کچھ عرصہ قبل فیصل آباد ریلوے
روڈ سے گزر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں تین باریش نوجوان ایک روشن خیال (
تاریک خیال ) قسم کے نوجوان سے بحث میں مصروف ہیں ان باریش نوجوانوں میں
میرا ایک جاننے والا بھی تھا جو ایک دینی ادارے کا طالب علم بھی ہے ۔ میں
اس نوجوان سے ملاقات کے لیے رکا تو ان کے درمیان زیربحث موضوع کی وجہ سے
پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کلین شیو تھا اور انہیں روشن خیالی ( تاریک خیالی
) کا درس دینے کے ساتھ ساتھ بڑھ چڑھ کر جہاد اور مجاہدین کی مخالفت کر رہا
تھا ۔ جو مذہب کے لحاظ سے قادیانی تھا ۔ کیونکہ ان کی بحث کا رخ جہاد سے ہٹ
کر ختم نبوت کی طرف آگیا تھا ختم نبوت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو من و عن
تحریر کیے دیتا ہوں تا کہ دیگر لوگوں کو بھی پتہ چل سکے کہ کس طرح یہ
قادیانی ہماری سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں ۔ اور ہمارے
نوجوان اپنے ہی دین کے بارے میں لاعلم ہونے کی وجہ سے کس طرح ان کی شر
انگیزیوں میں پھنس کر اپنا ایمان تباہ کر بیٹھتے ہیں۔
قادیانی : جبرائیل علیہ السلام کی ذمہ داری کیا ہے ؟
مسلم : وحی لانا ۔
قادیانی : سورۃ القدر کی آخری آیت پڑھتے ہوئے کہنے لگا کہ اس آیت میں ”
تنزل “ آیا ہے جو فعل مضارع کا صیغہ ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جبرائیل علیہ
السلام قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے کیونکہ اسی آیت میں ” والروح “ کا لفظ
خاص جبرائیل علیہ السلام کے لیے بولا گیا ہے ۔ جب کہ آپ کے بقول جبرائیل
علیہ السلام کی ڈیوٹی ہی وحی لانا ہے تو آپ کو کیا اعتراض ؟ وہ جس پر چاہیں
وحی لے آئیں ۔
یہ دلیل سن کر وہ طالب علم لاجواب ہو گیا کیونکہ وہ نوجوان اس قادیانی سے
بات کرتے ہوئے بنیادی غلطی کر گیا تھا کہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی وحی
لانا ہے ۔ جبکہ جبرائیل علیہ السلام کی ڈیوٹی نہ صرف وحی لانا ہے بلکہ اللہ
تعالیٰ جب چاہے جس وقت چاہے جو مرضی ڈیوٹی سونپ دے جس کی واضح دلیل یہ ہے
کہ جبرائیل علیہ السلام نے بدر اور احد کے میدان میں وحی سے ہٹ کر فرشتوں
کی قیادت کرتے ہوئے کفار سے قتال کیا ۔ اسی طرح طائف کی وادی میں نبی کریم
علیہ السلام کی مدد کے لیے آئے اور اسی طرح جب جدالانبیاء ابراہیم علیہ
السلام کو جب آگ کے الاؤ میں پھینکا جانے لگا تو تب بھی مدد کے لیے آئے ۔
یہ ایک واقعہ تو میرے سامنے ہوا پتہ نہیں روزانہ ایسے کتنے واقعات رونما
ہوتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی مکمل طور پر قادیانی نواز ہے اور ہر معاملہ
میں قادیانیوں کو سہولتیں فراہم کر رہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاسپورٹ سے مذہب کا
خانہ ختم کر کے ان کو مکہ اور مدینہ میں شر پسندی کا کھلا موقع فراہم کیا
گیا ہے جب کہ ان کو 7 ستمبر 1974 کو اقلیت قرار دیا گیا تھا ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کل کے مسلم نوجوانوں بزرگوں اور عورتوں کو اپنے دین
کے متعلق ہی معلومات برائے نام ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ علمی میدان میں دلائل
دیتے ہوئے ان سے مات کھا جاتے ہیں ۔ اب میں مرزا قادیانی کی اصل کتابوں سے
چند دلائل پیش کرنے لگا ہوں تا کہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ ان کو مرتد کیوں
قرار دیا گیا ہے ویسے بھی سید آخرالزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان ہے کہ میرے بعد تیس 30 کذاب آئیں گے جو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کریں
