شرب خون نبوی و بول مبارک کے متعلق صحیح حدیث مع اسناد

شرب بول نبوی کے موضوع پر فقیر کا یہ تیسرا کالم ہے اور اس سے پہلے فقیر اہل سنت کا موقف دلائل و براہین قاطعہ سے واضح کر چکا ہے کہ شرب بول نبوی کے متعلق روایات صحیح ہیں اور جلیل القدر ائمہ و محدثین ان کی طہارت کے قائل ہیں۔

لیکن ایک صاحب نے کچھ اسناد پر جرح کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شرب بول نبوی اور فضلات نبوی کی طہارت پر جو روایات پائی جاتی ہیں وہ ضعیف اور موضوع ہیں ۔ بارہا جواب طلبی کے باوجود وہ ایک بھی روایت کو موضوع یعنی من گھڑت ثابت نہیں کر سکے۔ لہٰذا اول تو ان کا یہ دعویٰ باطل ہوا اور فقیر کا موقف جو کہ اہل سنت کا موقف ہے درست قرار پایا ۔ فالحمد للہ علی ذلک

اس سے قبل دوسرے کالم میں فقیر کثیر ائمہء کبار فقہاء عظام و محدثین کرام علیہم الرحمۃ کی تصریحات ان کی کتب کے حوالے سے نقل کر چکا ہے کہ جمہور کا نظریہ فضلات نبوی کی طہارت کا ہے اور شرب بول نبوی کی روایات ان کے نزدیک معتبر ، مستند اور صحیح ہیں۔ چونکہ فریق مخالف کو بار بار اصرار ہے کہ حدیث مع اسناد کے تحریر کی جائے اس لئے اس کالم میں مکمل سند کے ساتھ حدیث تحریر کی جائے گی اور مزید راویوں کی توثیق بھی کبار محدثین سے نقل کی جائے گی ۔ ملاحظہ فرمائیں

امام طبرانی فرماتے ہیں:
حدثنا عبداللہ بن احمد بن حنبل ، ثنا یحیی ابن معین ، ثنا حجاج بن محمد ، عن ابن جریج عن حکیمۃ بنت امیمۃ ، عن امھا امیمۃ رضی اللہ تعالی عنہا، قالت
کان للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم قدح من عیدان یبول فیہ و یضعہ تحت سریرہ ۔ فقام فطلب فلم یجدہ۔ فسال فقال: این القدح ؟ قالوا شربتہ برۃ خادم ام سلمۃ التی قدمت معھا من ارض الحبشۃ۔ فقال النبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم:
لقد احتظرت من النار بحظار
حوالہ: المعجم الکبیر : الطبرانی "مسند النساء برۃ خادم ام سلمۃ، حدیث ۵۲۷ "(۲۰۶،۲۰۵) جلد ۲۴ طبع مکتبۃ ابن تیمیہ القاہرۃ

ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن احمد بن حنبل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیی بن معین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا وہ ابن جریج سے راوی ، وہ حکیمہ بنت امیمہ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے اپنی والدہ امیمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا ، وہ فرماتی ہیں کہ: نبی اکرم ﷺ کے یہاں لکڑی کا پیالہ تھا، جس میں آپ پیشاب فرماتے اور اسے چارپائی کے نیچے رکھ دیتے ۔ تو ایک مرتبہ حضور اٹھے اور اسے طلب فرمایا، مگر اسے موجود نہ پایا۔ تو دریافت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وہ پیالہ کہاں ہے ؟ (اہل خانہ نے ) عرض کیا کہ اسے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خادمہ "برۃ" رضی اللہ عنہا نے پی لیا ہے، جو ان کے ہمراہ حبشہ سے آئی ہوئی تھیں ۔ تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقیناً اس نے ایک مضبوط حصار کے ساتھ اپنے آپ کو دوزخ سے محفوظ کر لیا ہے"

اس حدیث کی اسنادی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے امام حافظ نورالدین الھیثمی لکھتے ہیں:
رواہ الطبرانی ، و رجالہ رجال الصحیح غیر عبداللہ بن احمد بن حنبل و حکیمۃ و کلاھما ثقۃ
یعنی اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس کے راوی صحیح (بخاری ) کے راوی ہیں سوائے عبداللہ بن ا حمد بن حنبل اور حکیمہ کے اور یہ دونوں بھی ثقہ ہیں۔ بحوالہ مجمع الزوائد و منبع الفوائد : الھیثمی کتاب علامات النبوۃ باب منہ فی الخصائص ، جلد ۸ ص ۲۷۰ طبع دارالکتاب العربی ، بیروت

اب تمام روایوں کی فردا فردا توثیق ائمہ حدیث و اکابر وہابیہ سے پیش کی جاتی ہے۔

امام ابوالقاسم الطبرانی کی اس حدیث کی سند میں کل چھ راوی ہیں:

۱۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل :
یہ امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے اور نامور شاگرد، جلیل الشان محدث اور مسند احمد بن حنبل کے مرتب و راوی اور سنن نسائی کے رجال میں سے ہیں۔ بحوالہ تہذیب التہذیب : العسقلانی جلد ۵ ص ۱۴۱ طبع مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف ، حیدرآباد دکن
خطیب بغدادی نے آپ کے بارے میں کہا
کان ثقۃ ، ثبتا، فھما یعنی آپ ثقہ ، نہایت پختہ اور سریع الفہم محدث تھے بحوالہ تاریخ بغداد جلد ۹ ص ۳۷۵ طبع المکتبۃ السلفیہ المدینہ المنورہ

