تبدیلی کیا ہے؟

سیاسی تبدیلی

ہم روزانہ یہ سنتے ہیں موجودہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ تبدیلی آئے گی۔ لیکن اب تک ملک میں تبدیلی نظر نہیں آتی۔ عوام جو ہم خود اتنے بگڑے ہوئے ہیں کہ ہم یہ چاہتے ہی نہیں کہ کوئی اچھا کام ہو۔ کیوںکہ ہم لوگ جن اداروں میں کام کررہے ہیں ان میں کوئی باہر کے لوگ نہیں ہیں ہم ہی رشوت، چوری اور تمام برے کاموں میں شریک ہیں۔ سرکاری کوئی بھی ادارہ لے لیں۔ ہر ادارے میں یہ سب کام عام ہے۔ جس کی فطرت میں یہ برائیاں شامل ہوجائیں وہ کیسے یہ تبدیلی چاہیں گے؟ پرائیویٹ اداروں کا مالکان بھی اپنے ملازموں کے ساتھ ناانصافیاں کررہے ہیں، ان کے حقوق ادا نہیں کررہے ہیں ۔ اور ملازم جہاں انہیں موقع ملتا ہے وہ بھی اپنے کام سے ، اپنے ڈیوٹی کے اوقات سے، اوور ٹائم سے انصاف نہیں کررہے ہیں۔

عمران خان اپنی ٹیم میں کسی دوسرے ملک سے لوگ تو لانے سے رہا۔ پاکستان کے مخلص اوردیانتدارعوام سیاست میں آنا ہی نہیں چاہتے یہ ایک حقیقت ہے۔ سیاست میں زیادہ تر لوگ کھانے کمانے ہی آتے ہیں۔ بڑے بڑے نامور عالموں کا حال ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ اب اس صورت میں عمران خان نے ان ہی لوگوں سے کام لینا ہے جو خود کرپٹ ہیں، یہ کرپٹ لوگ جب صاف ہوں گے اور ایماندار لوگ سیاست میں آنا شروع ہونگے تو تبدیلی یقیننا آئے گی۔ اس کے برعکس ملک کے ایک بڑے شہر کی ایک مقامی پارٹی نے جب اپنا آپ منوایا تواس وقت کے لوگ بہت بہتر تھے ہمیں متحد کرنے میں اس کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔لیکن اس میں خرابی جب آئی جب پیپلز پارٹی نے سندھ کے بعد اس شہر میں بھی کرپشن شروع کی اور ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کرعوام کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اور صرف کرپٹ لوگ اس پارٹی میں ذاتی مفاد کی خاطر شامل ہونے لگے۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں لوگ رشوتیں لینا اور ناانصافیاں کرنا عروج پر پہنچ گئیں۔

اتنی کرپٹ عوام اور حکومت کے ادارے ملک کو صحیح ڈگر پر لانے کے حق میں ہی نہیں۔ جس کو جو لیڈر پسند ہے وہ اسی کے گن گاتا ہے۔ کبھی زبان پر اور کبھی کسی شہری اور دیہی اختلاف پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہر طرح کے جرم میں شامل افراد کا استقبال بھی ہماری عوام ہی کر رہی ہوتی ہے۔ کبھی جیل سے چھوٹنے پر خوشیاں مناتی ہے، کبھی عدالت میں ججز اور وکیل اپنے فیصلے پیسے کے بل پر کر رہے ہوتے ہیں۔ مجرم بری ہوجاتا ہے اور مظلوم سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔ جب ہم خود ہی ہر سطح پر کرپشن میں ملوث ہیں تو اکیلا عمران خان کس کس سے لڑے گا۔ وہ ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں اور ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ ملک سے مخلص ضرور ہے۔ اس چیز کو دیکھتے ہوئے پچھلے حکمرانوں کی تباہی کے کارنامے یاد کرکے عمران خان کی صورت پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم میں ہی ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارا لیڈر کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔ اب یہ سوچ رکھنے والے خود کس طرح ملک سے مخلص ہوسکتے ہیں؟ اس وقت عمران خان پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے، جبکہ نام نہاد مولانا پر اللہ کی لاٹھی گھوم رہی ہے۔

مہنگائی ضرور ہوئی ہے لیکن کیا حالت جنگ میں یہ ممکن نہیں ؟ تنخواہ دار طبقہ بہت متاثر ہوا ہے اور اس بات کا عمران خان نے پہلے ہی ذکر کردیا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ مہنگائی کے ذمہ دار کاروباری ہیں ۔ ایک چھوٹا دکاندار بھی جو سامان مہنگا خریدتا ہے وہ اس سے کافی زیادہ قیمت پر گاہک کو بیچتا ہے اور اس کے سامنے عمران خان کو گالیاں بکتا ہے اور اپنا کام کر جاتا ہے۔بڑے کاروباری اپنے ملازمین کے ساتھ ناانصافیاں کررہے ہیں۔ ان کی تنخواہیں حکومت کی مقرر کردہ اسکیل سے میل نہیں کھاتیں۔ سالانہ انکریمینٹ میں کمی کرتے ہیں اور کبھی کبھی بالکل ختم کردیتے ہیں۔ اوور ٹائم کی مد میں برسوں پرانے ریٹ کے تحت اوور ٹائم دے رہے ہیں۔ پینے کا صاف پانی مہیا کرنے میں ناکام ہیں۔ میڈیکل کی مد میں سرکاری اہلکاروں سے مل کر ملازموں کا حق مارتے ہیں اور بہت کچھ خرابیاں ہورہی ہیں۔ جو اپنے ادارے کو انٹرنیشنل کا درجہ دیتے ہیں وہی اپنے ادارے کی خستہ حالی پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔یہی لوگ میڈیا پر بہت میٹھی باتیں کرتے ہیں اور دعوے کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملازمین کا بہت خیال رکھتے ہیں۔جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

