مٹی کے پتلے اِس حضرت انسان نے جس دن سے اِس بزمِ جہاں کو
رونق بخشی ہے ایک حشر کا سا سماں ہے جو دنیا کے چپے چپے پر مچا ہے اِس مادی
پتلے بے راس گھوڑے کے قدم مبارک جہاں بھی گئے فتنوں کانیا جہاں آباد کر تا
گیا اِ س کی شر انگیزی اپنی حد تک رہتی تو بات ٹھیک تھی لیکن اِس نے تو
وحشی عفریت کا روپ دھار کر لاکھوں انسانوں اور آبادیوں کو صفحہ ہستی سے
مٹانے پر کمر باندھ رکھی ہے انسان کی اِس شر انگیزی اور بے راس گھوڑے کو
لگام ڈالنے کا کام اگر کسی نے احسن طریقے سے کیا ہے تو یہ اہل حق اولیا ء
کرام کا ہی گروہ ہے جہاں پر صالح انسانوں کو ڈھالا جاتا ہے جہاں پر انسان
سازی کردار سازی پر دھیان دیا جاتا ہے جہاں پر انسان کے اندر موجود نفرت
غصے حسد بغض کینے کے سانپوں کو مار کر انسانیت سے محبت کر نے والے انسان
تیار کئے جاتے ہیں کر ہ ارضی پر موجود اِن خاک نشینوں کی خانقاہوں درگاہیں
اور مزارات ہی وہ امن کے گہوارے ہیں جہاں پر انسان سے محبت کا درس دیا جاتا
ہے نفس کے رزائل کو دھویا جاتا ہے یہاں پر ہی روح کثافت کا لباس اتار کر
لطافت کی صبا پہن لیتی ہے پھر یہ روح ایمان کے سورج بن کر جہالت کے
اندھیروں کو ایمان کے اجالوں میں بدلتی ہے بابا فرید ؒ خواجہ قطب الدین
بختیار کاکی ؒ کی غلامی میں آنے کے بعد چلہ کشی اور کثافت کو لطافت میں کمر
ٹھونک کر مصروف ہو گئے ایک بار خواجہ قطب ؒ نے حکم دیا کہ نماز معکوس ادا
کرو یہ نماز کسی کنویں میں الٹا لٹک کر ادا کی جاتی ہے جسم کے شریر گھوڑے
کو سدھارنے کے لیے لہٰذا ااپ اِس خاص چلے کے لیے والدہ ماجدہ کی اجازت لے
کر اوچ شریف تشریف لے گئے جہاں مسجد حاج میں نماز معکوس کو ادا کیا بابا
صاحب ؒ کی ساری زندگی تذکیہ نفس کے لیے چلوں مجاہدوں میں نظر آتی ہے انہوں
نے مکہ شریف میں جبل فرید ہندی اور بیت المقدس میں زاویہ فرید یہ کے مقام
پر سخت چلا کا ٹا‘ خاکسار کو چند سال پہلے اجمیر شریف خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری ؒ کے آستانے پر اُس جگہ کو دیکھنے کا شرف ملا جہاں بابا فریدؒ
نے چلا کاٹا اجمیر شریف کے علاوہ چاٹگام فرید آباد ملتان منگھو ہ پیر کرا
چی ریواڑی کلر کہار جہلم دہلی اوچ شریف ہو شیار پور فرید کوٹ ہانسی اور
لاہور میں چلہ کشی کی لاہور میں شہنشاہ لاہور داتا علی ہجویری ؒ کے مزار کے
جنوب کی طرف ٹیلا بابا فرید بہت مشہور ہے معرفت کے طالبین اُس ٹیلے کا طواف
کر تے نظر آتے ہیں پانچ محرم کو وہاں میلا لگتا ہے عقیدت مند اُس دن میٹھی
کھچڑی کی تیار کر کے متوالوں میں تقسیم کر تے ہیں کاٹھ کی روٹی بھی بہت
