مجھے آرام سے پیار ہے لیکن پیار مجھے آرام سے نہیں رہنے
دیتا۔ مجھے بچپن سے آرام کا شوق تھا ۔
گھر سے مہمان چلے جاتے تو میں خوش ہوتا کہ اب آرام سے لیٹ کر اپنی پسند کا
ڈرامہ دیکھوں یا دلچسپ کتاب پڑھوں گا ، اینرجایل پیتے اوولٹین کھاتے جو نمی
سے دوسروں کے لیے ناقابل استعمال مگر میرے لیے میری مرغوب جمی ہوئی چاکلیٹ
اور پتھر کی طرح سخت، جو میرے ہونٹوں کی گرمی سے پگھلنے لگتی اور پیاس
بُجھنے لگتی اور یوں میری تنہا محفل سجنے لگتی۔
والد صاحب سے پیار اور اس پیار میں ان کی ناراضگی کا خوف مجھے پڑھنے لکھنے
میں لگا دیتا اور پھر ایسا لگتا کہ دل لگ جاتا اور ایسا لگتا کہ اپنی پسند
کی کزن کا دل ، نا چاہتے بھی توڑنا پڑتا اور آرام چھوڑنا پڑتا اور محبت کا
پسندیدہ کام چھوڑنا پڑتا اور اس سے کچھ گھنٹوں کے لیے ناطہ توڑنا پڑتا۔
والد صاحب کے محبت بھرے تجربہ کار مشورے اور مولوی صاحب کے روحانیت سے
سرشار مشورے کے بعد میڈیکل کی تعلیم کو آرام پسندی کی وجہ سے چھوڑا تو
کاروبار سے پیار کی وجہ سے پھر سے آرام چھوڑنا پڑا اور دل لگ گیا اور ایسا
لگا کہ سب کچھ چھوٹ گیا اور بہت سے لوگوں کا دل ٹوٹ گیا۔
نا موسیقی سے دلچسپی رہی نا ارسلان صدیقی سے جو بچپن کا مہندیوں کے ناچ
گانے کا ساتھی اور کزن جس کے جملوں میں وزن اور دافع حزن ۔
کاروباری مشکلات سے بچنے کے لیے
کراے پر اٹھایا تو بہت کچھ قلم زد ہوا پھر بیٹھے بٹھائے کاروباری ایسوسیشن
کا چیئر مین نامزد ہوا جس کے نتیجہ میں نہ صرف آرام سے گئے بلکہ کام سے گئے
اور سانولی کی محبت کے دام سے گئے بلکہ ہر کام سے گئے۔
کیا حُسن اتفاق ہے ان کی گلی میں ہم
ایک کام سے گئے تھے ، ہر کام سے گئے
اب اس ذمہ داری کے بعد محبتوں کو ایک سال کے لیے آمروں کی طرز پر آئنِ محبت
کے سلسلوں کو ایک سال کے لیے معطل کر دیا اور دل کو کچھ اس طرح سمجھا لیا
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا اسے بھول جا
گم تھا تیرے ہی دھیان میں تری آس تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں مرے ساتھ آ اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا تو بھی مسکرا اسے بھول جا
مگر میں نہیں بھول پایا اور یہ سمجھ نہیں آتا کہ
مجھے آرام سے پیار ہے یا پیار سے آرام
پیار ہی کرواتا ہے مجھ سے سارے کام |