کشمیر ایشو پر جو اس وقت شور مچا رہے ہیں اور جہاد کی بات کرتے ہیں انہیں یہ ضرور سوچ لینا چاہئے کہ ایٹمی جنگ کا مطلب خودکشی ہے، جہاد نہیں؟ اور خودکشی حرام ہے جو دینی جماعت کے لوگ اس پر پروپیگنڈہ کررہے ہیں انہوں نے 70 سال سے خود کشمیری ہوتے ہوئے سوائے سڑک پر بینر لے کر کھڑے ہونے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اورغیرملکی فنڈ کھا گئے۔ اس وقت عملی آزادی کی جنگ لڑتے تو کامیابی ضرور ہوتی، لیکن آپ اس سے خود مخلص نہیں ہیں۔ اس کے برعکس کشمیر پر جتنا بھی دنیا میں مغرب کو ذمہ دار ٹھیرایا جاسکتا تھا وہ عمران خان نے ہی کیا۔ چند ایک فیصلے مغربی دنیا کو ایسے کرنا پڑے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی تحریر یا کارٹون بنانے پر قانون بنا دیا ہے۔ جو ایسا کوئی کام کرے گا وہ قانونی گرفت میں آئے گا۔ پردہ کی مخالفت کرنے والے ملکوں میں پردہ کرنے پر اب کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

کسی بھی تبدیلی کے لئے وقت چاہئے ؟ چند دن میں نہ کوئی حکمران تبدیلی لا سکتا ہے اور نہ خود عوام (جبکہ وہ خود کرپٹ لوگوں کی جیل سے آزادی پر خوشیاں مناتے ہوں۔ ہم تو اپنے خونی رشتوں ، پڑوسیوں کے ہمدرد نہیں۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ پڑوسی کو لائن میں پانی آنے کی خبر ہوجائے، جب تک ہم خود نہ بھر لیں۔ پہلے زمانے کے لو گ عوام کی خاطر کنوئیں کھدوادیتے تھے اور آج بورنگ کا پانی دینے میں صاف منع کردیتے ہیں ۔ (آپ آس پاس نظر ڈالیں یہ حقیقت واضح نظر آجائے گی)۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اسے تقریبا 60سال سے زیادہ (اندازاً)عمر عطا کی، اس کی پیدائیش سے پہلے اس کو ایک قطرے سے پیدا کر کے نو مہینے اسے ایک مخصوص جگہ پر رکھا اور تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ ان تبدیلیوں میں نو ماہ لگ جاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کےلئے یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ فوراً پیدا کردے۔ لیکن اسے ہمیں سبق سکھانا مقصود ہے۔ انسان کوپیدا ہوکر نوزائیدہ، بچپن، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، پختہ عمر، ادھیڑ عمری اور بڑھاپا آنے میں 60 سال یا اس سے زیادہ لگ جاتے ہیں جبکہ یہ قدرتی عمل ہے۔ تو ایک انسان کروڑوں عوام میں تبدیلی کیسے چند دن میں لاسکتا ہے؟ ہمیں اورآپ کو بھی تبدیل ہونا پڑے گا۔ پھر مکمل تبدیلی آئے گی۔ یہ کائنات بھی سات دنوں میں وجود میں آئی۔ یعنی جب دنیا میں کچھ نہیں تھا اور ایک ہفتہ میں سب کچھ تھا۔

حرف آخر یہ کہ ایک شخص ، کشمیر، ایران و سعودی عرب جنگ کی مصالحت کے علاوہ پاکستان میں کتنے محاز پر الجھا ہوا ہے۔ اسکے باوجود ہمیں یہ تجربہ ہوا کہ پہلے کے حکمران عوام کی خدمت کرنے کا ڈنکا بجاتے رہتے تھے۔ جبکہ عمران خان کا کام عمل کرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ جو مشکل مرحلہ تھا حل ہوگیا ہے۔ ہمارے میڈیا کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے۔ یہ ملک کا کھلا دشمن ہے۔ ان کی بھی آمدنی متاثر ہوئی ہے ۔

ABDUL RAZZAQ
About the Author: ABDUL RAZZAQ Read More Articles by ABDUL RAZZAQ: 16 Articles with 9070 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.