مشہور ہے جو آپ ؒ کے برکات میں آج بھی موجود ہے بابا جی ؒ درختوں کے پتوں
سے گزارا کر تے مکئی کو دیکھ کر یا چاٹ کر گزارا کر لیتے یہ روٹی والد
گرامی نے بنوا کر دی تھی اِس میں کوئی شک نہیں کہ وادی تصوف کی پر خار وادی
میں سالکین نے ریاضت مجاہدے کی عظیم مثالیں قائم کیں لیکن عبادت ریاضت اور
چلہ کشی میں جو مقام یا ریاضت بابا فرید ؒ کو حاصل ہے یہ کسی اور کو حاصل
نہیں ہے اِسی چلہ کشی کے دوران وہ عظیم ترین واقعہ پیش آیا جو لوحِ تاریخ
پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر رہ گیا جب خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین
چشتی اجمیری ؒ اپنے لاڈلے مرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی درخواست پر
دہلی تشریف لا ئے تو تذکرہ نویسیوں نے اِس مرشد مرید کی محبت کو بڑے
والہانہ انداز میں بیان کیا ہے جو مرشد کامل اور مرید کے نازک خاص تعلق کو
اجاگر کر تا ہے کہ جب شہنشاہ ِ ہند خواجہ قطب ایک بار دہلی تشریف لاتے ہیں
تو سارا شہر آپ ؒ کے دیدار اور قدم بوسی کے لیے حاضر ہو تا ہے رات کو جب سب
چلے جاتے ہیں تو خواجہ ہند فرماتے ہیں خواجہ قطب ؒ اب اپنے خاص مریدوں کو
بلا ؤ تاکہ وہ بھی ملاقات کر لیں تو ان لوگوں میں بابا فرید ؒ بھی تشریف
لاتے ہیں تو خواجہ قطب فرماتے ہیں بابا فریدؒ اپنی قسمت پر نازاں ہو جاؤ کہ
میرے مرشد خواجہ خواجگان شاہ اجمیر ؒ تشریف لائے ہیں اُن کی قدم بوسی کر کے
اپنی قسمت کو چار چاند لگا لو بابا فرید ؒ نے حکم سنا تو فوراخواجہ معین
الدین ؒ کے قدموں کی بجائے اپنے مرشد خواجہ قطب ؒکے قدموں سے لپٹ جاتے ہیں
پھر مودب ہو کر بیٹھ جاتے ہیں تو خواجہ قطب ؒ دوبارہ فرماتے ہیں بابا فریدؒ
میرے مرشد تمہارے دادا مرشد خواجہ معین الدین ؒ تشریف لائے ہیں اُن کی قدم
بوسی کیجئے یہ سن کر بابا فریدؒ پھر اپنے مرشد خواجہ قطب ؒ کے قدموں پر گر
جاتے ہیں تو خواجہ قطب ؒ گرے ہوئے مرید بابا فریدؒ کو اٹھا کر کہتے ہیں
بابا فرید ؒ ہم تمہیں اپنا نہیں حضور شاہ اجمیر ؒ میرے مرشد کی قدم بوسی کا
کہہ رہے ہیں تو سلسلہ چشت کے نووارد چراغ بابا فریدؒ پھر اپنے مرشد خواجہ
قطب ؒ کے قدموں سے لپٹ کر عقیدت میں زارو قطار رونا شروع کر دیتے ہیں تو دل
کے حقیقی راجہ خواجہ معین الدین ؒ دلنواز تبسم اور لہجے سے کہتے ہیں قطب ؒ
تمہارا مرید تمہارے عشق میں اِس قدر غرق ہے کہ اُسے تمہارے علاوہ اور کچھ
نظر ہی نہیں آتا اور ایک مرید کو ہو نا بھی ایسے ہی چاہیے تم نے وہ شہباز
