آنکھوں کی شرارت ، پیروں کی حماقت ،ہاتھوں کی کمائی اور ڈنڈوں سے پٹائی

وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے کملیش تیواری کے قتل کی جو تفصیل ذرائع ابلاغ میں بیان کی وہ بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے کہا قاتل کملیش سے ملنے کے لیے آئے اور حفاظت پر مامور پولس نے کملیش کی توثیق کے بعدملاقات کی اجازت دی۔ ان لوگوں نے مقتول کے ساتھ چائے پی اور مٹھائی نوش کی۔ گپ شپ کےدوران کملیش نے اپنے بیٹے اور ذاتی محافظ کو کچھ لانے کے لیےبازار بھیج دیا ۔ اس کا مطلب ہے اس وقت تک ماحول خوشگوار تھا۔ اس سے خود یوگی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نووارد کملیش کے شناساتھے۔ کملیش کا بیٹا جب لوٹا تو دیکھا کہ گلا کاٹ کر اسےہلاک کیا جاچکا ہے۔ یوگی انتظامیہ کا فرمان ہے کہ کملیش کے قاتل سورت سے آئے تھے اور ان کاپاکستان سے بھی رابطہ تھا۔ یہ قتل اتر پردیش کے ایک عالم دین کے ایماء کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کی کملیش کی شناسائی کیوں کر تھی؟ کملیش نے انہیں ملنے اجازت کیوں دی؟ ان کے ساتھ چائے پانی کیوں پی اور انہیں اپنے پاس روک کر ذاتی محافظ کو بیٹے سمیت بازار کیوں بھیجا ؟ کاش کے پولس اپنی اندھی لاٹھی بے قصور مسلمانوں پر برسانے کے بجائے ان سوالات کا جواب دیتی اور میڈیا اس پر حکومت کی کھال ادھیڑتا ؟ لیکن جس کی زبان پر رشوت کی نوٹ چپکی ہوئی ہو وہ بھلا لب کشائی کی جسارت کیسے کرسکتا ہے؟ان سوالات کی روشنی میں اب کملیش کے اہل خانہ کا الزام درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیتا پور میں واقع مندر پر قبضہ کرنے کی خاطر شیوکمار گپتا نے یہ قتل کروایا۔

سوشیل میڈیا پر فی الحال کسی نامعلوم سادھو سنت ایک ویڈیو خوب چل رہی ہے۔ اس میں بیان کردہ حکایت میں ایک شخص کسی پیڑ پر لگا پھل دیکھتا ہے۔ آنکھ اس کے قریب نہیں جاتی مگر پیر لے جاتے ہیں ۔ پیر پھلوں تک پہنچ نہیں پاتے مگر ہاتھ پھل کو توڑلیتا ہے۔ پھل کوہاتھ تو چکھ نہیں سکتے مگر زبان اس کا مزہ لیتی ہے۔ زبان اس کو اپنے پاس رکھ نہیں سکتی اس لیے معدہ کی جانب ڈھکیل دیتی ہے۔ معدہ پھل کو ہضم کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے مگر اس درمیان باغ کا مالک اس شخص کو پھل چرا کر کھاتے ہوئے دیکھ لیتا ہے اور پیٹھ پر لاٹھی برسانے لگتا ہے۔ گویا جو پشت اس پورے معاملے میں کسی طرح ملوث نہیں تھی ڈنڈے برداشت کرتی ہے۔ بالآخر آنکھ کے سوا کوئی اس کی ہمدردی میں آنسو نہیں بہاتا۔ اس طرح آنکھوں کوشرارت کی جزوی سزا تو مل جاتی ہے مگر پیروں کو ان کی حماقت اور ہاتھوں کو ان کی کمائی کا صلہ نہیں ملتا۔ زبان مزہ لے کر عیش کرتی ہے اور معدہ کھا پی کر مست ہوجاتا ہے ۔

اس مثال کو ہندو سماج پارٹی کے مقتول رہنما کملیش تیواری پر چسپاں کیا جائے تو نہایت دلچسپ صورتحال بنتی ہے۔ کملیش نے ہندوتوا کے درخت پر لگے گوڈسے کے پھل کو دیکھا ۔ اس کو پانے کے لیے ہندو مہا سبھا سے نکل کر ہندوسماج پارٹی بناکر اس پر سوار ہوکر پیڑ کی جانب چل پڑا۔ کملیش جیسے انتہا پسند کی نظر میں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا۔یہ پارٹی بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی کیونکہ اس کے زعفرانی بھکت مایوسی کا شکار ہوکرہندو سماج پارٹی کی جھولی میں پکے ہوئے پھل کی مانند گرسکتے تھے ۔ بی جے پی نے شیوکمار گپتا کا ہاتھ بڑھا کر کملیش کو شاخ سے الگ کردیا۔ یہ وہی شیوکمار ہے جس پر کملیش کی ماں کسم تیواری اپنے بیٹے کے قتل کی سازش کا الزام لگا یا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ یوگی حکومت کملیش سے ہمدردی جتا کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کررہی اور ہندوتوا کے پھل کا مزا لے رہی ہے۔ میڈیا اس پھل سے اپنا پیٹ بھر رہا ہے اور انتظامیہ بے قصور مسلمانوں کی پیٹھ پر ڈنڈے برسا رہاہے۔ کسی کو گجرات سے تو کسی کو اترپردیش سے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ان بے قصور لوگوں کے خلاف ککر متےّ کی مانندثبوت اُگ جاتے ہیں ۔ وہ لوگ بے چوں چرا اپنے ناکردہ جرم کا اقرار کرلیتے ہیں جن کا اس معاملے سے کوئیدور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ایسے رونے والی آنکھ کملیش کے اہل خانہ کے سوا کسی کی نہیں ہے۔ اس طرح یہ دائرہ مکمل ہوگیا ہے جس کے مرکز میں کملیش کے گھر والے آنسو بہا رہے ہیں اور محیط پر مسلمان پیٹھ سہلا رہے ہیں ۔ باقی سارے لوگ عیش کررہے ہیں ۔


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450006 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.