گے اس حدیث کی رو سے اور تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں کے
دور میں ہی مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا اور مرزا قادیانی بھی
اسی کا پیروکار ہے اور اپنے آپ کو واضح طور پر نبی کہتا ہے ۔ اور ” کشتی
نوح “ میں یوں رقمطراز ہے ۔
” خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء
ہے اور سب سے بڑھ کر ہے اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس پر بروزی
طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی ہو کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جدا نہیں
اور نہ شاخ اپنی بیخ سے جدا ہے پس جو کامل طور پر مخدوم میں فنا ہو کر نبی
کا لقب پاتا ہے وہ ختم نبوت کا خلل انداز نہیں جیسا کہ تم جب آئینہ میں
اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہو سکتے بلکہ ایک ہی ہو صرف ظل اور اصل کا
فرق ہے ۔ سو ایسا ہی اللہ نے مسیح موعود میں چاہا ۔ یہی بھید ہے کہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا ۔ یعنی وہ
میں ہی ہوں ۔ ( کشتی نوح صفحہ24 )
اس تحریر میں پہلے تو مرزا صاحب واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے خاتم الانبیاء ہونے کا اقرار کرتے ہیں لیکن بعد میں آئینہ کی مثال دے کر
خود کو ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور
برملا طور پر کہہ رہے ہیں کہ جس پر بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی
ہو وہی نبی ہے ۔ جس بات سے مرزا صاحب کذب بیانی اور ہیرا پھیری سے کام لے
رہے ہیں ان کے جھوٹ کا پول فقط اسی بات سے کھل جاتا ہے کہ اس تحریر کے آخر
میں فرمان نبی کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا اور پھر کہتا ہے کہ وہ مسیح موعود
میں ہی ہوں ۔ اگر اب مرزا صاحب اپنے دعوے میں سچے تھے تو ان کی قبر مدینہ
منورہ میں ہونی چاہیے تھی نہ کہ قادیان میں اور ویسے بھی یہ دستور شروع سے
چلا آ رہا ہے کہ نبی جہاں فوت ہوتا ہے اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے کہ حقیقت
میں مرزا نبی تھا تو یہ لیٹرین میں مرا اسے وہیں دفن کرنا چاہیے تھا ۔ کشتی
نوح کے صفحہ نمبر 22 پر مرزا کچھ یوں رقمطراز ہے کہ” اب محمدی سلسلہ موسوی
سلسلہ کے قائمقام ہے مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر مثیل موسیٰ موسیٰ سے
بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت
کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا
جیسا کہ مسیح ابن مریم موسیٰ کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا بلکہ وہ
ایسے وقت میں آیا تھا جب کہ مسلمانوں کا حال وہی تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم
کے وقت یہودیوں کا حال تھا سو وہ میں ہی ہوں ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 22 )
اس تحریر میں مرزا صاحب اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام سے افضل ثابت کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے آپ کو مثیل ابن مریم ثابت کر رہے ہیں
ایسا شخص جو کسی ایک نبی کی گستاخی کرے وہ تو واجب القتل ہے ۔ اور پاکستان
کے اندر بھی گستاخ رسول کی سزا موت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و یورپ
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے اور شاتم رسول کو سزائے موت دینے والے قانون
کو ختم کروانے کے درپے ہیں اور ہمارے قادیانی نواز حکمران بھی ایسے بیانات
دیتے رہتے ہیں جن سے ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔ پاکستان میں شاتم رسول کو موت
کی سزا والے قانون کی وجہ سے سب سے پہلے قادیانی اس کا شکار ہوتے ہیں