پکڑا ہے جس کی پرواز معرفت کے آسمانوں میں ہو گی بابا فریدؒ کی اپنے مرشد
سے محبت عقیدت دیوانہ وار تھی آپؒ فنا فی الشیخ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے
کہ مرشد کے علاوہ کسی طرف نظر ہی نہیں اٹھتی تھی آپ دن رات مرشد کے عشق کی
آگ میں سلگتے رہتے موقع کی تلاش میں رہتے کس طرح مرشد کی تو جہ حاصل کر
سکوں محبت کا حق ادا کر سکوں اِسی چلہ کشی کے دوران ایک رات آپ ؒ مرشد کی
وضو کی خدمت پر مامور تھے کہ شدید سردی کے موسم میں گرم پانی کے لیے آگ کی
ضرورت پڑگئی اب بابا جی ؒ آگ کی تلاش میں رات کو نکل پڑے سارا شہر تاریکی
میں ڈوبا ہوا تھا ایک گھر میں روشنی نظر آئی تو بابا جی ؒ نے جا کر اُس
دروازے پر دستک دی مالک مکان ایک جوان شریر خوبرو عورت تھی اُس نے دروازے
پر خوبصورت دلکش نوجوان کو کھڑے دیکھا تو شوخ لہجے میں بولی کس سے ملنا ہے
جوان فرید عورت کی شرارت اور شوخ لہجے سے لرز کر رہ گئے نظریں جھکائے ہوئے
بو لے میں ایک ضرورت مند ہوں جو آگ کی تلاش میں آپ کے در پر آگیا ہے عورت
آپ ؒ کے مقام سے ناواقف تھی آپ ؒ کو لبھانے اور دل لگی کی باتیں کر نے لگی
بابا فریدؒ اُس کو نظر انداز کر کے بو لے مجھے آگ کی ضرورت ہے وہ دے دیں تو
عورت شرارت سے بو لی آگ کا معاوضہ دینا ہو گا بابا جی ؒ فوری بو لے کیا
معاوضہ تو عورت شرارت سے بو لی آگ کے بد لے میں اپنی خوبصورت آنکھ مجھے دے
دو اور آگ لے جاؤ رات گزر رہی تھی جوان فرید ؒ مرشد کے گرم پانی کے لیے کچھ
بھی کر نے کو تیار تھے بولے ٹھیک ہے آپ آگ دیں میں آنکھ تو نکال کر نہیں دے
سکتا لیکن اِس کو پھوڑنے کی یا نکالنے کی کو شش کر تا ہوں ساتھ ہی بابا
فریدؒ نے اپنی انگلیاں آنکھ میں پیوست کر نا شروع کر دیں تو عورت ڈر گئی تم
آنکھ نہ نکالوں میں آگ لا تی ہوں لیکن اِس دوران بابا فرید ؒ اپنی آنکھ کو
بری طرح زخمی کر چکے تھے عورت آگ لائی تو بابا فریدؒ اپنے مرشد خانے کی طرف
دوڑے خواجہ قطب ؒ نے دیکھا کہ اُن کے لاڈلے مرید کی آنکھ پر رومال بندھا
ہوا ہے لیکن چہرے پر تابعداری کے چراغ روشن تھے خواجہ قطب ؒ نے پوچھا بابا
تمہاری آنکھ کو کیا ہوا تو بابا فریدؒ بولے آنکھ آئی ہے تو حکم ہوا رومال
کھولوں جب رومال کھولا تو آنکھ ٹھیک ہو چکی تھی درد بھی ختم ہو گیا تھا
بابا فریدؒ خواجہ قطب ؒ کی یہ کرامت آج بھی دیکھی جا سکتی ہے بابا فریدؒ کی
نسل کے لوگوں میں آج بھی دائیں آنکھ چھوٹی ہو تی ہے اور بائیں تھوڑی بڑی
اصل حقیقی فریدی نسل کے باشندوں میں یہ فرق دو عظیم بزرگوں کی محبت کی اعلیٰ
نشانی ہے ۔
|