۲۔ یحیی بن معین
یہ نہایت مشہور بلند پایہ محدث و امام جرح و تعدیل اور صحاح ستہ کی احادیث کے مرکزی راویوں میں سے ہیں بحوالہ تہذیب التہذیب العسقلانی جلد ۱۱ ص ۲۸۰ طبع مطبعۃ مجلس دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن

۳۔ حجاج بن محمد
ان کا شمار ثقات اثبات میں ہوتا ہے نیز یہ صحاح ستہ کے راویوں میں سے ہیں بحوالہ تقریب التہذیب العسقلانی ص ۲۵ طبع دارنشر الکتب الاسلامیۃ گوجرانوالہ

۴۔ ابن جریج
یہ بھی حدیث کے ائمہ اعلام میں سے ہیں اور حدیث کی چھ مشہور ترین کتابوں صحاح ستہ کے معزز راویوں میں سے ہیں بحوالہ خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال للخزرجی ص ۲۴۴ طبع مکتب المطبوعات الاسلامیہ بیروت

۵۔ حکیمہ بن امیمہ
یہ کبائر تابعیات میں سے ہیں ابوداؤد نسائی بیہقی اور محی السنۃ البغوی نے ان کی حدیث کو حجت مانا ابن حبان ، حافظ ابن حجر و ملا علی قاری نور الدین الھیثمی ، مناوی ، نووی اور التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی کے غیر مقلد مصنف بھوجیانی اور مشہور غیر مقلد محدث احمد حسن دہلوی وغیرہم نے ان کی توثیق کی۔ حوالہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں
السنن ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب فی الرجل یبول باللیل فی الاناء الخ جلد ۱ ص ۴ طبع اصح المطابع کراچی، المجتبی من السنن النسائی کتاب الطہارۃ باب البول فی الاناء جلد ۱ ص ۱۴ ، السنن الکبری البیہقی جلد ۱ ص ۹۹ ، السنن الکبری للبیہقی کتاب النکاح باب ترکہ الانکار علی من شرب بولہ و دمہ جلد ۷ ص ۶۷،کتاب الثقات لابن حبان کتاب التابعین جلد ۴ ص ۱۹۵ ، شرح السنۃ للبغوی جلد ۱ ص ۳۸۸، تہذیب التہذیب للعسقلانی جلد ۱۲ ص ۴۱۱، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للقاری جلد ۱ ص ۳۶۳، مجمع الزوائد و منبع الفوائد للھیثمی جلد ۸ ص ۷۲۱، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی جلد ۵ ص ۱۷۷ و ۱۷۸ ، التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی جلد ۱ ص ۷ طبع المکتبہ السلفیہ لاہور ، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوۃ جلد ا ص ۷۱
نیز ابن حبان حاکم و ذہبی اور حسب مایفھم من کلام ابن حجر تلمیذ دارقطنی ، حافظ ابوذر الھروی اور حافظ سیوطی وغیرہم بہت سے محدثین کبار نے نیز غیر مقلدین کے مایہ فخر وناز محدث البانی نے ان کی حدیث کو صحیح بتایا ہے
حوالہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں :
موارد الظمان الی زوائد ابن حبان للھیثمی ص ۶۵، التعلیق علی شرح السنۃ للبغوی جلد ۱ ص ۳۸۸ ، الصحیح لابن حبان جلد ۳ ص ۲۹۳ ، الصحیح المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد ۱ ص ۱۶۷، تلخیص الحبیر فی تخریج الرافعی الکبیر للعسقلانی جلد ۱ ص ۳۲ ، الجامع الصغیر من احادیث البشیر والنذیر للسیوطی جلد ۲ ص ۱۱۱، الخصائص الکبری للسیوطی جلد ۲ ص ۲۵۲، سنن ابوداود للالبانی جلد ا ص ۸ طبع مکتب التربیۃ العربی لدول الخلیج الریاض

بلکہ امام غیر مقلدین البانی نے یہ نعرہء حق بھی بلند کیا ہے: قد صححہ جماعۃ یعنی اسے محدثین کی جماعت نے صحیح قرار دیا ہے بحوالہ التحقیق لمشکوۃ المصابیح للالبانی جلد ۱ ص ۱۱۷ طبع المکتب الاسلامی بیروت و دمشق

۶۔ امیمہ بنت رقیقہ
محدثین کی تصریح کے مطابق یہ خاتون سرکار دو عالم ﷺ کی قرابتدار اور صحابیہ ہیں اور صحابہ سبھی عادل ہیں۔ رضی اللہ تعالی عنہا و عنہم اجمعین
تو جناب یہ ہے طبرانی کی حدیث امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، جسے امام سیوطی نے الخصائص الکبریٰ میں نقل فرمایا ہے جس کی سند میں نہایت قوی راوی ہیں اور اس کے تمام راوی ثقہ و بلند پایہ محدثین میں سے ہیں اس میں حضور ﷺ کے پیشاب مبارک کو صحابیہ کے پینے کا واقعہ بھی موجود ہے اور اس سند میں کوئی بھی ضعیف راوی نہیں ہے۔

خوب غور سے دیکھ کر اطمینان کر لیں ۔

یہ تو ایک حدیث کے متعلق بیان کیا ہے ، اللہ عزوجل نے توفیق مرحمت فرمائی تو ان شاء اللہ اس موضوع کے متعلق دیگر احادیث کے بارے میں بھی تحقیق پیش کی جائے گی۔
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 440389 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.