کیونکہ مرزا صاحب نے نہ صرف جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا بلکہ جگہ جگہ پر
انبیاء کی توہین بھی کی ہے ۔ اگر مرزا کے دماغی توازن کا جائزہ لینا ہو تو
اسی ایک تحریر سے لیا جا سکتا ہے جس میں خود ہی مریم اور پھر خود ہی عیسیٰ
بن جاتا ہے ۔ لہٰذا کشتی نوح میں لکھتا ہے کہ : ” اس نے براہین احمدیہ کے
تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا پھر جیسا کہ براھین احمدیہ سے ظاہر ہے دو
برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردے میں نشوونما پاتا رہا ۔
پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براھین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ
496 میں درج ہے مریم کی طرح عیسیٰ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ
کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینہ
سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براھین احمدیہ کے حصہ چہارم
صفحہ 556 میں درج ہے مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا پس اس طور سے میں ابن
مریم ٹھہرا ۔ “ ( کشتی نوح صفحہ 69-68 )
کیا ایسا شخص جو پہلے اپنے آپ کو مثیل ابن مریم کہے پھر خود ہی مریم بن
جائے اور حاملہ ہو کر خود ہی ابن مریم بن بیٹھے اور کبھی اپنے آپ کو مسیح
موعود کہلائے تو کبھی اپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرنے کی
کوشش کرے تو کبھی اپنے آپ کو عیسیٰ سے افضل قرار دے ۔ مرزائی دوستوں کو بھی
سوچنا ہوگا کہ کیا ایسا مخبوط الحواس شخص نبی کہلانے کا حق دار ہے ۔ کیا
ایسا شخص قابل اتباع ہو سکتا ہے ، یقیناً نہیں ! تو پھر آئیے توبہ کیجیے
اور کلمہ توحید و رسالت کا اقرار کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیے اسی
میں فلاح اور کامیابی ہے ۔
مرزا قادیانی ” کشتی نوح “ میں ایک اور جگہ پر یوں رقمطراز ہے کہ : ” مجھے
قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے
زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہر گز نہ کر سکتا اور وہ
نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہر گز نہ دکھلا سکتا اور خدا کا فضل
اپنے سے زیادہ مجھ پر پاتا جب کہ میں ایسا ہوں تو اب سوچو کہ کیا مرتبہ ہے
اس پاک رسول کا جس کی غلامی کی طرف میں منسوب کیا گیا ۔ ذالک فضل اللہ
یوتیہ من یشاء اس جگہ کوئی حسد اور رشک پیش نہیں کیا جاتا خدا جو چاہے کرے
جو اس کے ارادہ کی مخالفت کرتا ہے وہ صرف اپنے مقاصد میں نامراد ہی نہیں
بلکہ مرکز جہنم کی راہ لیتا ہے ۔ ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے عاجز مخلوق کو
خدا بنایا ہلاک ہو گئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہ کیا مبارک
وہ جس نے مجھے پہچانا میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں
اسکے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ
میرے بغیر سب تاریکی ہے ۔ ( کشتی نوح ، صفحہ 81 )
اس تحریر میں بھی سراسر عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کی گئی اور اپنے آپ کو
عیسیٰ علیہ السلام سے افضل قرار دے رہا ہے ۔ جہاں تک مرزا قادیانی کے
نشانوں والی بات ہے واقعی وہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا ۔ عیسیٰ
علیہ السلام تو پھر بھی جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ ایسے نشان انتہائی حقیر
اور معمولی سے عقل والا انسان بھی نہیں دکھا سکتا ۔ اور جہاں تک مرزا
قادیانی کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ اس کے بغیر تاریکی ہے تو یہ ایسی ہی بات
ہے کہ نام ہو نور بھری اور رنگ ہو توے کی سیاہی سے بھی کالا ۔ |