹی دونوں صوبائی حکومت بھی ساتھ رہے ہیں اور کئی بار الگ بھی ہوتے رہے
ہیں اور اس طرح شہر کا بڑا نقصان بھی ہواہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں
ایم کیو ایم ناظمین کو کھل کر فنڈز جاری ہوئے اور شہر میں ترقیاتی کام بھی
کئے گئے جوکہ ریکارڈ ترقیاتی منصوبے شامل ہیں ، جن میں صاف پانی، گڑ کی نئی
لائنیں ، تفریحی پارکس، روڈ کی تعمیرات سمیت اہم منصوبے سر فہرست ہیں۔ یوں
سائنس کے مطابق انسانی بہترین صحت کے لئے بہترین صحت افزاء تفریحی پارکس
اور تفریحی گاہیں بہت ضروری ہیں۔ مگر موجودہ صوبائی اور بلدیاتی حکومت کی
نا اہلی کے باعث حیدرآباد کے پارکس اور جھڑ گئے اور واحد تفریحی گاہ رانی
باغ بھی تباہ ہوگئی ہے ، جانوربھوک پیاس سے تنگ آکر مر گئے اور جو موجود
ہیں کچھ جانور اور لوکل پرندے وہ گندگی اور نکاس انتظامات کے باعث اپنی
زندگی کے دشوار گزارا وقت کو گزار رہے ہیں اور کسی بھی وقت زندگی کی بازی
ہار جائے گے اور اس طرح یہ لوکل جانور بھی مرجائے گے۔ اگردیکھا جائے تو
ماضی سے اب تک شہر کی آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ایک اندازے کے
مطابق سالانہ 40فیصد اضافہ ہور ہا ہے، تقریبا 90 لاکھ کی آبادی اس شہر کو
اپنا کر بیٹھی ہے۔ ٹریفک کا مسئلہ اس شہر کا سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے جس
سے شہری شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔ جبکہ اہم ترین مسئلہ یہ بھی ہے کہ پینے
کے صاف پانی کے فلٹر پلانٹس لگائے تھے جوکہ اب سے ایک سال قبل ٹوٹ پھوٹ گئے
اور اب مکمل تباہ ہوگئے ہیں مگر ان کے باہر لگی سابقہ اور کچھ موجودہ ایم
این اے، ایم پی اے اور دیگر اہم عہدے داروں کی نام والی تختیاں بادستور
موجود ہیں۔ کھیلوں کے میدان مکمل طو ر پردیکھ بھال نہ ہونے پر برباد ہوگئے
ہیں ،کروڑوں روپے مالیت سے تیار کئے گئے میدان اور ان کے دروازے ٹوٹ گئے
ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ وارث کے ہوتے ہوئے شہر لاوارث ہے۔
میں اس شہر میں 30 سال سے رہ رہا ہوں یہاں پیدا ہوا ، پلابڑااورتعلیم حاصل
کی اور آج اس ہی شہر میں نوکری کررہا ہوں اور زندگی بسرکررہا ہوں ۔ مگر اس
طرح میری نظر میں اہم اور بنیادی مسائل ہیں جن کے حل کیلئے میں ایک بار پھر
صوبائی اور مرکزی حکومت کی جانب دیکھ رہا ہوں ، کیونکہ موجودہ صوبائی اور
بلدیاتی نظام مکمل طو رپر ناقص تھا مگر اب ایک بار پھر بلدیاتی الیکشن آرہا
ہے اور کچھ پرانے اور نئے پرانوں کے ساتھ مل کر عوامی رابطوں کے لئے گلی
محلوں میں کارنر میٹنگ سجارہے ہیں ، مگر میں اُس شخص کاانتخاب کرونگا جو
مجھے بھروسہ دلائیں کہ وہ میراہے اور میرے شہر کی کھوئی ہوئی شناخت لوٹا
سکتا ہے ۔
|