تحریر سیدہ حمیرا فاطمہ
چند روز قبل ایک انڈین فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ فلم بہت مزاحیہ خیز تھی
لیکن اس میں چند ڈائیلاگ اور مناظر نے سوچ کے کئی دروازے کھول دیے، دماغ
سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ، ہم لباس کیوں پہنتے ہیں؟ اور ہمارا لباس ہمیں
کیسے تحفظ فراہم کرتا ہے؟ اس فلم میں لباس کو مذاہب کی نشاندہی کرتے ہوئے
دیکھایا گیا ہے اور یہ بھی دیکھایا ہے اگر لباس بدل دیا جائے تو ہمارا مذہب
بھی بدلا ہوا لگتا ہے۔
انہی سوچوں میں گم تھی کہ چند سال قبل سعودیہ عرب میں پیش آیا واقعہ یاد
آگیا، جب مسجد نبوی کے وضو خانے میں ایک بچی نے سوال کیا! ’’باجی آپ
پاکستان سے ہیں‘‘؟ میں نے کہا ہاں اور ساتھ ہی حیرانی بھی ہوئی کہ نہ تو
میں اس کو جانتی ہوں، نہ ہی میں نے اس سے بات چیت کی ہے اور نہ ہی اس نے
مجھے بولتے سنا ہے پھر کیسے اس نے پہچانا! میں نے اس سے سوال کیا کہ تم کو
کیسے پتا چلا کہ میں’’پاکستانی‘‘ہوں؟ اس کا جواب بڑا ہی منفرد لگا کہ آپ کے
لباس سے۔ میرے لباس سے! کیسے؟ کیونکہ میں نے تو عبایا پہنا ہوا ہے!! اس بات
پر جو اس نے کہا وہ سن کر بچی کی سوچ اور دیکھنے کی باریکی پر دل عش عش کر
اٹھا، اس نے کہا کہ آپ کے عبایہ میں سے آپ کی شلوار کے پانئچے نظر آرہے ہیں
اور شلوار قمیض پاکستان کا لباس ہے، شلوار قمیض پاکستان کا قومی لباس ہے
جبکہ دوسرے ممالک کی مسلمان خواتین اسکاٹ، ٹراؤزر یا پینٹ پہنتی ہیں۔یہ
واقعہ چند دن تو دماغ میں رہا اور پاکستان آکر گھر میں ذکر بھی کیا، پھر
بھول گیا۔ لیکن فلم دیکھنے کے بعد اس واقعے کی یاد تازہ د ہوگئی کئی سوالات
اجاگر ہونے لگے۔
ہم لباس کیوں پہنتے ہیں؟ اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے؟ اپنی پہچان بنانے
کے لئے؟ اپنی پہچان بدلنے کے لئے؟ یا اپنے آپ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے؟
کیا وجہ ہے جو ہم لباس کو زیبِ تن کرتے ہیں؟ حج یا عمرہ کرنے صرف مسلمان ہی
جاتے ہیں، اس لئے اس بچی نے کپڑوں سے اندازہ لگایا کہ میں پاکستانی ہوں
لیکن اگر میں ایسی جگہ ہوتی جہاں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موجود ہوتے تو کیا
میرا لباس ایسا ہے جو میری پہچان کو چھین رہا ہے یا پہچان کو نمایاں کر رہا
ہے۔
آج اگر اپنے اردگرد نظریں ڈورائیں تو مسلمان اور نو مسلم میں فرق کرنا
انتہائی دشوار اور ناگزیر لگتا ہے کیونکہ کہ ایک نیا رواج چل نکلا ہے
لڑکیوں اور کچھ خواتین میں کہ سروں پر پورا تھان لپیٹا ہوا ہوتا ہے جو گردن
کے گرد ہی بل کھاتا رہتا ہے اور پہنے والے کو ایسے نمایاں کرتا ہے کہ
دیکھنا نہ بھی چاہو تو دیکھنے پر مجبور کرتا ہے اور اس کے ساتھ لباس ایسا
ہوتا کہ جسم پوشی کے بجائے جسم فاشی کا کام دے رہا ہوتا ہے۔ بالکل چست اور
تنگ لباس پہنا ہوتا ہے کہ جسم کے خدوخال نمایاں ہورہے ہوتے ہیں۔
جو خواتین یا لڑکیاں عبایا پہنتی ہیں ان میں سے کچھ ایسے اور اس طرح سے
عبایا پہنتی ہیں کہ، پہنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، اتنے بھڑکیلے، رنگ
برنگے، ڈیزائن اور باریک و چست عبایہ کا استعمال کرتیں ہیں کہ ان کو دیکھ
کر خواتین شرما جاتیں ہیں اور دل سوچتا ہے کہ اس سے بہتر ہے کہ یہ لوگ
عبایہ پہنے ہی نہیں۔
لباس ایسا ہو جو ہم کو لوگوں کی بری نظروں سے اوجھل رکھے، تحفظ کا احساس دے،
نہ کہ لوگوں کو گناہ کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بنے، کیونکہ معاشرے میں
بڑھتی ہوئی بے حیائی کی وجہ ’’ہمارا لباس‘‘ ہے۔ صرف لڑکیوں یا خواتین کا
لباس ہی نہیں بلکہ مردوں کا لباس بھی ایسا ہوتا ہے کہ ان کی بھی جسم فاشی
ہورہی ہوتی ہے یہاں تک کہ ان کے پیچھے والوں کی نماز کو خراب کررہا ہوتا،
یعنی لباس معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کو روک سکتا ہے۔ رہی سہی کسر
ہمارا میڈیا پوری کررہا ہے، ڈراموں میں عجیب و غریب لباس اور بے باک جملوں
کا استعمال عام ہوگیا ہے، معاشرے کی برائیاں جو %20 ہوتی تھیں اب ان کی
شرح90 %تک لے جایا جارہا ہے، بار بار دیکھا کر لوگوں کو برائی کی طرف مائل
کررہا ہے۔
|